وادی کشمیر جو کہ پوری دنیامیں اپنی خوبصورتی کےلئے مشہور ہے اور اس خطے کو زمین پر جنت کا نام دیا جاتا ہے اس وادی میں جہاں ایک طرف قدرتی خوبصورتی ہے اور قدرت کا شاہکار ہے وہیں اس جگہ نے ایشی شخصیات کو بھی پیدا کیا ہے جنہوںنے اس خطے کا نام روشن کیا ۔ ان میں شاعر، فنکار ، قلم کار ، ادیب اور اداکار بھی ہیں ۔سر سبز اور شاداب وادی کی اس حسین دنیا میں سنیما نے مزید نکھار پیدا کیا ۔ فلم سازی کی صنعت نے اس خطے کی خوبصورتی کی تعریف کی اور فلموں کی عکس بندی کے ذریعے قدرتی خوبصورتی کے حسین مناظر کو دنیا تک پہنچایا ۔ وادی کشمیر میں فلموں کی عکس بندی سے نہ فلمی سیاحت کو بھی فروغ ملا اور زیادہ سے زیادہ فلموں کی عکس بندی کےلئے راہ ہموار کی ۔ قارئین وادی کشمیر اور فلموں کی دنیا کے درمیان میل جھول آج کا نہیں ہے بلکہ یہ دہائیوں پُرانا ہے ۔ ایک وقت تھا جب بالی ووڈ کی ہر فلم کی عکس بندی کشمیر کی خوبصورتی پہاڑیوں میں ہوا کرتی تھی اور وہ کوئی فلم نہ تھی جس کا کوئی نہ کوئی حصہ یہاں فلمایا نہ جاتا تھا ۔ قارئین کو بتادیں کہ انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائیاں کشمیر کے لیے ایک ایسے خواب ناک دور کی حیثیت رکھتی ہیں جسے آج بھی “سنہرا سنیما دور کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں بالی ووڈ کے فلم سازوں نے وادی کو رومانس کے لیے ایک بے مثال منظرنامہ پایا۔ ڈل جھیل کی لہریں، مغل باغات کی رعنائیاں، شکارہ کی پرسکون سواریاں اور گلمرگ کی برف پوش ڈھلوانیں سلور اسکرین پر محبت اور سکون کی ایسی تصویروں میں ڈھلیں جنہوں نے لاکھوں دلوں کو مسحور کیا۔ ”کشمیر کی کلی، جب جب پھول کھلے، بوبی اور سلسلہ“ جیسی فلمیں محض کہانیاں نہ تھیں بلکہ کشمیر کی کھوئی جیتی تصویر کو دنیا کے سامنے ایک خواب کی طرح پیش کرتی رہیں۔ ان فلموں نے سیاحوں کے لیے ایک ایسا دعوت نامہ تیار کیا جس کے سحر نے نئی شادیاں کرنے والے جوڑوں اور مسافروں کو وادی کی طرف کھینچا۔ ہاو ¿س بوٹس کی چمک بڑھی، مقامی دستکاری کو پہچان ملی اور کشمیر کی دلکشی ہندوستانی مقبول ثقافت کا لازمی حصہ بن گئی۔مگر پھر 1990 کی دہائی آئی اور یہ جادو جیسے اچانک تھم سا گیا۔ حالات کی خرابی نے فلم سازوں کو دور دھکیل دیا۔ وہی مناظر جو کبھی فلمی کیمروں کی آنکھ تھے، سنّاٹے میں ڈوب گئے۔ بالی ووڈ نے اپنی کہانیاں کہنے کے لیے ہماچل، اتراکھنڈ اور یہاں تک کہ سوئٹزرلینڈ کا رخ کیا۔ اس خلا نے سیاحت اور مقامی معیشت کو بھی گہرا دھچکا پہنچایا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیر کی تصویر لوگوں کے دلوں اور اجتماعی یادداشت سے کبھی مٹ نہ سکی۔ وادی ایک ادھوری کہانی کی طرح زندہ رہی، جس کا نیا باب لکھنے کے لیے وقت منتظر تھا۔تاہم گزشتہ ایک دہائی میں حالات میں بہتری اور فلم سازوں کی نئی کوششوں کے ساتھ یہ خواب پھر سے جاگنے لگا۔ ”راک اسٹار، ہائی وے اور حیدر“ی فلموں نے کشمیر کو ایک بار پھر اسکرین پر واپس لایا، جبکہ ویب سیریز اور علاقائی فلموں نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے اس دلکشی کو عالمی ناظرین تک پہنچایا۔ یہ محض فلموں کی واپسی نہیں تھی بلکہ ایک نئے اعتماد کی بحالی تھی—ایسا احساس کہ وادی پھر سے کہانی سنانے کے لیے تیار ہے۔
