گزرگاہ خیال : 15
ایک پہلو یہ بھی تصویر کا محمد سلیم سالک دسویں جماعت کی ”گلستان ِاردو“ میں پہلی بار یہ پڑھا کہ ادب اور سائینس میں کیا فرق ہے۔دسویں جماعت کے طالب علم کی عمر ہی کتنی ہوتی ہے کہ وہ ادب اور سائینس کی اصطلاحوں کو سمجھ سکے۔جبکہ میرے نزدیک ادب کے معنی اخلاق، طریقہ اور کردار تک ہی محدود تھے۔۔ایم اے کے دوران اساتذہ نے ”ادب“ کی اصطلاح سمجھاتے ہوئے کہا کہ ادب تین چیزیوں کا مجموعہ ہے،جس میں جذبات،احساسات اور تجربات شامل ہوتے ہیں۔آگے چل کر میری معلومات میں یہ اضافہ ہوا کہ نظریاتی طور پرلٹریچر ادب برائے ادب اورادب برائے زندگی ہوتا ہے۔گویا یہ باتیں میرے ذہن میں محفوظ ہوگئیں۔ حال ہی میں ایک ٹی وی چینل پر ”ادب برائے سیاست“ کے موضوع پر بحث و مباحثہ چل رہا تھا،جس میں حقائق کی نشاندہی بڑی بے باکی سے ہورہی تھیں کہ موجودہ دور میں ”ادب برائے سیاست“ کا رجحان عام ہورہا ہے۔جوسوالات اس مباحثہ میں ابھرائے گئے ان کاخلاصہ کچھ یوں ہے کہ کیا ایک قلمکار آگے جانے کے لئے سیاست کا سہارا نہیں لیتا،انعام پانے کے لئے کمیٹی کے ممبران کو شیشے میں نہیں اتاراجاتا،مشاعرے میں شرکت کرنے کے لئے منسٹر صاحبان سے سفارش نہیں کرائی جاتی،کتاب کی رسم رونمائی میں کسی سیاست داں کو ایوان صدارت میں بٹھاکر رونق نہیں بخشتی جاتی۔اب تو صورتحال یہ ہے کہ کتاب کا انتساب بھی سیاست زدہ ہوچکا ہے۔فلیب، تقریظ،پیش لفظ وہ بھی کسی ایسے بیروکریٹ سے لکھنے کا رجحان چل پڑا ہے جو مستقبل میں کوئی فائدہ پہنچا سکے۔ لابی ازم کا جال اتنا پھیل چکا ہے کہ اب ادیبوں کا دائرہ ”من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو“ کے مصداق سمٹ چکا ہے۔یک نفری تنظیمیں پریس نوٹ تک محدود ہیں اور اپنے ذاتی منفعت کے لئے لٹریچرکے ٹاٹیل کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ایسی کئی باتیں ہیں جن کا عمل دخل صرف اور صرف سیاست کی مرہون منت ہے۔ اسی لئے موجودہ دور میں جونظریہ پنپ رہا ہے وہ صرف”ادب برائے سیاست“ ہے۔ سیاست زدہ ادیب اپنی انانیت کی تکمیل کے لۓ کسی حد تک جاسکتا ہے ۔ ابھی ادب میں سیاست کی بیجا مداخلت کی بات چل رہی تھی کہ مجھے اردو کے نامور شاعر فراق گھورکھپوری کا ایک انانیت بھرا واقعہ یادآیا جس میں انہوں نے حسن نعیم کے شعری مجموعے ”حرف ِدل“ کا مقدمہ لکھنے کی حامی بھری۔جب حسن ؔنعیم نے فراق ؔصاحب سے استفسار کیا کہ مجھے وہ اپنے تاثرات سے نوازیں جو انہوں نے میری کتاب کے سلسلے میں لکھے ہیں۔فراقؔ صاحب نے درجواب کہا کہ بھائی جلدی کیا ہے پہلے میرے کچھ تازہ اشعار سنو۔پھر کیا تھا کہ فراق ؔصاحب اپنے اشعار سنانے میں منہمک ہوگئے اور حسن ؔنعیم داد دیتے رہے۔اس طرح یہ سلسلہ تین دنوں تک چلتا رہا۔جب فراقؔ صاحب نے ڈھائی ہزار اشعار سنانے کے بعد حسنؔ نعیم سے پوچھا کہ اردو کا بڑا غزل گو شاعر کون ہے تو حسنؔ نعیم نے برجستہ جواب دیا کہ میر تقی میرؔ۔یہ سنتے ہی فراق ؔصاحب کے چہرے سے ہوائیں اُڑنے لگیں،پھر مزید پوچھا اب اگر دو نام لینے ہو تو کس کس کا نام لو گے،حسن نعیم نے میرؔ کے بعد غالب ؔ کا نام لیا۔پھر کیا تھا فراقؔ صاحب نے تعداد پانچ تک بڑادی،لیکن پھر بھی انہوں نے فرا قؔ کا نام نہیں لیا۔فراقؔ صاحب کو غصہ آیا اور کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسی سخن فہمی اور سخن دانی کی بنیاد پر میں آپ کی کتاب کا مقدمہ لکھوں۔ اس واقعہ سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ اب ادیب سیاست کا سہارا لے کر اپنی کرسی پر براجمان رہنا چاہتا ہے،اس با ت کا اعتراف وارث علوی نے کئی سال پہلے کیا تھا کہ اب ادب میں بھی بڑے بھائی لوگوں کا سکہ چلتا ہے اس بات کی تصدیق مرحوم علی محمد لون کے اس خط سے ہوتی ہے جو انہوں نے ڈاکٹر بشیر گاش ؔ کے نام لکھا ہے کہ ”ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ادب یا شاعری کے میدان میں ہماری ہمسری کا دعویٰ کرے،اس سے ہماری اہمیت اور شہرت دونوں میں خلل پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے،ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ آپ اور آپ جیسے دوسرے نوجوانوں کو ادب کے خارزار اور شاعری کے ریگزار سے ڈراتے رہیں،آپ کو راہ ِ ادب سے بھٹکائیں،آپ کے دل میں وسوسہ، ڈر،واہمے،اور شکوک پیدا کریں،اچھی بری کوشش اور اچھے برے عمل میں کیڑے نکال کر آپ کو (frustrate) کریں۔بھئی ایسا نہ کریں تو ہمارے نام لیواؤں میں پھر کون رہے گا۔آپ نے بڑھ کر بازی جیت لی تو ہم اپنی ہار پر مطمین کیسے ہوں گے؟“ اس میں دو رائیں نہیں کہ مرحوم علی محمد لون ایک جنیوٸن ادیب تھے لیکن ایک بڑے ادیب کے مافی الضمیر کو سمجھانے کے لۓ جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوۓ حقیقت کی عکاسی کی ہے جس کی مثال شاید ہی ادبی تاریخ میں ملے گی ۔ اب لٹر یچر میں انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک سیاست کا عمل دخل ہوچکا ہے۔پھر بھی حتی المکان اک قلم کار کو چایئے کہ وہ سیاست سے دامن کشا ہوکر علم وادب کا دامن پکڑے اوراپنی خداداد صلاحیتوں کو تخلیقی عمل کے لئے وقف رکھیں۔کیونکہ قلم کار اپنے ادبی قد وقامت پر زندہ رہتا ہے نہ کہ سیاست کے ہتھ کنڈوں سے۔ بقول شاعر ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانے اپنا پیغام ِ محبت ہے جہاں تک پہنچے