نئے لکھنے والوں کے گناہ
محمد سلیم سالک
فکشن راٸٹرس گلڈ کی ایک ہفتہ وار نشست میں ایک نوعمر افسانہ نگار نے کشمیری افسانہ پڑھا ۔افسانے کی سماعت کے دوران ہی اندازہ ہوا کہ کہانی کا کینواس موجودہ حالات کو دیکھ کر ہی بُنا گیا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار ایک عورت ہے جس کا خاوند اچانک گھر سے نکلتے ہی غاٸب ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی مرکزی کردار کی تگ ودو شروع ہوجاتی ۔مساٸب و مشکلات کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس کے خاوند کی موت واقع ہوٸی ہے۔ پھر کہانی میں ایک ایسا موڑ بھی آتا ہے کہ جب اس کا بیٹا بھی پر اسرار موت مر جاتا ہے۔غرض پوری کہانی دُکھ اور درد کے دائرے میں رہ کر لکھی گئی ہے۔ کہانی کا پہلا تاثر یہی اُبھرتا ہے کہ ایک عورت کو کتنے ستم سہنے پڑتے ہیں۔افسانہ ختم ہونے کے بعد اس پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہوا۔فاروق نازکی صاحب ایوان صدرات میں بیٹھے افسانے کو بڑے انہماک سے سن رہے تھے کہ ایک نام نہاد خود ساختہ نقاد نے نوعمر افسانہ نگار کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ اب پریم چند کا زمانہ نہیں رہا۔افسانہ پریم چند کے طرز پر تحریر کیا گیاہے اس لئے اس کی کوئی Relevence نہیں ہے۔دوسرے تعلقاتی نقاد نے اپنے دوست کا بھرم رکھنے کے لۓ افسانے کے موضوع کوہدف تنقیص بنایا۔
میں چند لمحوں کے لئے سکتے میں آگیا کہ کیا سچ مچ زمانہ اتنا بدل گیا ہے کہ اب پریم چند کے افسانوں کی کوئی عصری معنویت نہیں رہی ہے۔ایک زمانہ تھا جب پریم چند کی تقلید کرتے ہوئے ترقی پسند ادبیوں کی ایک کہکشان سامنے آئی جن میں منٹو، بیدی، کرشن چندر،عصمت چغتائی،خواجہ عباس جیسے افسانہ نگار قابل ذکر ہیں۔راقم کو قمر رئیس کا یہ جملہ یاد آرہا ہے کہ اگر پریم چندخالی ”کفن“ کو ہی تخلیق کرتے پھر بھی ان کا نام اردو افسانے کی تاریخ میں سنہرے حروف سے رقم کیا جاتا۔ جب میں نے اس ساری صورتحال پر سنجیدگی سے سوچا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ اب ہمارے نام نہاد نقاد حضرات اپنی علمی دھاک بٹھانے کے لئے نوآمد قلمکاروں کو اپنے رٹائے ہوئے جملوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان میں اتنی قابلیت نہیں ہوتی کہ تخلیق کا تجزیہ کرتے وقت معائب کی نشاندہی کریں بلکہ یہ کہہ کر پوری تخلیق کو رد کرتے ہیں کہ اب زمانہ بدل چکا ہے۔جب یہی معیار ان کی تحریروں پر لاگو کیا جاتا ہے تو غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے ۔
تنقید ، تعریف اور تنقیص کے تعلقاتی زمرے میں بٹ گئی ہے جواپنا ہے اس کی تعریف کی جاتی ہے اور جو مخالف ہے اس کے معائب کی تشہیر کی جاتی ہے۔ میرے دوست جنید جاذب کی رائے یہ ہے کہ جب کسی بھی تخلیق کا مطالعہ غیر سنجیدگی سے کیا جاتا ہے تو اس کے زندہ رہنے کے امکانات ختم ہوتے ہیں۔ بیدی سے کسی نے کہا آپ نے فلاں کتاب پر غضب کا تبصرہ کیا ہے اس سے بہتر کوئی نہیں لکھ سکتا تھا پھر بھی کتاب مشہور نہیں ہوئی۔ بیدی نے درجواب کہا اگر میں نے کتاب کو دیکھا ہوتا تو اس طرح کا تبصرہ کبھی نہیں کرتا۔