گزرگاہ خیال :19
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں محمد سلیم سالک میرے ایک افسانہ نگار دوست جنید جاذبؔ ہمیشہ از راہ مذاق کہا کرتے ہیں کہ جینیس (genius) لوگ زیادہ دیر زندہ نہیں رہتے۔مجھے اس جملے کی معنویت کا اندازہ حال ہی میں ریڈیو کشمیرسے نشر ہونے وانے ایک کشمیری گیت سے ہوا،جو کشمیری زبان کے معروف شاعر رسول میرؔ کا ہے۔رسول میر ؔ ڈوروشاہ آباداننت ناگ کے رہنے والے تھے.ان کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے زندگی کی کل تیس بہاریں دیکھی ہیں۔کم عمری میں ہی انہوں نے روایتی شاعری سے انحراف کرتے ہوئے تیز و تند عاشقانہ جذبات کا بڑے بے باک انداز میں اظہار کیا۔جس کے لئے انہیں کشمیر کا ”کیٹس“ کہا جاتا ہے۔ دونوں شاعروں میں یہ مناسبت ہے کہ دونوں نے اپنے کلام میں عاشقانہ مضامین کو بے خوف و خطر پیش کیا اور دونوں کم عمری میں ہی(رسول میرؔ30سال اور جان کیٹس 26سال) اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ اس رومانی قبیل سے تعلق رکھنے والا ایک اور اردو شاعر اختر شیرانی بھی عالمِ جوانی میں ہی اردو دنیاکو سوگوار کرکے چلے گے ۔جب اردو شاعری کا تھوڑا سابھی مطالعہ کرتے ہیں تو جوان مرگ شعراء کی ایک طویل فہرست سامنے آتی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ (پ:1456ء،م:1499ء 43=سال)اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں۔اقتدار کی وجہ سے ان کاعالم جوانی میں ہی قتل ہوا۔انہوں نے اردو کی ہر شعری صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ان کا ضخیم کلیات”کلیات ِ قلی قطب شاہ‘‘ مرتّب ہوکر شائع ہوچکا ہے۔میرحسنؔ (پ: 1742ء،م:1786ء44=سال)مثنوی ”سحر البیان“ کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔اس مثنوی کو تخلیق کرنے کے ایک سال بعد ہی وہ فوت ہوگئے اور قادرالکلام شاعر مصحفی ؔ نے مادہ تاریخ وفات ”شاعرِ شیریں بیاں“ کہہ کر نکالا۔ا ن کی تصانیف میں ”تذکرہ الشعراء“ اور ایک دیوان شامل ہیں۔نسیم لکھنؤی (پ:1811ء: م:1844ء33=سال) کشمیری برہمنوں سے تعلق رکھتے تھے۔کم عمری میں ہی فطری طبیعت اور ذہانت سے شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ان کی شہرت ”مثنوی گلزار ِ نسیم“ کی وجہ سے ہوئی۔ ا ن کا زیادہ کلام دستیاب نہیں ہے پھر بھی ایک مختصر دیوان ہے جس میں غزلیں،مخمس اور ترجیع بند ہیں۔سرورؔ جہاں آبادی (پ:1873 ء،م:1910ء 37=سال)کثرت ِ شراب نوشی کی وجہ سے کم عمری میں ہی انتقال کرگئے۔فطری شاعر ہونے کی وجہ سے ابتدائی دور سے ہی معیاری شاعری کی۔ان کے دو شعری مجموعے ”خمخانہ سرور“،”جامِ سرور“ بہت ہی مشہور ہیں۔چکبستؔ لکھنؤی (پ:1882ء،م:1926ء44=سال)کے آباء اجداد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ان کو نظم گو شعرا ء میں شمار کیا جاتا ہے۔ان کی نظموں میں حبِ وطن،قومی بیداری،جذبہ آزادی اور فرقہ وارانہ اتحاد ملتا ہے۔رامائن کے قصے کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ نظم کیا ہے۔ان کا شعری مجموعہ ”صبح ِ وطن“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔اختر ؔشیرانی (پ:1905ء،م:1948ء = 43سال)کی رومانی شاعری سے کون واقف نہیں۔