تعلیم وہ اہم ترین ستون ہے جس پرایک ترقی یافتہ اورباشعورمعاشرہ قائم ہوتاہے۔ یہ معاشرے میں کسی بھی فرد (افراد) کے لیے ذاتی ترقی اور ترقی کی بنیادی ریڑھ کی ہڈی ہے۔کسی بھی معاشرے میں مناسب تعلیمی نظام کی اہمیت کونوجوان نسل اوربچوں سمیت سبھی تسلیم کرتے ہیں۔اسی طرح بنیادی اوراعلی ٰتعلیم کی اہمیت اورضرور ت بھی کشمیری معاشرے میں شروع سے ہی محسوس کی جاتی ہے۔وادی کشمیرکوبہت سے تاریخ دانوں اوردانشوروں نے “علم،اچھی عادات اورادب کی سرزمین” یادوسرے لفظوں میں “علم،ادب اورعلم کی سرزمین” کے طورپرجانااورتسلیم کیاہے۔ایک پڑھالکھاشخص صحیح اورغلط یااچھے اوربری میں فر ق کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔اپنے شہریوں کوتعلیم دینامعاشرے کی اولین ذمہ داری ہے۔
آزادی کے بعد،ریاست جموں وکشمیرنے اپنا تعلیمی بورڈاوریونیورسٹی قائم کی۔وادی میں تعلیمی نظام کوپرائمری،مڈل،ہائی سیکنڈری،کالج اوریونیورسٹی کی سطح میں تقسیم کیاگیاہے۔طلباءکوتعلیم فراہم کرنے کے لیے مختلف نجی اورسرکاری اسکولوں کواسٹیٹ بورڈنے تسلیم کیاہے۔ریاستی اورنجی اداروں کی ان مختلف کوششوں کے باوجود،ریاست میں تعلیمی نظام کی مجموعی پیداوارملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں پیچھے ہے۔سرکاری اعدادوشمارکے مطابق ریاست کی شرح خواندگی 67% ہے جوکہ 2021ء کے مطابق 77% کی قومی سطح سے بہت نیچے ہے۔ایک بارپھر،ریاست میں خواتین کی شرح خواندگی 83.92% کی مردوں کی شرح خواندگی سے 56.65% بہت کم ہے (گوگل س ڈیٹا) کشمیرکاتعلیمی نظام بدعنوانی،سرکاری اسکولوں کے عملے کی عدم دلچسپی،عسکریت پسندی،سماجی پسماندگی اورقدامت پسندی جیسے مختلف مسائل سے دوچارہے۔ایک اورمسئلہ کشمیری معاشرے کے خواتین طبقے کے لیے دستیاب مطالعات کامحدودانتخاب ہے۔معاشرے کی قدامت پسندانہ نوعیت کی وجہ سے بہت سی طالبات اعلی ٰتعلیم حاصل کرنے سے قاصرہیں۔سماج کے چنداشرافیہ طبقے ہی اپنے بچوں کوریاست سے باہرقومی سطح کے اداروں میں بھیجنے میں کامیاب ہوئے۔
اس کے نتیجے میں بہت ساری نوجوان نسل اپنی مہارت،صلاحیت اورعلم کواستعمال کیے بغیرضائع ہوجاتی ہے۔مزیدیہ کہ عسکریت پسندی اورسماجی بدامنی کے مسائل نے بھی تعلیم کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی۔وادی میں آدھے سے زیادہ والدین اپنے بچوں کوتعلیم کے لیے بھیجنے میں ہچکچاتے ہیں کیونکہ انکی پڑھائی اورمحنت کاثمرناقابل تصورہے یااسکی کٹائی مشکل ہے۔کشمیریوں کے ذہنوں میں اپنی پڑھائی کے مقصدکے حصول کے لیے ہمیشہ ایک بے یقینی کی کیفیت رہتی ہے۔ 2019 میں آرٹکل 370 کی منسوخی کے بعد،ریاستی تعلیم لاک ڈاون کی وجہ سے تعطل کاشکارہوگئی ہے اوربدقسمتی سے جمودکاشکارانتظامیہ کی وجہ سے ہوا۔کسی بھی حکومت یاسول انتظامیہ نے 2019 میں طلباءکے تعلیمی سیشن کے ضائع ہونے کے بارے میں نہیں سوچا۔ایک بارپھر 2020 اور 2021 میں وبائی امراض، COVID-19 کی وجہ سے تعلیمی سیشن ضائع ہونے کاخمیازہ طلباءکودرپیش ہے۔تعلیمی لاک ڈاون کے یہ تین سال کشمیری معاشرے کے لیے ایک ناقابل ِعلاج خلاپیداکردیں گے،جس کے نتائج آنےوالی نسلوں کوآہستہ آہستہ بھگتناہوں گے۔
تاہم کشمیری معاشرے کے تعلیمی نظام میں سب کچھ برا نہیں ہے۔کشمیریونیورسٹی،شیرکشمیرانسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس،این آئی ٹی سرینگرجیسے ادارے کچھ ایسے تعلیمی مراکزہیں جن میں سیکھنے کے لیے عالمی معیارکی سہولیات اورانفراسٹرکچر موجودہے۔ان اداروں میں سیکھنے کے مختلف سلسلے اورتحقیق اورترقی کے مراکزدستیاب ہیں جن تک تمام کشمیری اوردیگرافرادآسانی سے رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
معاشرے کے طبقات۔ تحقیقی مراکزاوراعلیٰ تعلیم کے مختلف اکاونٹس سے ہمیں ان اداروں کے بہت سے پروفیسرز،سائنسدان اور ڈاکٹروں کوبھی بہت اچھی کارکردگی کامظاہرہ کرتے ہوئے اوردنیاکے سرفہرست سائنسدانوں اورماہرین تعلیم کی فہرست میں شامل ہونے چلتاہے۔مثال کے طورپر،دوکشمیری سائنسدانوں یعنی ڈاکٹرشبیرحسین وانی اورڈاکٹرشبیراحمدگنائی نے حال ہی میں عالمی درجہ بندی میں سب سے اوپر 2 فیصدکامقام حاصل کیاہے۔
اسٹینڈفورڈیونیورسٹی ریسرچ ڈیٹابیس 2021 کے مطابق سائنسدان۔ (19 اکتوبر 21 کوکشمیرریڈرمیںپب)۔اس طرح یہ صحیح نتیجہ اخذکیا جاسکتاہے کہ وادی میں مکمل طورپرخواندہ معاشرے کے لیے تمام اثاثے،بنیادی ڈھانچہ اورانسانی وسائل دستیاب ہیں۔ضرور ت صرف حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کی طرف سے بڑی محنت اورعزم کی ہے۔اگردونوں ادارے یعنی ماہرتعلیم اورطلباءتعاون کریں اورثابت قدم رہیں توریاست تعلیم میں ملک کے باقی حصوں سے آگے نکل جائےگی۔ریاست قرون وسطی کے ہندوستان کے بادشاہوں اورحکمرانوں کے زمانے سے ہمیشہ علم اورسیکھنے کے مراکزکی سرزمین رہی ہے۔