پیش نوشت : نٸی نسل کے نام ،جنہیں دیانت داری سے اساتذہ کی عزت و تکریم میں کوشاں رہنا چاہیۓ ۔) اصلاح سخن کی عصری معنویت محمد سلیم سالک گزشتہ کالم میں اصلاحِ سخن کی معنویت پر ” زانوۓ تلمذ تہہ کرنا شرط اول ” کے عنوان سے کچھ ضمنی باتیں شیٸر کی تھیں۔جن پر ادبی حلقوں میں چہ میگوٸیاں شروع ہوٸیں کہ آیا نئی نسل کو تربیت دینے والے ناپید ہیں یا نئی نسل ہی کہنہ مشق شعراء سے کترارہی ہے۔یہ دونوں معاملات سنجیدہ ہیں اور اس پر بحث و مباحثہ کی کافی گنجائش بھی موجود ہے۔ایک طرف اساتذہ شعراء کا گلہ ہے کہ نئی نسل ان سے ملنے کو کترا رہی ہے اور اگر کبھی کبھارنئی نسل کے تخلیق کاروں کو مشورہ دیتے بھی ہیں تو وہ درخور اعتنا ء بھی نہیں سمجھتے۔دوسری طرف بعض نوجوان شعراء اس بات پر بضد ہیں کہ انٹرنیٹ کے دورمیں شاعری سیکھنے کے لئے کسی استاد کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ شاعری کے فن پر سینکڑوں ویب سیٹس موجود ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ دورمیں اصلاحِ سخن کی عصری معنویت ہے ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ”اصلاح“ کی اصطلاح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی ایک فن پارے میں کب اور کس صورت میں ”اصلاح“کی ضرورت پڑھتی ہے۔”اصلاح” عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی درستی کے ہیں۔یہ لفظ اپنے استعمال میں کسی خاص نوع،قسم یا چیز کی درستی سے مخصوص نہیں بلکہ متفرق،متعدد اور مختلف انواع واقسام کی درستی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔عربی،فارسی اور اردو لغات سازوں نے لفظ” اصلاح” پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ اپنی معرکتہ الآرا کتاب”اردو شاعری میں اصلاح ِ سخن کی روایت“ میں لفظ ”اصلاح“کی تشریح یوں کرتے ہیں: اصطلاحات ِادبیات میں اصلاح ایک ایسا عمل ہے جس میں اظہارو بیان خصوصاً مبتدیوں،نو آموز شاعروں اور شاگردوں کی خامیوں کی تصحیح کی جاتی ہے اور کلام میں پائے جانے والے عیوب کو دورکر کے اس کو حشو و زائد سے پاک کرکے سنوارا اور قابل پیش کش بنایا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح مفہوم بظاہر ”کلام کی تصحیح“ کا مفہوم رکھتی ہے مگر یہ تصحیح یک رخی نہیں کثیر الجہات ہوتی ہے۔مثلاً ۱۔کلام میں وزن اور آہنگ کی اصلاح ۲۔ردیف اور قافیہ کے عیوب کی اصلاح ۳۔اسلوب کے اسقام کی اصلاح ۴۔افعال،ضمائر،تراکیب وغیرہ کے عیوب کی اصلاح ۵۔شعر کے دونوں مصرعوں میں ربط ِمعنوی کے فقدان کو دور کرنا ۶۔نامناسب،ناموزوں الفاظ،محاورات اور تراکیب کی درستی مندرجہ بالا نقاط پر غور کرنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ایک فن پارے کو اعلیٰ پائے اور معیاری بنانے کے لئے کتنے عیوب سے پاک ہونا ضروری ہے۔شاید یہ سب باتیں ایک نوآموز تخلیق کار کتابوں اور انٹرنیٹ کی بدولت نہیں سیکھ سکتا۔شاعری کافن ریاضت اور محنت کامتقاضی ہوتاہے۔شعرکی گرہیں کھولنے کے لئے مطالعہ ومشاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے استاد کی ضرورت رہتی ہے جو کہنہ مشق ہونے کے علاوہ فنِ شاعری پر بھی گہری نظر رکھتا ہو۔