وادی کشمیر مذہبی رواداری اور بھائی چارے کا مسکن رہا ہے جہاں پر سبھی طبقہ جات سے وابستہ لوگ چاہئے ہندو ہو، مسلم، سکھ بودھ، عیسائی یا اور کسی مذہب کا ماننے والا ہو باہمی اتفاق اور اتحاد کے ساتھ دن گزاررہے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد ، تہواروں اور شادی بیاہ کی تقاریب میں ایک دوسرے کے کام آتے تھے اور ہنسی خوشی اس بھائی چارے کو آگے بڑھارہے تھے۔ تاہم 1989میں ہوا بدل گئی اور وادی کشمیر میں ملٹنسی کا دور شروع ہوا جس نے یہاں کے مذہبی رواداری کے تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا ۔جہاں ملٹنسی پاکستان کی شہہ پر شروع ہوئی تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے نوجوانوں کے ذہنوںمیں مذہبی تضاد بھر دیا گیا جس کے نتیجے میں یہاں پر اُس ملی بھائی چارے کو غیروں کی نظر لگ گئی اور یہاں کے کشمیری پنڈت وادی چھوڑ کو ملک کے مختلف علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور سب سے زیادہ تعداد کشمیری پنڈتوں کی جموں میں قیام پذیر ہوئی ۔ کشمیری پنڈت ملٹنسی کے خوف اور مسلح شورش کے ڈر سے وادی چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے ۔ 1990سے اب تک وادی کشمیر میں بے شمار تشدد کے ایسے واقعات رونماءہوئے جن سے انسانیت کے رونگٹھے کھڑا ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں وادی کے ہر طبقہ سے وابستہ لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور جن بچوں نے اس تباہ کن دور میں جنم لیا ان کے اذہان پر اسی شورش کا اثر رہا اور وہ ان حالات سے سخت متاثر رہے ۔
وقت گزرتا گیا اور یہاں کے عوام مشکلات کے بھنور میں چلتے گئے تاہم آہستہ آہستہ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آہی گئی کہ مسلح شورش یا ہم اسے ملٹنسی کہیں گے صرف اور صرف سیاسی پینترا ہے جس میں کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر لوگوں کو خاص کر نوجوانوں کو گمراہ کررہے ہیں تاکہ ان کے اپنے دکان چل سکیں ۔مخدوش حالات کی وجہ سے وادی کو معاشی اور تعلیمی شعبوں میں لاتلافی نقصان پہنچا ہے جبکہ عام لوگوں ذہنی طور پر بھی کافی متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی بڑی تعداد اس وقت ذہنی بیماریوں کی شکار ہوچکی ہے ۔ وادی کشمیر کی اگر بات کریں تو یہ دس اضلاع پر مشتمل ہے جہاں پر شمالی کشمیر کے تین اضلاع جن میں سرحدی ضلع کپوارہ، مشہور ’اپل ٹاون‘ بارہمولہ اور ضلع بانڈی پورہ ہیں جہاں پر اس وقت ملٹنسی نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان اضلاع کے لوگ راحت کی زندگی گزاررہے ہیں جبکہ ان اضلاع میں تعلیمی اور کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی کی سرگرمیاں بھی بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ اگر ہم پوری وادی میں شمالی کشمیر کے منظر نامے پر نظر دوڑائیں گے تو ہمیں ان تین اضلاع میں تشدد کے نا کے برابر واقعات دیکھنے کو ملیں گے اور اس وقت عام انسان ملٹنسی اور تشدد کے خلاف ہے اور امن و تعمیر و ترقی چاہتے ہیں جبکہ یہاں کے لوگ قوم پرست ہونے کے سات ساتھ فوج کے ساتھ بھی بہتر تال میل بنائے رکھے ہیں جس سے عوام اور فوج کے مابین ایک رشتہ قائم ہوا ہے ۔ یہاں پر فوج کی جانب سے کئی طرح کے عوامی پروگرام بھی وقت وقت پر منعقد کئے جاتے ہیں جن میں لوگ خوشی خوشی حصہ لیتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب شمالی کشمیر کے حالات جنوبی کشمیر کے موجودہ حالات سے بدتر تھے۔ شمالی کشمیر عسکریت پسندی کا گڑھ تھا۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شمالی کشمیر میں حالات اس قدر ابتر تھے تو پھر کشمیر کے اس خطہ میں اس قدر تبدیلی کا ذمہ دار کون ہے، جو لوگ بدترین دشمن سمجھے جاتے تھے وہ اب قوم کے وفادار دوست بن رہے ہیں۔