(بختا ور بشیر)
یوں تو ڈاکٹر سر محمد اقبال شاعر مشرق کے لقب سے بھی ممتاز ہیں اور ساری دینا میں ایک بڑے شاعر اور فلسفی متعارف ہیں لیکن ملک پاکستان ممدوح کو جہاں اپنا محسن مانتا ہے وہی انکو اپنا قومی شاعر بھی مانتا ہے۔ پاکستان کے عوام کیوں نہ اقبال کو اپنا محسن اور ہیرو جانیں آخر وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کے نام سی تو بنا ہے یہ ملک۔ لیکن کیا یہ ملک جو مسلمانوں کے نام پر بنایا گیا ہے اور جسکی آئیڈیل انجینرنگ میں اقبال کا بنیادی اور اہم رول ہے، آج کی تاریخ میں اقبال کے تصور مسلمانی سے ملتا بھی ہے؟ چونکہ فرماتے ہیں:
مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
یعنی جو فطرت چاہتی ہے وہی مسلمانی کا بھی راز ہے۔ اور ٖ فطرت دو چیزیں چاہتی ہیں: ایک تمام دینا کا بھائی چارہ universal brotherhood اور محبت کی فراوانی abundance! اگر اس شعر کو ذرا کھول دیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانی اور فطرت دو متضاد چیزیں نہیں ہیں جو ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں بلکہ یہ تو ایک چیز کے دو الگ الگ نام ہیں۔جیسے ایک ہی چیز کو ہم مختلف ناموں سے پانی اور water وغیرہ کہتے ہیں۔ اسی طرح فطرت اور مسلمانی مکمل طور یکساں ہیں۔ یعنی مسلمانی بھی تمام دینا کابھائی چارہ چاہتی ہے اور محبت و الفت کی بہتات چاہتی ہے۔ یعنی ایسا گلوبل سماج جسمیں ہر طرف محبت ہو الفت ہو!
اگرچہ مذکورہ شعرآپ میں نظریاتی ہے اور کسی ایک ملک کے مسلمانو ں کی طرف اسکا روئے سخن نہیں ہے لیکن چونکہ ملک پاکستان مسلمانوں کے نام پر بنایا گیا اور اسکے بنانے میں شعر کا شاعر ایک آئیڈیل ہیرو کا کردار رکھتے ہیں اسلئے ناگزیر ہے کہ اس ملک کا اجتماعی کردار اس مسلمانی کا ہی غماض ہو جسکا شاعر اپنے شعر میں دعوای ٰ پیش کرتا ہے۔ یعنی ملک اجتماعی سطح پر مسلمانی کی چلتی پھرتی اور جیتی جاگتی تصویر ہو۔ اتنا ہی نہیں کہ یہ ملک اندروں سطح پر بھائی چارہ کے عملی مثال ہو بلکہ سارے جہاں میں اسکی مثالیں ایسی ہوں کہ باقی ممالک اسکی تقلید میں فخر محسوس کرتے ہوں۔ اس ملک کی سیاست قابل تقلید ہو، اسکی عدالت قابل تقلید ہو، اسکی معشیت قابل رشک ہو، اسکی ثقافت قابل رشک ہو الغرض یہ ملک مقامی بھائی چارہ اور محبت اور الفت میں مسلمانی کا وہی نمونہ ہو جسے دیکھکر ایسا محسوس ہو کہ واقعی فطرت اور مسلمانی ایک ہی ہیں۔لیکن وائے حسرتا! اس ملک کا کرادر یہ ہے کہ:
الف) اس کے اندر 100 کے قریب ایسی تنظیمیں ہیں جو دہشتگرد ی چلا رہے ہیں۔ پھر وہ دہشتگردی اندروں ملک ہو یا بیرون ملک ہو۔
ب) یہ وہ مسلمان ملک ہے جسکی مسلمانی نے پنجاب ہند میں دہشتگردی کی انسانیت اور اخلاق سوز آگ لگائی۔
ج) یہ ایسا مسلمان ملک ہے جس کی مسلمانی نے کشمیر کے لالہ زاروں کو دہشت گردی کے خون سے نہلا دیا۔
د) یہ ایسا مسلمان ملک ہے جس کے سربراہ دنیا کے سب سے بد ترین چور ہیں!
ڈ) یہ ایسا مسلمانی کا دعویٰ کرنے والا ملک ہے جہاں عورتوں، چھوٹی صلڑکیوں، اور چھوٹے لڑکوں کے ساتھ زنا بالجبر کیا جاتا ہے۔ اور سال 2020 میں ان شرم ناک جرائم میں 200 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
ذ) مسلمانی کے نام پر بنے اس ملک میں لوٹ مار کی شرح 7 ہے۔
ر) مسلمانی کے نام پر بنے اس ملک میں عورتوں کو جائیداد سے محروم رکھا جاتا ہے۔
ڑ) مسلمانوں کے اس دیش میں 59 فی صدی لڑکیاں اور 49 فی صد لڑکے چھٹی جماعت سے پہلے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ وہی ملک ہے
ز) جسمیں سپاہ صحابہ کے مسلمان سپاہ محمد کے مسلمانوں کی مسجدوں میں بم پھینکا کرتے تھے اور سیکنڈوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔
کسی ملک کی اندروں صورتحال ایسی دیکھکر یہ اندازہ لگا لینا قطعی مشکل نہیں ہے کہ اس ملک کے اندرکتنی جہالت ہے اور کسقدر ظلمت ہے۔ظلمت اور جہالت بھائی چارہ اور محبت کی ضد ہے۔ جہاں ظلمت ہو وہاں روشنی کا کیا گذر اور جہاں جہالت ہو وہاں محبت کا کیا کام!
سچ تو یہ ہے کہ یہ ملک مسلمانی کے نام پر بنا توضرور مگر اسکا اجتماعی سطح پر مسلمانی سے دور دور کا بھی سروکار نہیں ہے۔ مسلمانی زبان کا’ نسل کا، ملک کا، یا کسی بھی جغرافیائی حدود کا ہرگز نام نہیں ہے۔ یہ تو ایک اعلیٰ اخلاقی کردار کا نام ہے۔جس ملک کے سربراہ رہزن ہوں، منصف جانبدار ہوں، اور عوام جاہل ہوں وہاں مسلمانی ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ جہاں تعلیمی درسگاہوں کی آڑ میں دہشت گردی کے اڈے چلائے جارہے ہوں وہاں مسلمانی رہ ہی نہیں سکتی۔ بالکل اسی طرح ظلمت اور نور ایک ہی جگہ جمع نہیں ہوسکتے اسی طرح مسلمانی اور دہشتگردی، مسلمانی اور جہالت، مسلمانی اور رہزنی جمع نہیں ہو سکتے ہیں۔