امساک منشیات میں۔۔۔۔۔عورت کا رول
(سید عالیہ)
ڈاکٹر سر محمد اقبال نے عورت کے عنواں سے ایک مختصر نظم میں اللہ کی اس عظیم نعمت و رحمت کا کیا ہی اعلیٰ درجے کا نقشہ کھنیچا ہے۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگاسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروںشرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کیکہ ہرشرف ہے اسی دُرج کا دُر مکنوںمکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکناسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
لیکن ہمارے معاشرے کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس مشت خاک کو جو اہمیت اور افادیت میں ثریا سے بھی کہیں بڑھکر ہے اور ایسی ہیرے اور جواہرات کی کانی کو جس سے نہایت ہی قیمتی لال جوہر نکلے اور نکلتے ہیں کو تعلیم اور تدریس کے میدان میں پیچھے رکھا ہوا ہے۔
کوئی بھی کلچر تہذیب میں آگے نہیں بڑھ سکتا ہیجب تک نہ اس کلچر کی عورت میں تہذیب کا شعور پیدا ہو۔کسی بھی کلچر کی بنیادی اکائی گھر ہوتا ہے، اور ہر گھر کی اکائی عورت ہوتی ہے۔ اب اگر اکائی کی اکائی میں ہی کجی اور فتور ہو تو یہ کیسے ممکن ہو کہ کلچر تہذیب میں ترقی کرے گا۔ایک یہ کہ کوئی بھی کلچر تہذیب و ثقافت میں ترقی نہیں کرے گا بلکہ الٹا اسکے اندر بُرائیاں پنپیں گی۔ بالکل اسی طرح جسطرح اگر ایک بستی میں سو گھر آباد ہوں۔اور ان سو گھروں میں سے 90 گھر ایسے ہوں جو بستی کی سڑکوں اور میدانوں میں طرح طرح کی گندگیاں ڈال رہے ہوں، تو اس بستی کے لوگوں میں بیماریوں کا پھیلنا کوئی تعجب یا حیرت کی بات نہیں ہے۔ اب اگر کسی بھی ذی شعور انسان سے یہ پوچھا جائے کہ اس بستی میں انسانوں کی بیماریوں کی کیا بنیادی وجہ ہے؟ اس ذی شعور انسان کا سیدھا جواب یہ ہوگا کہ اس بستی کے لوگ صاف ستھرائی کے شعور سے محروم ہیں جسکا نتیجہ مختلف بیماریوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ اسلیے ان بیماریوں سے نجات کی سب سے پہلی صورت یہ ہے کہ اس بستی سے گندگی کو دُور کیا جائے۔
مذکورہ بالا بستی کی مثال کی روشنی میں ہم ایک بستی کی جگہ ایک معاشرہ کو لیں گے۔ چونکہ معاشرے کی تعمیر ایک مرد اور عورت کے باہمی رشتے سے ہوتی ہے۔ اب اگر اس رشتے میں ایک تعلیم اور شائستگی کے لحاظ سے پیچھے رہیگا تو اسکے نتیجے، معاشرہ کے لئے بہتر نہ ہوگا۔ ہر معاشرے کی طرح ہمارا معاشرہ کا نصف بھی عورت پر مشتعمل ہے۔مگر بد قسمتی سے ہمارا نصف کا نصٖف تعلیم و تعلم سے محروم ہے۔ اور دوسرینصف کا حال بھی اسے زیادہ بہتر نہیں ہے۔اسلئیے ہمارے معاشرے میں تہذیب اور شائستگی کے اعتبار سے بہت زیادہ فقدان نظر آرہا ہے۔
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارا معاشرہ میں عورتیں بالکل انپڑھ ہی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پڑھی لکھی باشعورعورتیں بھی ہیں جو سما جی نظام کے مختلف شعبوں میں کام کرتی ہیں۔ایجوکیشن، ہیلتھ، اور دیگر اعلیٰ انتظامی منصبوں پر فائیز ہیں۔ ہر شعبہ میں بالخصوص ایجوکیشن، ہیلتھ اور آنگن واڑی کے شعبہ جات میں کام کرنے والی عورتوں کو چاہیے کہ:
1۔۔ہر بلاک سطح پر کارڈنیشن کمیٹی تشکیل دی جائے۔جسمیں ایجوکیشن، ہیلتھ، اور آنگن واڑی کی نمائیدگی ہو۔
2۔۔مذکورہ کارڈنیشن کمیٹی کے زیرتحت ایک جوایئنٹ ایکشن گروپ تشکیل دیا جائے۔اس گروپ کے ممبروں کو مُنشیات کے بارے بنیادی جانکاری دی جائے۔ اسمیں ممبروں کا انتخاب تقریری اور موٹویشنل صلاحیتوں پر مبنی ہو!
3۔۔کارڈنیشن کمیٹی کے زیر نگرانی ایک شڈول مرتب کیا جائے۔
4۔۔ محلہ وار وارڈممبر یا سرپنچ کی میزبانی میں ایک مجلس منعقد کی جائے۔جسمیں محلہ کی ماؤں بہنوں کو کسی مسجد کے صحن میں یا کسی اور مناسب جگہ جمع کرکے انہیں ڈرگ کے بارے میں انفارمیشن دی جائے۔
یہ ایک نفساتی امر ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کی بات جلد اور زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔ اور اسکا اثر بھی لیتی ہے۔ مذکورہ بالا میکنزم سے ہمیں ایک یہ کہ گھر گھر منشیات کے زہریلے اور جان لیوا اثرات کے متعلق انفارمیشن پہنچ جائے گی اور سب سے بڑھکر یہ کہ ہماری مائیں اور بہنیں بھی اسمیں اپنے اپنے دائرے میں اس سماجی بحران میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہی وہ طریقہ ہو سکتا ہے جس سے سرکار اور عوام ملکراس بحران سے نمٹ لے گی !