محمد سلیم سالک
بچپن میں برف باری شروع ہوتے ہی ہمیں گھر میں قید کیا جاتا تھا ۔ہمارے ایک رشتہ دارنقاش انکل،جو فوج سے سبکدوش ہوئے تھے اور کشمیری نغمے سننے اور طلسماتی داستانیں سنانے کا دیرینہ شوق زور وشور کے ساتھ پالتے تھے ، یوں کہئے کہ یہ ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا ۔انہیں درجنوں طلسماتی داستانیں اَزبرتھیں اور وہ سناتے سناتے تھکتے نہیں تھے اور سننانے کا انداز اتنا نرالاتھاکہ قصہ گوئی طول کھینچ کر کبھی کبھار مہینوں تک پھیل جاتی تھی ۔ انداز ِبیاں اتنا مسحور کن تھا کہ لاکھ چاہنے کے باجود بھی داستان چھوڑ کر کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔کرداروں کی سراپانگاری اور واقعات کی منظر کشی اتنی مہارت سے کرتے کہ پورا پورا دن تصورات میں گزرجاتا ۔رستم سہراب ، حاتم طائی، الف لیلیٰ اور کوہِ کاف کی پریوں کا تذکرہ پوری سردیوں تک چلتا رہتا ۔ داستانوں کو سنتے سنتے تاریخی ناول پڑھنے کاشوق کب چرایا, پتہ ہی نہیں چلا ۔ان دنوں نسیم حجازی اورصادق سردھنوی کے نام زبان زد ہر خاص و عام ہواکرتے تھے۔ناول پڑھنے کی عادت سے پہلا نقصان یہ ہوا کہ اب نصابی کتابوں میں دل ہی نہیں لگتا۔ ان ہی دنوں میں نے کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑنے کی کوشش میں کچھ نثری نظمیں تخلیق کیں۔لیکن مذاق کا نشانہ بننے کے خوف سے کسی کو دکھانے کی ہمت نہیں جٹا پایا۔س لئے خاموشی سے لکھتا رہا، یہاں تک کہ ایک ڈائری مکمل ہوگئی۔ جب میرے ایک استاد کو یہ معلوم ہوا کہ مجھے شاعری کا چسکا لگ چکا ہے تو انہوں نے مجھے ذاتی لائبریری سے کئی کتابیں پڑھنے کو دیں۔جن میں بنگلورکے ایک شاعرسلیم زاہدؔکا شعری مجموعہ بھی تھا۔جوں ہی میں نے کتاب کاسرسری مطالعہ شروع کیا،تو مجھے کئی اشعار اچھے لگے۔ میں نے جسارت کرکے اپنے تاثرات ایک پوسٹ کارڈ پر لکھ کرسلیم زاہدؔ کوارسال کیا۔ قریباً ایک مہینے کے بعد سلیم زاہدؔکا جوابی لفافہ ملا۔جس میں انہوں نے بڑی حوصلہ افزا باتیں لکھیں تھیں۔ جن سے مجھ میں اتنی ہمت بندھی کہ میں نے کچھ نثری نظمیں زاہدؔصاحب کو اصلاح کے لئے روانہ کیں۔انہوں نے نظموں کی نوک پلک ہی نہیں سنواری بلکہ کچھ مفید مشورے بھی عنایت کئے۔اس طرح یہ سلسلہ دیر تک چلتا رہا۔ایک دن انہوں نے فو ن پر اطلاع دی کہ میں ریڈیوکشمیر کے مشاعرے کے سلسلے میں کشمیر آرہاہوں۔امید ہے کہ آپ میزبانی کے شرف سے ضرور نوازیں گے۔ اور پھر وہ دن بھی آیاجب مجھے زندگی میں پہلی بار ائیرپورٹ دیکھنے کا موقعہ ملا۔ گھر سے ہی ایک بڑے سائز کاکارڈ بنایااور اس پر فلمی انداز میں جلی حروف سے سلیم زاہدؔ (بنگلور)لکھا۔میں اس شخص کو لینے جارہاتھا جس کو میں نے کبھی نہیں دیکھاتھا۔اس لئے یہ خدشہ ضرور تھا کہ میں زاہدؔصاحب کو کیسے پہچانوں گا۔جوں ہی میں ائیرپورٹ کے اندر داخل ہوا،تو پتہ چلاکہ جہاز lateہے۔ انتظار کی شدت کم کرنے کے لئے میں نے کیفٹریا کا رخ کیا۔ وہاں ایک کونے میں نامور اردو شاعر رفیق راز اور معروف گلو کار غلام نبی شیخ پہلے ہی موجودتھے۔مجھے انداز ہ ہوا کہ یہ شعراء کو Receiveکرنے آئے ہوں گے۔یہ وہی غلام نبی شیخ تھے جن کی موت ریل گاڑی میں واقع ہوٸی تھی۔اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں۔(آمین) مرحوم شیخ صاحب نے مجھے اپنی طرف آتے ہی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔میں نے راز صاحب سے شعراء کے متعلق دریافت کیا اور ساتھ ہی سلیم زاہدؔکو نہ پہچانے کی بات بھی کی۔ مرحوم شیخ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا برخودار اس میں پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔تم اس کارڈ کو بیگ میں ڈال دو۔ میں تمہاری اس پریشانی کا حل دھونڈ کر لاتا ہوں،فلحال تم رازؔ صاحب کے ساتھ چائے نوش کرو۔یہ کہتے ہوئے وہ جہاز کے متعلق دریافت کرنے چلے گئے۔ رفیق رازؔ سے بلامشافہ ملاقات پہلی بار ہورہی تھی۔ اگرچہ میں ان کی مسحور کن آواز ریڈیو پر بچپن سے سنتا آرہا تھا۔ان دنوں رازؔ صاحب کی غزلیں ”شب خون“ کے شماروں میں خوب چھپتی تھیں۔یہاں تک کہ ان کو جدیدیت کے نمائندہ شعرا ء میں شمار کیا جاتا تھا۔ موقعہ غنیمت جان کر”شب خون“ اور ”جدیدیت“ کا موضوع چھیڑا۔بس پھر کیا تھا رازؔ صاحب اپنے مخصوص انداز میں جدیدیت کی پیچیدگیوں کو سلجھانے لگے۔جیسے ایک استاد اس بات پر بضد ہوں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ بالکل برحق ہے۔ رازؔصاحب یہاں تک جذباتی ہوگئے کہ انہوں نے شمس الرحمان فاروقی کو اردو کا واحد نقاد گردنا۔ان کی بصیرت آموز گفتگو سن کر مجھے جدیدیت کی اصطلاح بہت بھلی لگی اگر چہ ان دنوں ہر طرف جدیدیت کے خلاف بولا اور لکھا جارہا تھا۔ابھی ہماری گفتگو کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچی تھی کہ مرحوم شیخ صاحب نے ہمیں جہاز کی آواز کی طرف متوجہ کیا۔لوگ خراماں خراماں جہاز سے اتر رہے تھے اور ہم اپنے مہمانوں کی طرف متوجہ تھے کہ کب وہ باہر آئیے۔ قریباً سب لوگ جہاز سے اتر چکے تھے لیکن شعراء کرام کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ابھی چند منٹ کا وقفہ ہی ہوا کہ دور سے چند شعراء اپنے اپنے بیگ سنبھالے چلے آرہے تھے۔ میں سلیم زاہد کو پہچانے کی کوشش کررہا تھا کہ رازؔ صاحب نے میری الجھن سمجھتے ہوئے شعراء سے سلیم زاہد ؔ کے متعلق دریافت کرنے لگے لیکن بدقسمتی سے سلیم زاہدؔ نہیں آئے پائے تھے،جس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔اس واقعے کے ایک مہینے بعد مجھے سلیم زاہد ؔ کی بہن سے ایک مکتوب موصول ہوا،جس کو پڑھ کر سیلم زاہدؔ کے کشمیر نہ آنے کی وجہ دریافت ہوئی۔آج کٸی سالوں بعد کاغذ کے پلندوں سے وہ خط نکل آیاجس سے مجھے شدید بے چینی کاشکار ہونا پڑاتھا۔ بقول شاعر ؔ کھو بھی جاؤں میں اگر دشتِ فراموشی میں میرا ماضی مجھے یادوں کے فسانے دے گا از بنگلور 30 ستمبر 2000 بھائی جان اسلام علیکم تم
ہار ا خط ملا۔پڑھ کربے حد خوشی ہوئی۔جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی،معاف کریں۔یہ خط سلیم زاہد ؔ نہیں بلکہ ان کی طرف سے ان کی بہن لکھ رہی ہوں۔جس دن آپ کا خط ملا،وہ بیمار ہسپتال میں تھے۔Diabetesکی وجہ سے دونوں کڈنی (Kindey fail) ہوگئے تھے۔جس کی وجہ سے انہیں اسٹروک بھی ہوگیا۔اس کی وجہ سے وہ قلم بھی سیدھا نہیں پکڑ پاتے تھے۔جب گھر آئے تو انہوں نے آپ کا خط پڑھ کر بے حد خوشی ظاہر کی۔کئی بار آپ کے خط کا جواب لکھنے کی کوشش کی۔پر وہ ٹھیک سے نہ لکھ پاتے۔Dialysis کرتے رہے۔اچانک بخار کی وجہ سے Manipal Hospital میں ایڈمٹ ہو کر آٹھ دن رہے اور 25جولائی 2000 کو وہ انتقال کر گئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت نصیب کرے۔آپ بھی ان کی مغفرت کے لئے دعا کریں۔ دعا گو آپ کی بہن حامدہ مشتاق