انہوں نے عالم شباب میں ہی کئی تصانیف اردو شعر وادب کو دیں۔ان میں شعرستان،صبح ِ بہار ِ نغمہ، طیور آوارہ،لالہئ طور،پھولوں کاگیت(بچوں کے لئے) قابل ذکر ہیں۔ان کے فلمی نغمے آج بھی اپنی جاذبیت کی وجہ سے مشہور ہیں۔مجازؔ لکھنؤی (پ:1911ء،م:1955ء44=سال)ترقی پسند تحریک کے علمبردار شاعرہیں۔ان کے کلام میں بیک وقت لطافتِ زباں،جوش و انقلاب اور رومانیت کے جذبات شدت سے ملتے ہیں۔ان کے تین شعری مجموعے آہنگ،سازِنو اورشبِ تاب شائع ہوچکے ہیں۔میراجی (پ:1912ء م:1949ء= 37سال) کشمیر ی الالنسل شاعر ہیں۔کم عمری میں ہی انہوں نے اردو شاعری کی روایت کو ہی بدل ڈالا۔شعر وشاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ان کے دو شعری مجموعے”میراجی کی نظمیں“ اور ”میراجی کے گیت“ منظر عام پر آچکے ہیں۔ناصر ؔکاظمی (پ:1925،م:1972ء47=سال)نے اردو غزل کوجو موضوعاتی بلندی عطا کی،اس کے لئے ان کو ہمیشہ ”میرکاؔ ثانی“ تسلیم کیا جاتا ہے۔انہوں نے اردوغزل میں تاریخی شعور،جذباتی وفوراور متترنم بحور کا فن کارانہ نمونہ پیش کیا۔ان کی دو تصانیف ”برگ نَے“ اور ”دیوان“ شائع ہوچکی ہیں۔پروین شاکرؔ(پ:1952ء،م: 1994ء = 42سال)کا نام سنتے ہی نئے لب و لہجے کا احساس ہوتا ہے۔انہوں نے جس طرح نسوانیت کی ترجمانی کی ہے اس کی مثال پورے شعروادب میں مشکل سے نظر آتی ہے۔ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔جن میں انکار،خود کلامی،صد برگ،خوشبو قابل ذکر ہیں اب تو ”ماہِ تمام“ کے نام سے ان کا کلیات بھی ملتا ہے۔بعض شعراء نے پچا س کے آس پاس کی عمر ہی پائی،ان میں مومن خاں مومن(52سال) ،خلیل الرحمان اعظمی (51سال)،اصغر گونڈی(50سال)وغیرہ شامل ہیں۔ میرے استاد محترم مرحوم فرید پربتی (پ:1962ء،م:2011ء 50=سال)جو خود جواں مرگ شعراء کی فہرست کا حصے بنے، ا کثرشاعر کی عمر کو تین ادوار میں بانٹتے تھے۔پہلا دور تیس سال سے چالیس سال تک کا عرصہ ہوتا ہے جو شاعر کے لئے نوجوانی کا درجہ رکھتا ہے۔اس دور میں تاثرات کی کمی نہیں ہوتی لیکن تمام تاثرات واضح اور نمایاں نہیں ہوتے۔دوسرا دور چالیس سال سے پچاس سال تک ہوتا ہے۔اس دور کو شعرو سخن میں جوانی کا دور تسلیم کیا جاتا ہے۔اس دور میں فکر واحساس اور الفاظ و اسلوب کے درمیان یک گونہ توازن پیدا ہوتا جاتاہے۔وہ معناً بھی قیمتی اوروزنی معلوم ہوتا ہے۔اسلوب ِبیان میں بھی زیادہ صفائی،شگفتگی،روانی اور انجام نمایاں ہوتا ہے۔تیسرا دور پچاس کے بعد شروع ہوتاہے جس میں شاعر بقولِ عرفی ؔ ”کوثر وتسنیم“ کی لہروں میں تیرنے لگتا ہے۔اس دور میں شاعر کو ایک ایک شعر میں متعدد پہلو پیشِ نظر رہتے ہیں۔دل و دماغ میں شعر سے جو مناسبت پیدا ہوتی ہے وہ بے قصد و ارادہ شاعر کی فطری خصوصیتوں کے مطاب
ق کارفرمارہتی ہے۔ مجھے جنید جاذب ؔکی وہ بات بھلی لگتی ہے کہ جینیس (genius) لوگ زیادہ دیر زندہ نہیں رہتے۔ بلکہ وہ کم عمری میں ہی وہ مقام حاصل کرتے ہیں جن کی خاطر بعض لوگ بڑی تگ ودو کرتے ہیں۔شاید اسی لئے قدرت ان سے زیادہ کام لیتی ہیں تاکہ ان کو کم عمری کا گلا نہ رہے۔ ٭٭٭٭