اس کے پیچھے فوج کا ایک اہم رول بنتا ہے فوج اور دیگر حفاظتی ایجنسیوں نے جہاں ملٹنسی کے خاتمہ کےلئے آپریشن جاری رکھے وہیں پر فوج اور مذکورہ ایجنسیوں کی طرف سے عوامی اعتماد حاصل کرنے کی بھی کوششیں جاری رہیں اور مختلف پروجیکٹوں کی بدولت عوام کا اعتمال بحال ہوا جن میں قابل ذکر سدبھاونا اور فوج کی جانب سے چلائے جارہے گڈ وول سکولوں کا قیام قابل ذکر ہے ۔ وادی کے مختلف حصوں میں فوج کی جانب سے مختلف اضلاع میں آرمی گڈ وول سکول قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جو ملٹنسی کی وجہ سے یہاں پر تعلیمی تقصان ہوا تھا اس کی بھر پائی کی جاسکے اور یہاں کے بچوں کو صحیح تعلیم فراہم ہو تاکہ وہ مستقبل میں قوم اور اپنے کنبوں کا نام روشن کرسکیں ۔ اسی طرح شمالی کشمیر میں فوج کی جانب سے سکولی بچوں کےلئے تعلیمی تجرباتی ٹوروں کا اہتمام کیا گیا جس کے تحت سکولی بچوں کو وقت وقت پر ملک کے مختلف حصوں کی سیر پر بھیجا گیا جس سے طلبہ کا ذہن تبدیل ہوا اور انہوں نے کھرے اور کھوٹے میں فرق محسوس کرنا شروع کردیا ۔ اسی طرح اس خطے میں فوج نے نوجوانوں کےلئے مختلف بھرتی مہموں کا بھی اہتمام کیا تاکہ یہاں کے زیادہ سے زیادہ نوجوان فوج میں بھرتی ہوسکیں جس سے ان کے مستقل روزگار کا بھی بندوبست ہوا ۔اس کے ساتھ ساتھ فوج کی جانب سے مقامی نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں خود روزگار حاصل کرنے کے لیے ’سکل ڈیولپمنٹ‘ کے خصوصی پروگرام اور خصوصی تکنیکی کورسز کیے گئے ہیں۔ اگر ہم 1990سے لیکر 2000کی بات کریں گے تو دہائی کے بنسبت شمالی کشمیر کے لوگوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے گی ، اب یہاں پر فوج کو رقیب نہیں بلکہ اپنا رفیق تصور کیا جاتا ہے اورشمالی کشمیر کے لوگوں کے خیال میں موجودہ دور میں فوج سب سے زیادہ بھروسہ مند فورس بن چکی ہے۔یہاں کے لوگوں کی سوچ اب اس قدر تبدیل ہوئی ہے لوگ اب فوج کو کشمیری عوام کے حقیقی مدد گار تصور کرتے ہیں جو یہاں پر سماجی ، اقتصادی اور حالات کے بدلاﺅ میں رول اداکرتے ہیں کیوں کہ لوگ اب محسوس کررہے ہیں کہ فوج اور فورسز ادارے ہی رشوت ستانی کے ناسور سے پاک ہیں جو ہمیشہ لوگوں کی فلاحو بہبود کےلئے آگے آتے ہیںاور فوج کو اب ایک امید کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ شمالی کشمیر کے لوگوں ملٹنسی کے خلاف کارروائیوں کے دوران فوج کو بھر پور تعاون فراہم کرتے ہیں ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فوج نے وقت وقت پر کشمیری عوام کی مدد کی ہے خاص طور پر آفات سماوی جیسے سال 2005کے تباہ کن زلزلہ میں شمالی کشمیر کو خاصا نقصان پہنچا جس دوران فوج نے متاثرین کی باز آباد کاری میں اہم رول اداکیا جبکہ زلزلہ کے فوراً بعد بچاﺅ کارروائیوں میں فوجی جوان جٹ گئے ۔ اسی طرح سال 2014کے تباہ کن سیلاب میں بھی فوج نے مختلف علاقوں میں لوگوں کی مدد کی اور لوگوں کی جان بچائی ۔ اس تباہ کن سیلاب میں جہاں کشمیر خاص کر شمالی کشمیر میں کافی مالی و جانی نقصان ہوا وہیں پر فوج نے لوگوں کی بھر پور مدد کرکے انہیں ایک نئی امید جتائی ۔ان آفات سماوی کے دوران فوج نے لوگوں میں راشن تقسیم کی ، متاثرین کو طبی امداد اور دیگر مدد پہنچائی جس سے متاثرین کو کافی راحت ملی کیوں کہ اس وقت لوگ کافی زیادہ پریشان تھے اور فوج نے ہی آگے آکر ان کو اس پریشانی میں بھر پور مدد کی ۔ اس طرح فوج کے رویہ کو دیکھ کر شمالی کشمیر کے لوگوں کی سوچ میں کافی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ یہاں پر اب لوگ اور فوج ایک ساتھ انسانی بقاءاور تعمیر و ترقی کےلئے کام کرتے ہیں ۔