گزرگاہ خیال :17
ہرقلم کارکے تخلیقی تجربے اپنی اپنی نوعیت کے ہوتے ہیں۔کسی کومخصو ص اوقات ہی راس آتے ہیں تو کوئی خاص واقعہ سے متاثر ہو کر لکھتا ہے۔ کوئی آمد کا متلاشی ہوتا ہے تو کوئی آورد کی مشق و ممارست میں محو ہوتا ہے۔کوئی حظ و لطف کے لئے لکھتا ہے تو کوئی اپنے تجربات کودلچسپ انداز میں لکھ کر قارئین کی داد و دہش کا آرزو مند ہوتا ہے۔کوئی تخلیق کے لئے مطالعہ کو ضروری گردانتا ہے تو کوئی مشاہدہ کے عمل کوتخلیق کی اساس مانتا ہے،کوئی ادب کو برائے ادب،تو کوئی ادب برائے زندگی کا نظریہ اپناتا ہے۔غرض ہر کوئی کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہی تخلیق کو معرضِ وجود میں لاتا ہے۔ جب مختلف مشاہیر کی تخلیقات کے محرکات سامنے آتے ہیں تو عجیب و غریب باتیں سننے کو ملتی ہیں۔معروف اردو افسانہ نگار غلام عباس ایک بار جاڑوں کی رات میں اور کوٹ کے نیچے صرف بنیائن پہنے ہوئے سیر کو نکلتے ہیں تو انہیں راستہ میں یہ خیال آتا ہے کہ اگر اس وقت وہ کسی حادثے کا شکار ہوجائیں اور ان کا اور کوٹ اتار دیا جائے تو کیسا رہے گا؟ اس لطیفہ آمیز خیال نے ان سے ایک شاہکار افسانہ ”اور کوٹ“ لکھوایا۔منشی پریم چند نے ”نیرنگ ِ خیال“ کے مدیر حکیم یوسف حسن کو اپنے افسانوں کی وجہ تخلیق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میرے قصے اکثر کسی نہ کسی مشاہدے یا تجربے پر مبنی ہوتے ہیں۔ان میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر محض واقعے کے اظہار کے لئے کہانیاں نہیں لکھتا۔میں اس میں کسی فلسفیانہ جذباتی حقیقت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں،جب تک اس قسم کی کوئی بنیاد نہیں بنتی،میرا قلم ہی نہیں اٹھتا۔منٹو ؔ نے بیدی کو ذاتی خط میں لکھا کہ ”بیدی،تمہاری مصیبت یہ ہے کہ تم سوچتے بہت زیادہ ہو،معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو،لکھتے ہوئے سوچتے ہواور لکھنے کے بعد بھی سوچتے ہو۔“ بیدی ؔ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ منٹو کا کیا مطلب ہے کہ میری کہانیوں میں کہانی کم اور مزدوری زیادہ ہے۔بیدی مزید لکھتے ہیں کہ مجھے تخیلِ فن پر یقین ہے،جب کوئی واقعہ مشاہدے میں آتا ہے تو میں من و عن بیان کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ حقیقت اور تخیل کے امتزاج سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اسے احاطہ تحریر میں لانے کی کوشش کرتا ہوں۔منٹواکثر کہتے تھے کہ وہ کبھی کبھی سوچے بغیر کسی فرضی کردار کے بارے میں ایک جملہ لکھ دیتے ہیں،پھر اسی کردار سے احوال دریافت کر کے افسانہ لکھتے چلے جاتے ہیں۔کبھی کبھار افسانہ کا کردار میری مرضی سے چلنے سے انکار کردیتا،تو میں اس کوکردار کی نفسیات کے مطابق ہی انجام تک لے جاتا ہوں،جس سے کہانی پیچیدہ بھی بن جاتی۔ منٹو کے متعلق مشہور ہیں کہ وہ فحش نگار تھا۔اس کی کہانیاں جنس پر مبنی ہوتی ہیں۔منٹو کی سوچ عام تخلیق کار سے بہت مختلف تھی وہ احمد ندیم قاسمی کو ایک خط میں صاف لفظوں میں لکھتے ہیں کہ پتی ورتا استریوں اور نیک دل بیویوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔اب ایسی داستانیں فضول ہیں،کیوں نہ اس عورت کا دل کھول کر بتایا جائے جو اپنے پتی کی آغوش سے نکل کر دوسرے مرد کی بغل گرمارہی ہواور اس کا پتی کمرے میں بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا ہو۔گویا کچھ ہو ہی نہیں رہا ہو۔