تبصرے کی بات چلی،تو اس حوالے سے فکر نونسوی کاایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے کہ فکر ؔصاحب کو ایک شخص نے اپنی کتاب عنایت کرتے ہوئے کتاب کے فلیب پر ”ابھرتے ہوئے نقاد“ کا فقرہ تحریر کیا، تو ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک دوست نے اس پر اعتراض کیا کہ آپ تو کالم نویس ہیں تو انہوں نے نقاد کیوں کر لکھا۔فکر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ موصوف اصل میں چاہتے ہیں کہ میں اس کتاب پر تبصرہ کرو۔مخاطب نے حیرت سے تکتے ہوئے کہا لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔فکر صاحب نے بات کاٹتے ہوئے سمجھایا،آج کے دور میں کوئی کسی کو مفت میں خطاب سے نہیں نوازتا۔وہ بھی ”نقاد“ جیسے بھاری بھر کم لفظ سے۔اب تو تخلیق کار بھی کتاب شائع کرنے سے پہلے لاکھوں مرتبہ اس پر غور کرتا ہے کہ وہ کتاب کا ”انتساب“ کس نقاد کے نام کریں جو کل
اس پر مضمون لکھنے کی حامی بھریں ۔
نقاد بننے کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں شمس الرحمان فاروقی کہتے ہیں کہ انہوں نے لکھنے کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا،لیکن انگریزی اور اردو ادب کے مطالعے کے بعد محسوس ہواکہ محمد حسن عسکری اور کلیم الدین احمد کے علاوہ بیشتر تنقید نگاروں کی تحریروں میں وہ گہرائی اور تجزیاتی نگاہ نہیں جو ہمیں متوجہ کرسکے اور ہم باآسانی پہچان سکیں کہ یہ تنقید فلاں شاعر یا افسانہ نگار ہی کے لئے ہے۔بیشتر مضامین ایسے لکھے جاتے ہیں جو تھوڑا سا ردوبدل کر کے کسی بھی شاعر یا افسانہ نگار کے بارے میں کہے جا سکتے ہیں۔مثلاً کرشن چندر،بیدی یا منٹوپر تنقیدی مضامین پڑھیں تو اقتباسات اور نام کی تبدیلی کے بعد ان کا اطلاق بیشتر افسانہ نگاروں پر ہوجاتاہے یعنی ہم کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکتے کہ یہ مضمون خالصتاً کرشن چندر،بیدی یا منٹو پر ہی لکھا گیا ہے۔ سہل انگاری کا یہ روحجان عام ہوگیا ہے جن کی وجہ سے ہر کوئی نقاد بننے کی سعئ لاحاصل میں لگا ہوا ہے بہتر ہے کہ اس طرح کی عادتوں سے پرہیز ہی کیا جائے۔
میں بھی باتوں باتوں میں کہاں پہنچ گیا اصل میں بات فکشن راٸٹرس گلڈ کی ایک نشست کی ہورہی تھی اور نوعمر افسانہ نگار کا افسانہ زیر بحث تھا کہ ایوان صدرات میں بیٹھے جناب فاروق نازکی نے افسانہ کے پلاٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا نوجوان کہانی کارمبارک بادی کا مستحق ہے کہ اس نے افسانہ کاموادمقامی صورت حال سے حاصل کیا ہے اگر چہ زبان و بیان پر ابھی محنت کرنے کی کافی گنجائش ہے۔لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہمارے اکثر ناقدین نئی نسل کو سکھانے کے بجائے رد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ اچھا رجحان نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ نئے لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھایا جائے تاکہ مستقبل قریب میں اچھے اچھے قلمکار سامنے آسکیں۔نازکی صاحب جیسے میرے جذبات کی ترجمانی کررہے تھے اور میرے دل میں بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ اب نئے لکھنے والوں کو بھی سنجیدگی سے معیاری ادب تخلیق کرنے کی ضرورت ہےتاکہ ان کو ناکردہ گناہوں کی سزا سے نجات مل سکے ۔
گزرگاہ خیال : 13