فلمی عملے کی آمد اب محض کیمرے اور لائٹس تک محدود نہیں رہی۔ جب شوٹنگ شروع ہوتی ہے تو ہوٹل آباد ہوتے ہیں، ٹرانسپورٹ چلتی ہے، دستکاروں کے ہنر کو پہچان ملتی ہے اور دکانیں زندگی سے بھر جاتی ہیں۔ بعد میں وہی مقامات سیاحوں کے لیے کشش بن جاتے ہیں جو اپنے پسندیدہ فنکاروں کے قدموں کے نشان دیکھنے کو آتے ہیں۔ ”بیتاب ویلی، ڈل جھیل اور گلمرگ“آج بھی اس رجحان کی زندہ مثال ہیں۔
فلمی کلچر کی واپسی نے نہ صرف روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں بلکہ مقامی آبادی کو یہ اعتماد بھی دیا ہے کہ ان کا ورثہ اور روایات جدید تخلیقی اظہار کے ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سنیما آج کشمیر کے لیے ثقافتی سفارت کاری کا ایک ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ یہ دنیا کو صرف وادی کی خوبصورتی ہی نہیں بلکہ یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی، لچک اور تخلیقی صلاحیتوں سے بھی روشناس کراتا ہے۔ کشمیری گلوکاروں اور فنکاروں کی بڑھتی ہوئی موجودگی—جیسے مشہور گانوں میں ان کی آوازیں—یہ ثابت کرتی ہیں کہ فلمی سیاحت اب صرف باہر سے آنے والے تاثرات پر منحصر نہیں بلکہ وادی کے اندر سے اٹھتی آوازوں کی بھی پہچان ہے۔
اس امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے ”جموں و کشمیر فلم پالیسی 2021“ متعارف کرائی، جس کے تحت فلم سازوں کو سبسڈی، ٹیکس میں رعایت اور آسان اجازت نامے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ پرانے سنیما ہالز کی بحالی، فلمی میلوں کا انعقاد اور نئے قدرتی مقامات کی نشاندہی اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اب کشمیر کو صرف فلمی پس منظر کے طور پر نہیں بلکہ ایک مکمل فلمی صنعت کے طور پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم یہ سفر چیلنجز سے خالی نہیں۔ ڈل جھیل جیسے نازک ماحولیاتی نظام پر بڑھتی سیاحت کا دباو ¿، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور ماحولیات کے خدشات وہ مسائل ہیں جن سے محتاط منصوبہ بندی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اصل ضرورت ایک ایسے توازن کی ہے جو وادی کے قدرتی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھتے ہوئے تخلیقی دنیا کا خیرمقدم کرے۔
کشمیر کی فلمی کہانی اب محض مناظر کی نمائش نہیں رہی، یہ شناخت، فخر اور بحالی کی داستان ہے۔ یہاں شوٹ ہونے والی ہر فلم میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ فاصلے مٹا سکے، معاشی مواقع پیدا کرے اور اس دھرتی کو فن، ثقافت اور فطرت کی زندہ شاعری کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکے۔ اگر اس خواب کو ذمہ داری کے ساتھ پروان چڑھایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر ایک بار پھر عالمی سنیما کا دل بن جائے گا۔جہاں لوگ صرف فلمیں دیکھنے نہیں آئیں گے بلکہ ایک جیتی جاگتی فلم میں قدم رکھنے کا تجربہ کریں گے۔