زندگی کو اس شکل میں پیش کرنا چاہئے۔ منٹوکواس قسم کی کہانیاں لکھنے پر بہت لعن وطعن بھی سہنا پڑا،لیکن اس نے اپنی روش آخر تک نہیں چھوڑی۔ رومانی افسانہ نگار سلطان حیدر جوش اپنی افسانہ نگاری کے متعلق لکھتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ افسانہ اس وقت لکھا،جب خود بخود میری طبیعت میں اس کے لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔کبھی یہ تحریک دفعتاً وجود میں آئی اور کبھی مہینوں میں اس حد تک پہنچی کہ میں پوری طرح اس کو محسوس کرسکا۔اس تحریک کے وجود میں آنے کے اسباب بھی مختلف ہوئے۔کبھی صحبت ِ احباب،کبھی ریل کا سفر،کبھی کسی مقام کی سیر اور کبھی کسی غیر معمولی واقعہ کا مشاہدہ۔ایسی تحریک کے پیدا ہوجانے کے بعد دوسرا مرحلہ اس کے اظہار کے لئے افسانہ تخلیق کرناہوتا ہے۔یہ مرحلہ اکثرو بیشتر میں نے رات کی تنہائی میں اور کچھ نہیں تو حقے کی امداد سے پلنگ پر لیٹے ہوئے طے کیا۔واقعہ یہ ہے کہ تحریک ِ صادق کے ساتھ محض ایک خیال،ایک مخصوص جملہ، ایک غیر معمولی تصویر یا ایک نیا مصالحہ دماغ میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔اس مخصوص تحریک کو افسانے کے سانچے میں ڈھالنا بالکل ایسا ہی کام ہے جیسے گوندھی ہوئی مٹی سے مختلف اقسام کے رنگ برنگے کھلونے بنانا ہے۔ممتاز شریں مانتی ہیں کہ میرے افسانے،میرے احساسات کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور میرے احساسات زندگی کی تلخیوں سے بھر پور،جو کچھ دیکھتی اور سنتی ہوں، وہی کچھ اپنے افسانوں میں سمونے کی کوشش کرتی ہوں۔تخیلی دنیا میں کھوجانا مجھے پسند نہیں۔مشاہدات کی تصویر کشی میرا مسلک ہے چونکہ میں مشرقی ہوں اس لئے مشرق اور خصوصیت کے ساتھ ہندوستانی ماحول میرے پیش ِ نظر رہتا ہے۔افسانہ اسی وقت لکھتی ہوں جب شدت کے ساتھ کسی چیز کو محسوس کروں۔ میرے نزدیک وہی افسانہ ہے جو حقیقت سے قریب ہو۔روسی ناول نگار ٹالسٹائی پر عالمی شہرت یافتہ ناول ”جنگ اور امن“کسی آسمانی کتاب کی طرح نازل نہیں ہوا۔اسے لکھنے کے لئے ٹالسٹائی نے بے پناہ ریاضت کی۔ا س نے نپولن کے حملے کے بارے میں تاریخ کی کتابیں،روسی جرنیلوں کی یاددشتیں،فوجی افسر ان کے درمیان خط و کتابت اور اس عہد کے اخبارات،رسائل اور جرائد پڑھنے شروع کیے۔غرض ہزارہا صفحوں پر پھیلا ہو اسامان اس نے پڑھ ڈالا۔وہ ان روسی بوڑھوں سے جا کر ملا،جو نپولین کی افواج سے مختلف محاذوں پر لڑے تھے۔وہ ان میدانوں میں گیا جہاں روسی اور فرانسیسی فوجوں کی لڑائیاں ہوئی تھیں۔اس نے میدانوں
کی مٹی اُٹھا کر ان کا رنگ دیکھا،انہیں سونگھا۔مٹی کی سگندھ میں فتح و شکست کے رنگ یکجا تھے۔وکٹر ہیو گو کونو تردام کے قدیم کلیسا کی دیوار پر کسی نامعلوم آدمی کا مدتوں پہلے لکھا ہوا ایک لفظ ”مشیت“ نظر آیا،تووہ سوچنے لگا یہ لفظ یہاں کس نے،کب اور کیوں لکھا ہوگا۔یہ خیال اس کے مشہور ناول ”پیرس کانوتردام“ کی بنیاد بن گیا۔عصمت چغتائی لکھتی ہیں ”تنہائی میں لکھنے کی عادت نہیں،چونکہ کبھی نصیب ہی نہیں ہوئی۔شورمچتا ہوتا ہے، ریڈیو بچتا ہوتا ہے اور بچے کشتیاں لڑتے جاتے ہیں اورمیں لکھتی رہتی ہوں۔ ہر تخلیق کار اپنی دنیا آباد کرتا ہے اسی لئے مشاہیر کے تخلیقی عمل کے محرکات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ہی دنیا میں رہتے ہوئے تخلیق کاروں کے موضوعات مختلف ہی نہیں بلکہ منفرد بھی ہوتے ہیں۔بقول غالب ؔ ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو ٭٭٭