بہت انمول ہے مضطرؔتری یادوں کا سرمایہ
محمد سلیم سالک
موجودہ گلیمرکی دنیا میں TRP(Television Rating Points)کی اصطلاح عام ہوگئی ہے۔ہر پروگرام کی TRPبڑھانے کے لئے نت نئے Reality Shows بڑی آب تاب کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں جن میں جیتنے والوں کو ایک ہزار سے لے کر پانچ کروڑ تک کی کثیر رقم بطور انعام ملتی ہے۔اس طرح کے شو ناظرین بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔دو دہائی قبل جب ہر گھر کے ہر کمرے میں ٹی وی نہیں ہوتااور کیبل نیٹ ورک کا کوئی نام ونشان نہیں تھاتواگر کسی کو پی ٹی وی دیکھنے کا شوق ہوتا تو مکان کی چھت پر پتلی المونیم سے بنی ایک انٹینا نصب کرنا پڑتی اور پھر کئی اطراف گھماکر صحیح سمت ملتی اور پی ٹی وی کے پروگرام دیکھنانصیب ہوتے۔ان دنوں پی ٹی وی پر ایک ریلٹی شو ”نیلام گھر“ کے نام سے ہوتا تھا جس میں طارق عزیز کی اینکرینگ اتنی دلچسپ ہوتی کہ پروگرام ختم ہونے تک کوئی دوسرا کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔طارق عزیز کے سوالات کرنے کا ڈھنگ اتنا نرالا ہوتا کہ ہم لوگ گھر بیٹھے جوابات دینے کی کوشش کرتے جیسے ہمیں بھی انعامات ملنے کی امید ہو۔”نیلام گھر“ میرے ذہن کے محفوظ خانہ میں قید ہوکر رہ گیا تھا،جب بھی کوئی ریلٹی شو دیکھتا تو ”نیلام گھر“ کی یاد ِ پارینہ تازہ ہوجاتی۔حسن ِ اتفا ق سے ایک دن ہفت روزہ ”کشمیر عظمیٰ“ میں جاوید آذر کا مضمون ”نیلام گھر“ کے حوالے سے پڑھا،پہلے مجھے شبہ ہوا کہ مضمون طارق عزیز والا ”نیلام گھر“ کے متعلق ہوگا لیکن چند سطور پڑھ کر معلوم ہوا کہ کشمیر کے معروف نظم نگار طاہر مضطر ؔکے شعری مجموعے کا عنوان بھی ”نیلام گھر“ ہے۔کہتے ہیں نا کہ اگر آپ کسی چیز کو پسند کرتے ہیں تو اس کے متعلق معلومات دریافت کرنا غیر شعوری طور شروع ہوجاتا ہے۔جاوید آذر کا مضمون پڑھ کر میرے اشتیاق کی شدت بڑھی کہ میں طاہر مضطرؔسے ملوں اور ان کے شعری مجموعہ ”نیلام گھر“ سے مستفید ہوسکوں۔کیونکہ بقولِ آذر ؔ ”طاہر ؔکی کئی نظموں کی روانی تو ایک پہاڑی ندی کی مانند ہے جو نہ تھمنے کانام لیتی ہے نہ رکنے کا اور نہ تھکنے کا“۔پھر کیا تھا میری آرزو مرحوم مخمور حسین بدخشی کی وساطت سے بھر آئی جو طاہر مضطر کے سمبندھی بھی تھے اور معروف افسانہ نگار بھی۔ میری پہلی ملاقات مضطر صاحب سے ان کی رہائش گاہ واقع سنت نگر راول پورہ سری نگر میں ہوئی۔گفتگو کے درواں پہلے پہل میں سنبھل کر بات کرنے لگا لیکن بدخشی صاحب کی موجودگی میں طاہر مضطر کی اپنائیت اور باتوں میں فراخ دلی کا عنصر شامل ہوگیا۔تومیں نے موقعہ غنیمت جانا اور کتاب کے عنوان ”نیلام گھر“ کا موضوع چھیڑا۔پہلے کچھ دیر توقف کیا اور پھر ہنستے ہوئے گویا ہوئے کہ تم نے شیکسپئر کا وہ جملہ سنا ہوگا جس میں انہوں نے دنیا کو ایک سٹیج قرار دیا ہے اور دنیا میں ہر آنے والے کو سٹیج کا کردار۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو درجواب کہا کہ میں یہاں شیکسپئر سے اختلاف کرتا ہوں۔اختلاف کا لفظ سن کر میری دلچسپی مزیدبڑھ گئی کیونکہ میں پہلی بار سن رہا تھاکہ کوئی شیکسپئر سے بھی اختلا ف کرسکتا ہے۔اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اصل میں ایک نیلام گھر ہے اور یہاں ہر ایک شخص نیلام ہوتا ہے۔اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ نیلام ہونے کے وقت کس کی کیا قیمت لگے گی۔ ساتھ ہی اپنی نظم ”نیلام گھر“ کا آخری حصہ پڑھنے لگے جو ان کو اس طرح ازبر تھا جیسے کوئی خاص وظیفہ ورد ہوتا ہے۔ ”یہ تو نیلام گھر ہے یہاں ہو جاتا ہے سب کا نیلام کس طرح روکوں کیسے ٹوکوں میں کیسے بولوں کس طرح اپنی زبان کھولوں نام تیرا جو زبان پر مری آجائے گا میں یہ ڈرتا ہوں کہ نیلام کے وقت کہیں قیمت نہ تری گرجائے“ نظم کا بند سنانے کے بعد فوراًکمرے سے باہر چلے گئے۔