وادی کشمیر جو کہ پوری دنیامیں اپنی خوبصورتی کےلئے مشہور ہے اور اس خطے کو زمین پر جنت کا نام دیا جاتا ہے اس وادی میں جہاں ایک طرف قدرتی خوبصورتی ہے اور قدرت کا شاہکار ہے وہیں اس جگہ نے ایشی شخصیات کو بھی پیدا کیا ہے جنہوںنے اس خطے کا نام روشن کیا ۔ ان میں شاعر، فنکار ، قلم کار ، ادیب اور اداکار بھی ہیں ۔سر سبز اور شاداب وادی کی اس حسین دنیا میں سنیما نے مزید نکھار پیدا کیا ۔ فلم سازی کی صنعت نے اس خطے کی خوبصورتی کی تعریف کی اور فلموں کی عکس بندی کے ذریعے قدرتی خوبصورتی کے حسین مناظر کو دنیا تک پہنچایا ۔ وادی کشمیر میں فلموں کی عکس بندی سے نہ فلمی سیاحت کو بھی فروغ ملا اور زیادہ سے زیادہ فلموں کی عکس بندی کےلئے راہ ہموار کی ۔ قارئین وادی کشمیر اور فلموں کی دنیا کے درمیان میل جھول آج کا نہیں ہے بلکہ یہ دہائیوں پُرانا ہے ۔ ایک وقت تھا جب بالی ووڈ کی ہر فلم کی عکس بندی کشمیر کی خوبصورتی پہاڑیوں میں ہوا کرتی تھی اور وہ کوئی فلم نہ تھی جس کا کوئی نہ کوئی حصہ یہاں فلمایا نہ جاتا تھا ۔ قارئین کو بتادیں کہ انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائیاں کشمیر کے لیے ایک ایسے خواب ناک دور کی حیثیت رکھتی ہیں جسے آج بھی “سنہرا سنیما دور کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں بالی ووڈ کے فلم سازوں نے وادی کو رومانس کے لیے ایک بے مثال منظرنامہ پایا۔ ڈل جھیل کی لہریں، مغل باغات کی رعنائیاں، شکارہ کی پرسکون سواریاں اور گلمرگ کی برف پوش ڈھلوانیں سلور اسکرین پر محبت اور سکون کی ایسی تصویروں میں ڈھلیں جنہوں نے لاکھوں دلوں کو مسحور کیا۔ ”کشمیر کی کلی، جب جب پھول کھلے، بوبی اور سلسلہ“ جیسی فلمیں محض کہانیاں نہ تھیں بلکہ کشمیر کی کھوئی جیتی تصویر کو دنیا کے سامنے ایک خواب کی طرح پیش کرتی رہیں۔ ان فلموں نے سیاحوں کے لیے ایک ایسا دعوت نامہ تیار کیا جس کے سحر نے نئی شادیاں کرنے والے جوڑوں اور مسافروں کو وادی کی طرف کھینچا۔ ہاو ¿س بوٹس کی چمک بڑھی، مقامی دستکاری کو پہچان ملی اور کشمیر کی دلکشی ہندوستانی مقبول ثقافت کا لازمی حصہ بن گئی۔مگر پھر 1990 کی دہائی آئی اور یہ جادو جیسے اچانک تھم سا گیا۔ حالات کی خرابی نے فلم سازوں کو دور دھکیل دیا۔ وہی مناظر جو کبھی فلمی کیمروں کی آنکھ تھے، سنّاٹے میں ڈوب گئے۔ بالی ووڈ نے اپنی کہانیاں کہنے کے لیے ہماچل، اتراکھنڈ اور یہاں تک کہ سوئٹزرلینڈ کا رخ کیا۔ اس خلا نے سیاحت اور مقامی معیشت کو بھی گہرا دھچکا پہنچایا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیر کی تصویر لوگوں کے دلوں اور اجتماعی یادداشت سے کبھی مٹ نہ سکی۔ وادی ایک ادھوری کہانی کی طرح زندہ رہی، جس کا نیا باب لکھنے کے لیے وقت منتظر تھا۔تاہم گزشتہ ایک دہائی میں حالات میں بہتری اور فلم سازوں کی نئی کوششوں کے ساتھ یہ خواب پھر سے جاگنے لگا۔ ”راک اسٹار، ہائی وے اور حیدر“ی فلموں نے کشمیر کو ایک بار پھر اسکرین پر واپس لایا، جبکہ ویب سیریز اور علاقائی فلموں نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے اس دلکشی کو عالمی ناظرین تک پہنچایا۔ یہ محض فلموں کی واپسی نہیں تھی بلکہ ایک نئے اعتماد کی بحالی تھی—ایسا احساس کہ وادی پھر سے کہانی سنانے کے لیے تیار ہے۔
