(سکندر بشیر)
قرآن کریم میں جہاں عبادات جیسے نماز، روزہ، زکوت اور حج کا ذکر ہے، اور ان عبادات کو دین اسلام کے بنیادی اراکین قرار دیا ہے،وہی جہاد کو بھی ایک افضل عمل قرار دیاہے ۔ قرآن اور احادیث اس عمل کی فضیلت پر دلالت کرتے ہیں :
اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ۔ انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ۔ مگر تمہیں اسکا شعور نہیں ! البقرہ ۔ (154)
ایک اور جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
جو اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ خیال نہ کرو ۔ یہ زندہ ہیں اور رب سے رزق پاتے ہیں ! العمران ۔ (169)
ان دو آیات کریمہ سے یہ بات قطعی صاف ہے کہ جو اللہ کی راہ میں قتل کیے گیےانہیں مردہ کہنا جائیز نہیں ہے ۔ اور اللہ کی راہ میں قتل کیے گیے ان مومنین کی بلند درجی کا بھی ذکر ہے کہ یہ اللہ رب العزت سے رزق پاتے ہیں ۔ اس سے بڑھکر شہید کی کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ اللہ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ انہیں مردہ کہیں ۔ اور وہ اللہ سے رزق پاتےہیں !
لیکن یہاں پرجوبات آپ ہی واضع ہو جاتی ہے وہ ہےاللہ کی راہ میں جہاد کی فضیلت ۔ یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا افضل عمل ہے اور اسکے افضل عمل ہونے کی وجہ سے ہی شہادت ایک اٖفضل اور بلند درجہ ہے ۔
جہاد فی سبیل اللہ کے دو زاویے ہیں جن کو سمجھنا ہے ۔ ایک زاویہ یہ ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لیے علم کی تحصیل بھی جہاد ہے ۔ اللہ کی رضا جوئی کے لیے صدقہ و خیرات کرنا بھی جہاد ہے ۔ اللہ کی خوشی کے لیے اپنے نفس کا تزکیہ کرنا بھی جہاد ہے ۔ یہاں تک کہ تزکیہ کو جہاد اکبر بھی کہا گیا ہے ۔ اور دوسرا زاویہ وہ ہے جسکے بارے میں قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات کریمہ آئی ہیں ۔ یعنی اللہ کی راہ میں اپنی جان سے جہاد کرنا ۔
اپنی جان سے جہاد کرنے کے جہاد کو سمجھنا بے حد ضروری ہے ۔ کیونکہ قرآن نے انسانی جان کو محترم قرار دیا ہے ۔ اسکے قتل کو قطعی حرام قرار دیا ہے ۔ پھر وہ حالات کیا ہیں جن کے تحت دین اسلام نے اپنی جانکی بازی لگانے کو، یعنی اپنے آپکو قتل کراونے کواور قتل کرنے کو افضل عبادت کا درجہ دیا ہے;238; اس سوال کا جواب خود قرآن کی زبان سے سنا جائے تو افضل ہے:
ترجمہ: لڑو اللہ کے لیے ان کے خلاف جو تم سے لڑتے ہیں ۔ اور حد سے مت بڑھو ۔ بے شک حد سے بڑھنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ہے!ابقرہ ۔ ۰۹۱
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضع ہے کہ اللہ مومنوں کو لڑنے کا حکم اس حال میں دے رہے ہیں کیونکہ مسلمانوں کا دشمن مسلمانوں پر چڑھائی کرنا چاہتا ہے ۔ کیونکہ آیت میں بالکل صاف ہے;3939; جو تم سے لڑتے ہیں ;3939; ۔ مسلمانوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے دفاع میں لڑونہ کہ تم چڑھائی کرو!
جب مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا اسوقت آقائے نامدا ر ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام نے مدینہ کی ریاست اسٹیبلش کی ہوئی تھی ۔ اور آقائے نامدار ﷺ فقط ایک پیغمبر کی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ ﷺ ایک اسلامی ریاست کے فرمانرواہ بھی تھے ۔ اور ایک ریاست کے فرمانرواہ کی سب بنیادی اور سب سے اہم منصبی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ریاست کے دفاع کا بھر پور خیال رکھے اور اسکا پورا پورا انتظام بھی کرے ۔ آپ ﷺ پر اپنی ریاست مدینہ طیبہ کے دفاع کی ذمہ داری بدرجہ اُتم آپ ﷺ کے فرض منصبی میں داخل تھی ۔
جب ہم دین اسلام کا بغور مطالعہ کرتے ہیں ہم قتال فی السبیل اللہ کے حوالہ سے ایک نہاہت ہی اہم نتیجے پر پہنچتے ہیں ۔ اور وہ یہ ہے کہ قتال فی السبیل اللہ کا حکم اسلامی ریاست کے فرمانرواہ کے لیے قطعی مخصوص ہے ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جہاد کا حکم کسی عام مسلمان کی تحویل میں ہو ۔
قتال فی السبیل اللہ کے اس پہلو کہ اسکا حکم یا فتویٰ اسلامی ریاست کے فرمانراوہ کے ساتھ مخصوص ہے کے ساتھ ایک اور پہلو کا ہونا شرط لازم ہے ۔ اوروہ شرط یہ ہے کہ ریاست مسلم ریاست نہیں ہو بلکہ اسلامی ریاست ہو ۔
پاکستان ایک مسلم ریاست ہے ۔ جسطرح ترکی، یمن، شام وغیرہ کی مسلم ریاستیں ہیں اسی طرح انہی جیسی ریاستوں میں سے ایک پاکستان بھی ہے ۔ کسی بھی مسلم ریاست کے فرمانراوہ کے ساتھ قتال فی السبیل اللہ کا حکم مخصوص نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ مسلم ریاستیں ہیں نہ کہ اسلامی ریاستیں ۔
دین اسلام کی روشنی میں یہ بات بالکل واضع ہے کہ پاکستان یا کوء اور مسلم ملک اس بات کا استحقاق نہیں رکھتا ہے کہ وہ قتال کا حکم صادر کرے ۔ اسطرح یہ بات قطعی صاف ہے کہ پاکستان کشمیر میں جہاد کے نام پر گمراہی پھیلا رہا ہے ۔
جہاد کے نام پر کشمیر میں جو کچھ بھی پاکستان کرا رہا ہے، اسکا جہاد کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے لیے کشمیر زمین کا مسئلہ ہے نہ کہ دین کا مسئلہ ۔ اسلام میں حصول زمین کے لیے جہاد کاتصور ہی نہیں ہے ۔ پاکستان جہاد کے نام پر مسلمان جوانوں کو بہکا کر اپنا سیاسی اُلو سیدھا کرنا چاہتا ہے ۔ کشمیر کا مسلم نوجوان اس حقیقت کو جتنا جلدی سمجھے گا اتنا بہتر ہے ۔ کشمیری مسلم نوجوان کو بار بار خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ جو لوگ دین کے نام پرصرف اپنا سیاسی ہدف حاصل کرنا چاہتے ہوں وہ لوگ کتنے منافق اور فاسق ہیں ۔ اور منافقوں اور فاسقوں سے خیر کی اُمید صرف اورصرف جاہل اور بے وقوف ہی رکھ سکتے ہیں !