سری نگر//جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان برائے جنوبی کشمیر جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے مرکزی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ خوداحتسابی سے کام لیکر 5 اگست 2019 کولئے گئے غیر آئینی اور غیر جمہوری فیصلوں کو واپس لیکر جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی عمل میں لائیں۔
صدر جمہوریہ کی تقریر کی تحریک شکریہ پر لوک سبھا میں اپنے خطاب کے دوران حسنین مسعودی نے کہا کہ میں معذرت کیساتھ کہتا ہوں کہ میں صدرِ جمہوریہ کی تحریک کی حمایت یا تائید نہیں کرسکتا۔صدرِ جمہوریہ نے اپنی تقریر میں جموں وکشمیرکا ذکر کیا اور جموں وکشمیر میں قاضی گنڈ ۔بانہال ٹنل اور کچھ انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کی بات کہی لیکن افسوس
کی بات یہ ہے کہ اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ ڈیڑھ کروڑ پر مشتمل جموں وکشمیر کی آبادی 4سال سے کسی نمائندگی اور کسی اسمبلی کے بغیر ہے۔
صدرِ جمہوریہ کی تقریر میں نہ تو اس بات کا تذکرہ کیا گیا اورنہ ہی یہ بات کہنے کی زہمت گوارا کی گئی کہ کب جموں وکشمیر میں جمہوریت بحال ہوگی۔اس بات پر بھی لب کشائی نہیں کی گئی کہ جموں وکشمیر کے عوام کے آئینی حقوق کب واپس کئے جائیں گے، جو 5 اگست2019 کو غیر آئینی اور غیر جمہوری طور پر چھینے گئے ۔
انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت کو کسانوں کے قانون سے سابق حاصل کرکے جموں وکشمیر سے متعلق لئے گئے فیصلے بھی فوری طور پر واپس لینے چاہئیں۔
مسعودی نے کہا کہ ہمارا ملک دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن جب آپ ایک ریاست کو گذشتہ ساڑھے 4 سال سے جمہوری حقوق سے محروم رکھتے ہیں تو ان دعوﺅں میں کوئی وزن نہیں رہتاہے۔
مسعودی نے مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اگر صرف ٹنل اور انڈسٹریل ڈیولپمنٹ ہی اہم تو پھر آپ 5ریاستوں میں آئندہ دنوں میں الیکشن کیوں کروا رہے ہیں؟ ان ریاستوں کو بھی 5چھ لوگوں کے حوالے کرکے افسر شاہی مسلط کردیجئے اور پھر ٹنلوں اور سڑکوں کے اعداد وشمار لوگوں کو سناتے رہئے۔
جموں وکشمیر کے حدبندی عمل پر حکمران جماعت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے حسنین مسعودی نے کہا کہ آپ لوگ جموں وکشمیر کا آبادیاتی تناسب بگاڑنا چاہتے ہیں اور جموں وکشمیر کے لوگ آپ کے حربوں اور منصوبوں سے بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب کہیں پیگاسس پر بات ہوتی ہے تو حکمران جماعت کے سبھی لوگ سیخ پا ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ معاملہ عدالت زیر سماعت ہے اور اس پر بات نہیں کی جاسکتی ہے لیکن جب جموں وکشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کی بات آتی ہے تب حکمرانوں کو اس کا زیر سماعت ہونا دکھائی نہیں دیتا اور اس ایکٹ کے تحت مسلسل اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جو سراسر غیر آئینی ہیں اور جموں وکشمیر کیلئے حدبندی کمیشن کا قیام بھی اسی مشکوک ایکٹ کے تحت لایا گیا ہے جس کی جوازیت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایک آئینی بینچ اس کو دیکھ رہاہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایسے صورتحال میں آئین کا یہی تقاضا ہے کہ حدبندی کمیشن پر کام کیا جائے ؟انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے ریاستوں کیخلاف جنگ چھیڑ دی ہے، آئین آپ کو کہاں اس کی اجازت دیتا ہے کہ آپ ایک ریاست کا درجہ کم کرکے اس کے دو حصے کردیں؟
انہوں نے کہاکہ ہر ریاست کی اپنی ایک شناخت، پہنچان اور کلچر ہے ،آپ اُس کی انفرادیت کو کیسے ختم کرسکتے ہیں؟مسعودی نے کہا کہ یہا ںجمہوریت نہیں بلکہ غنڈہ گردی اور ہٹ دھرمی سے کام لیا جارہا ہے۔
جموں وکشمیر کی ہر ایک چیز پر حملے کئے جارہے ہیں، ہم سے ہمارا پرچم چھین لیاگیا، ہمارے بچوں کو نوکریاںچھینی جارہی ہیں،ملازمین سے ملازمتیں چھینی جارہی ہیں، ہماری زمینیں چھینی جارہی ہیں اور یہ سب کچھ آبادیاتی تناسب بگاڑنے کیلئے ہورہاہے۔
آپ جموں وکشمیر کی اقتصادیات پر حملے کررہے ہیں،اس کی سیاست پر حملے کررہے ہیں، اس کی پہنچان پر حملے کررہے ہیں، اب آپ جموں وکشمیر کی میوہ صنعت پر حملے کررہے ہیں، اب آپ باہر سے بغیر ٹیکس کے میوہ لارہے ہیں تاکہ جموں وکشمیر کے میوہ کا مارکیٹ ختم ہوجائے۔
حسنین مسعودی نے لوک سبھا میں اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہاکہ جموںوکشمیرمیں جمہوریت کی تنزلی اور بے روزگاری کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کشتواڑ میں ایک عوامی منتخبہ ڈی ڈی سی چیئرپرسن دو ہفتوں سے ہڑتال پر بیٹھی ہیں کیونکہ وہاں پر جاری پروجیکٹوں میں مقامی نوجوانوں کو روزگار نہیں دیا جارہاہے لیکن
افسرشاہی میں کوئی بھی ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر میںاس وقت بے روزگاری کی شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ 23 فیصدی پر پہنچ گئی ہے۔ لیکن صدرِ جمہوریہ کی تقریر میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ تقریر میں 61000 ہزار عارضی ملازمین کی مستقلی کے لئے لائحہ عمل کا تذکرہ ہونا چاہئے تھا لیکن یہ سب کچھ نظرانداز کیا گیا ہے۔
انہوں نے مرکزی حکومت پر زور دیا کہ وہ جموںو کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کیساتھ ساتھ جمہوریت کی فوری بحالی اور عارضی ملازمین، رہبر تعلیم، سیزنل ٹیچر، آئی اے وائی، یوتھ کارپس اور دیگر کنٹریکچول ملازمین کی مستقلی کے بارے میں فوری اقدامات اُٹھائے اور ساتھ ہی سرینگر جموں قومی شاہراہ کے تعمیری کام میں سرعت لائی جائے۔
انہوں نے کہاکہ آپ دل کی دوری اور دلی کی دوری کی بات کرتے ہیں لیکن جب تک آپ جموںوکشمیر کے عوام کے جذبات اور احساسات کو نہیں سمجھیں گے اور اُن کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ نہیں دیں گے تو یہ دوری ختم ہونے والی نہیں ہے۔