فلمی عملے کی آمد اب محض کیمرے اور لائٹس تک محدود نہیں رہی۔ جب شوٹنگ شروع ہوتی ہے تو ہوٹل آباد ہوتے ہیں، ٹرانسپورٹ چلتی ہے، دستکاروں کے ہنر کو پہچان ملتی ہے اور دکانیں زندگی سے بھر جاتی ہیں۔ بعد میں وہی مقامات سیاحوں کے لیے کشش بن جاتے ہیں جو اپنے پسندیدہ فنکاروں کے قدموں کے نشان دیکھنے کو آتے ہیں۔ ”بیتاب ویلی، ڈل جھیل اور گلمرگ“آج بھی اس رجحان کی زندہ مثال ہیں۔
فلمی کلچر کی واپسی نے نہ صرف روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں بلکہ مقامی آبادی کو یہ اعتماد بھی دیا ہے کہ ان کا ورثہ اور روایات جدید تخلیقی اظہار کے ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سنیما آج کشمیر کے لیے ثقافتی سفارت کاری کا ایک ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ یہ دنیا کو صرف وادی کی خوبصورتی ہی نہیں بلکہ یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی، لچک اور تخلیقی صلاحیتوں سے بھی روشناس کراتا ہے۔ کشمیری گلوکاروں اور فنکاروں کی بڑھتی ہوئی موجودگی—جیسے مشہور گانوں میں ان کی آوازیں—یہ ثابت کرتی ہیں کہ فلمی سیاحت اب صرف باہر سے آنے والے تاثرات پر منحصر نہیں بلکہ وادی کے اندر سے اٹھتی آوازوں کی بھی پہچان ہے۔
اس امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے ”جموں و کشمیر فلم پالیسی 2021“ متعارف کرائی، جس کے تحت فلم سازوں کو سبسڈی، ٹیکس میں رعایت اور آسان اجازت نامے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ پرانے سنیما ہالز کی بحالی، فلمی میلوں کا انعقاد اور نئے قدرتی مقامات کی نشاندہی اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اب کشمیر کو صرف فلمی پس منظر کے طور پر نہیں بلکہ ایک مکمل فلمی صنعت کے طور پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم یہ سفر چیلنجز سے خالی نہیں۔ ڈل جھیل جیسے نازک ماحولیاتی نظام پر بڑھتی سیاحت کا دباو ¿، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور ماحولیات کے خدشات وہ مسائل ہیں جن سے محتاط منصوبہ بندی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اصل ضرورت ایک ایسے توازن کی ہے جو وادی کے قدرتی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھتے ہوئے تخلیقی دنیا کا خیرمقدم کرے۔
کشمیر کی فلمی کہانی اب محض مناظر کی نمائش نہیں رہی، یہ شناخت، فخر اور بحالی کی داستان ہے۔ یہاں شوٹ ہونے والی ہر فلم میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ فاصلے مٹا سکے، معاشی مواقع پیدا کرے اور اس دھرتی کو فن، ثقافت اور فطرت کی زندہ شاعری کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکے۔ اگر اس خواب کو ذمہ داری کے ساتھ پروان چڑھایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر ایک بار پھر عالمی سنیما کا دل بن جائے گا۔جہاں لوگ صرف فلمیں دیکھنے نہیں آئیں گے بلکہ ایک جیتی جاگتی فلم میں قدم رکھنے کا تجربہ کریں گے۔