میں حیران و پریشان بدخشی صاحب کو تکتا رہالیکن ان کی بذلہ سنجی اورحاضر جوابی کا کیا کہیے برمحل بول اُٹھے کہ طاہر ؔصاحب اپنے لئے کچھ کھانے کو لانے کے لئے گئے ہوں گے۔ میں ابھی پوری بات سمجھ ہی نہیں پایا تھا کہ طاہر ؔصاحب ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے ہاتھ میں نون چائے کا بھر ا مگ لئے کمرے میں وارد ہوئے اور پیچھے پیچھے ان کا خادم، روایتی انداز میں نون چائے کی کیٹل اور پانپور کی شیرمال ایک بڑی رکابی میں لے کر ہماری خاطر تواضع میں جڑ گیا۔نون چائے کے کش،بدخشی صاحب کی ظرافت اور مضطر صاحب کی مزے دار باتیں میری زندگی کا ایک انمول سرمایہ ہیں جو پھر کبھی مجھے نصیب نہیں ہوئیں۔ میں مضطر ؔصاحب کی باتوں سے کافی متاثر ہوا کیوں کہ ان کے موضوعات زندگی کے ہر شعبے سے جڑے تھے۔میں نے زندگی کے سفر کے بارے میں استفسار کیا تو کہنے لگے بھائی میں تو پہلے سرکاری نوکری کرتا تھا پھر دکانداری کا شوق چرایا۔ دکانداری سے طبیعت اوب گئی تو صحافت کے خارزار میں قسمت آزمائی شروع کی۔ صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اس لئے سیاست کا حصہ بھی بنالیکن شومئی قسمت سیاست بھی راس نہیں آئی اور خالص ادب تک ہی خود کو محدود کرنے کی شعوری کوشش کی۔ عمر کے آخری پڑاو ئ پر یہ سمجھ چکا ہوں کہ دنیا سچ مچ ”نیلام گھر“ ہے۔ یہاں چڑھتے سور ج کی پوجا ہوتی ہے۔صاف محسوس ہورہا تھا کہ مضطرؔ صاحب کی طبیعت مکدر ہوچکی ہے اور انہیں اب کسی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میں نے جب مضطر ؔصاحب کو ایک سنجیدہ فلسفی کی طرح باتیں کرتے دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ انہیں زندگی میں کئی مشکل پڑاؤ کا سامنا کرناپڑا ہے جن کے اثرات ان کی نظموں میں صاف جھلکتے ہیں۔شاید اسی لئے انہوں نے پابند شاعری میں قید ہونے کے بجائے آزاد شاعری میں خود کو comfortableمحسوس کیا۔ان کی نظموں کے عنوانات حادثہ،اپنی ذات سے ایک سوال،بوالہوسی،میں راتوں کو اب جاگتا ہوں، مونولاگ،کرب،مقتل اور نیلام گھر وغیرہ سے
ہی پتہ چلتا ہے کہ شاعرتخیل کی نخلستان کے بجائے حقیقت کی سنگلاخ زمیں پر اپنا تخلیقی آشیانہ تعمیر کرنے پر یقین رکھتا ہے۔اس سے یہی بات مترشح ہوتی ہے کہ مضطرؔ صاحب حساس طبیعت کے مالک تھے۔ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کہنہ مشق شعراء و ادبا ء نے بھی کیا ہے جن میں جگن ناتھ آزادؔ،فاروقؔ نازکی،حامدیؔ کاشمیری،مظہرامامؔ،شمس الرحمان فاروقی،رحمان راہی،بلراج کومل،محمد یوسف ٹینگ،عرش ؔصہبائی، نورشاہ، ظہورالدین، پشکر ناتھ،محمد زماں آزردہؔ، حسن ساہو،وریندر پٹورای،فرید ؔپربتی، جاوید آذرؔؔ،اسیر کشتواڑی،منور امروہی اور فریدہ کول قابل ذکر ہیں۔ اس ملاقات کے بعد پھر ہمارا رابطہ اکثرو بیشتر فیس بک پر ہوتا۔ہمیشہ یہی گلہ ہوتا کہ ملاقات کی کوئی سبیل نکالو۔وہ چاہتے تھے کہ ان کا آخری شعری مجموعہ ”لہو لہو کشمیر“ کی پروف ریڈنگ میں ان کی معاونت کروں لیکن میں ذاتی مصروفیات کی بنا پر وعدہ کرتا رہا لیکن ایفا نہ کرسکا۔ساتھ ہی انہوں نے شرائن بورڈ کے حوالے سے ایک تاریخی کتاب انگریزی میں لکھی تھی لیکن ابھی طباعت کا مرحلہ باقی تھا۔اب فیس بک ان کی مصروفیا ت کا اچھا ذریعہ بن گیا تھا۔میں نے جب بھی مضطر صاحب کے Statusکا مطالعہ کیا تو وہ طارق عزیز کی طرح ”نیلام گھر“ برپا کرنے پر تلے نظر آتے۔ہر Statusمیں کوئی نہ کوئی سوال پوشیدہ ہوتا یہاں تک کہ ایک بار انعام دینے کا بھی اعلان کیا۔میں حیران ہوں کہ مرنے سے ایک دن قبل بارہ بج کر تیرہ منٹ پر اپنے فیس بک وال پر ایک سوال ایپلوڈ کیا تھا جس کا جواب سنے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ”Please educate me……… Reply my one Question……… Is age of humans,necessarily wisdom?? …………٭٭٭٭……