اساتذہ تربیت کے لئے ایک خاص ماحول کو پروان چڑھاتے ہیں جہاں باقاعدہ مجلسیں جمتی ہیں،شعر وسخن کا دور چلتا اور نوآموز شعراء کی تربیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سکول آف تھاٹ جنم لیتا ہے۔محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ”آب حیات“ میں اس سلسلے کا ایک واقعہ یوں درج کیا ہے: ”راج گھاٹ کے راستے میں قلعے کے نیچے شاہ تسلیم کا تکیہ تھا۔وہاں کچھ چمن تھے،کچھ درختوں کا سایہ تھا،سامنے فضا کا میدان تھا۔شام کو روز شاہ حاتم ؔ دہلوی وہاں جاکر بیٹھا کرتے تھے اور چند احباب اور شاگردوں کے ساتھ شعر وسخن کا چرچا رکھتے تھے۔چناچہ پچاس برس اسی معمول کو نباہ دیا۔گرمی،جاڑا،برسات،آندھی آئے،وہاں کی نشست قضا نہ ہوتی تھی“۔ اردو ادب کی تاریخ ایسے اساتذہ سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے شاگردوں کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔یہاں تک کہ کچھ شاگرد اپنے اساتذہ سے بھی دو چار قدم آگے نکل گئے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شاعری کے فن میں استادی اور شاگردی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جہاں کسی شاعر کے لئے فخر کی بات ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مسلم الثبوت استاد سے تلمذ رکھتا ہے وہاں استاد بھی اس بات پر ناز کرتا کہ اسکا شاگرد ہونہار اور ذہین ہے۔علامہ ابر احسنی اپنی کتاب ”مشاطہ سخن“میں استاد کی چندخوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”استاد کو مشاق،فن داں،صاحبِ نظر،نفسیات کو سمجھنے والا،نیز ایک باریک بین ہونے کے علاوہ ضرورت ہے کہ وہ خوددار، صابر،بے نیا ز، خوش مزاج،شفیق،متین اور مستقل مزاج بھی ہو“۔ سیماب ؔاکبر آبادی نے بھی اصلاح دینے والے کی خصوصیات کا تذکرہ یوں کیا ہے: ”اصلاح دینے والے کے ذہن میں اتنا ظرف ہونا چاہئے کہ وہ اپنے خیالات کو محفوظ رکھتے ہوئے اپنے شاگردوں کے مختلف اور گوناگوں خیالات کی اصلاح کرسکے۔اصلاح دینا تختِ حکومت پر بیٹھ کر مختلف الحال و خیال طبقات ِ انسانی پر حکومت کرنا ہے۔اصلاح دینے والے کے سامنے ہر قسم کی نظمیں اور غزلیں آتی ہیں،اختلافِ خیالات سے اسے کبیدہ نہ ہونا چاہیے۔اصلاح دینے والے کا مشرب بہت وسیع ہونا چاہئے اور اس کے خیالات میں اتنی رواداری ہونی چاہئے کہ وہ ہر شخص کا فکری رجحان سمجھنے کے بعد اس کی رہنمائی کر سکے“۔ آخر پر میں پھروہی سوال دہراتا ہوں کہ کیا موجودہ دور میں اصلاح سخن کی عصری معنویت ہے یا نہیں۔میرے خیال میں آج کے دور میں اصلاح ِسخن کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ نئی نسل بظاہر معلومات کا خزانہ رکھتی ہے لیکن کسی فن کے اسرارورموز سیکھنا اور ان کو اپنے فن پارے کی زینت بنانا دوسری بات ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کہنہ مشق شعراء خ
ندہ پیشانی کے ساتھ نئی نسل کو پروان چڑھانے میں آگے آئیں اور نئی نسل کے تخلیق کاروں کو بھی چاہئے کہ وہ کہنہ مشق شعراء سے کترانے کے بجائے کشادہ دلی سے استفادہ کرنے کے لئے آگے آئیں۔تاکہ دونوں طرف حق اداٸی ہوسکے ۔