گاش روحی
گزشتہ شام جب سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف دن کا کام کاج کرنے کے بعد لوٹنے میں مصروف تھے اچانک سوشل میڈیا پر پھیلی ایک منحوس خبر نے سب کو پریشان کردیا۔
خبر جموں و کشمیر سے متعلق تھی جہاں ایک 24 سالہ خاتون تیزاب کے حملے میں شدید زخمی ہوکر اسپتال میں موت سے لڑرہی ھے۔ ایس پی نارتھ سرینگر نے اس ضمن میں پریس کو بتایا کہ پولیس نے فوری کاروائی کرکے مجرم کو اسکے ساتھی سمیت چند گھنٹوں کے اندر ہی دھر دبوچ لیا ھے۔ پولیس بیان کےمطابق ڈاون ٹاؤن میں گزشتہ شام کو ایک منچلے نے اپنے دوست کے ہمراہ حول علاقے میں اس جواں سال لڑکی پر تیزاب سے حملہ کرکے اسے شدید زخمی کردیا ھے جوکہ ہنوز اسپتال میں زیر علاج ھے۔
پولیس نے بتایا کہ گرفتار شدہ ملزم نے مذکورہ لڑکی کو شادی کی پیش کش کی تھی لیکن لڑکی نے اسے مسترد کردیا تھا۔ ملزم متاثرہ لڑکی کا گزشتہ کئی دنوں سے پیچھا کرتا تھا اور کئی مواقع پر ہراساں بھی کر چکا تھا۔ یہ سرینگر میں اس طرح کا کوئی پہلا واقع نہیں ھے بلکہ اس طرح کے بہت سارے واقعات گزشتہ چند سال کے دوران پیش آچکے ہیں جنہوں نے مہزب انسانی سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ھے۔
متعدد قوانین اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود بھارت میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
ایسی طرح سے گزشتہ پانچ سال میں پورے ملک میں1500 سو سےزائد ایسے واقعات وقوع پزیر ہوئے ہیں۔
ملک میں جرائم کے واقعات کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے ‘نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو‘ (این سی آر بی) کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک میں ‘ایسڈ اٹیک’ کے 1500 سے زائد واقعات درج کیے گئے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ ملک کے دورافتادہ علاقوں میں خواتین پر ہونے والے اس طرح کے حملوں کے کیس مختلف وجوہات کی بنا پر پولیس میں درج نہیں کرائے جاتے ہیں۔
این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق درج شدہ کیسوں میں سے بہت کم ملزموں کو سزا ہوتی ھے اس ادراے کے مطابق ان کیسوں کی پیروی ٹھیک طریقے سے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ملزم چھوٹ جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2018 میں سب سے زیادہ 61 فیصد یعنی 523 کیس مقدمے کے لیے عدالتوں تک پہنچے تاہم ان میں سے صرف 19واقعات میں ہی مجرموں کو سزا مل سکی۔ اس سے صاف ظاہر ہورہا ھے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی کارکردگی ان معاملات میں ٹھیک نہیں ھے۔ اس لئے ان
قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو اب تو جاگ جانا چاہیے’۔
بھارت میں ‘ایسڈ اٹیک’ کا شکار ہونے والوں میں یوں تو مرد بھی شامل ہیں۔ تاہم حکومتی اعدادو شمار کے مطابق 85 فیصد خواتین اور لڑکیاں ہی اس بھیانک جرم کا نشانہ بنتی ہیں۔
ایسڈ اٹیک کے لیے سب سے بدنام بھارت کی دس ریاستوں میں شامل اترپردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس وکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے اور کم از کم اب تو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو جاگ جانا چاہیے۔
سابق اعلی پولیس افسر کے مطابق بھارتی کریمنل لا میں ایسڈ حملے کے دوران متاثرہ خاتون یا مرد کو اپنا دفاع کرنے اور قریب میں موجود افراد کی جانب سے دفاعی اقدامات کی مکمل اجازت دی گئی ہے تاہم لاعلمی کے سبب اس حق کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوپاتا ہے، جس کی وجہ سے حملہ آوروں کو فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔
سابق پولیس آفیسر کے مطابق تیزاب کا ذخیرہ اور اس کی فروخت تشویش کی بات ہے۔ حالانکہ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں اور سپریم کورٹ نے رہنما خطوط بھی وضع کردیے ہیں اس کے باوجود بھارت میں باتھ روم صاف کرنے کے مقبول کیمیکل کے طورپر تیزاب ہر جگہ کھلے عام فروخت ہوتاہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق تیزاب حملے کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ ایسے حملہ آوروں کو متاثرہ شخص کو انتہائی تکلیف کی حالت میں دیکھ کر ذہنی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ انتہائی انتقامی جذبے سے مغلوب افراد چاہتے ہیں کہ وہ متاثرہ شخص کو ذہنی، جسمانی اور جذباتی ہر لحاظ سے معذور بنادیں۔ ان حملوں کو روکنے کیلئےسخت قوانین کی ضرورت ھے۔
کہ اگر تیزاب کے حملوں کو روکنا ہے تو بھارت کو بھی اس حوالے سے بہترین بین الاقوامی ضابطوں پر عمل کرنا ہوگا۔ مثلاً کمبوڈیا نے تیزاب کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک خصوصی قانون بنایا گیا ہے، جس میں ‘ایسڈ اٹیک’ کے حوالے سے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ماہرین کا مزید ماننا ھے کہ متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی بھی ایک اہم پہلو ہے۔ بھارت میں آج کی تاریخ میں 63 فیصد متاثرین کو کوئی معاوضہ نہیں مل سکا ہے۔ غرض اس حیوانی سوچ کو روکنے کیلئے ہماری عدلیہ کو بھی سخت سے سخت سزا کا تعین کرنا چاہیے تاکہ ان گھناؤنے جرائم میں ملوث ان انسان نما درندوں کو بھی اس درد کا احساس دلایا جائے جوکہ ان کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے ان معصوم بچیوں کو جھیلنا پڑتا ھے۔ غرض ھم سب پر بھی بحثیت ایک مہزب سماج کے فرد ہونے کے ناطے یہ زمہ داری عائد ہوتی ھے کہ ھم سماج میں پل رہے ایسے انسانیت کے دشمنوں پر کڑی نظر رکھیں تاکہ اس طرح کے واقعات کو ہونے سے پہلے ہی روکا جاسکے۔ ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں خاص کر پولیس پر یہ بہت ہی لازم بنتا ھے کہ اس طرح کی کسی بھی شکایت پر فوری کاروائی کی جائے تاکہ اس طرح کے سماج، انسانیت کے دشمنوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاسکے۔