ھارت ایک جمہوری ملک ہے جہاں پر ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے کی مکمل آزادی او ر چھوٹ ہے ۔ملک کے ہر شہری کو آئینی طور پر مذہبی آزادی حاصل ہے اور آئین تمام شہریوں کو مذہب کے لحاظ سے یکساں حقوق فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے بھارت میں تمام مذاہب کے لوگ ایک ساتھ مل جھل کر رہتے ہیں جن میں ہندومذہب ، اسلام ، سکھ مذہب، عیسائی، بودھ،جین اور دیگر مذاہب و عقیدے کو ماننے والے شامل ہیں ۔ مذہب کی آزادی ہندوستان کے آئین کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے، جو تمام شہریوں کو ان کے مذہب سے قطع نظر مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ ہندوستانی آئین مذہب کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیاز کو تسلیم نہیں کرتا۔ تمام مذہبی گروہ ظلم و ستم کے خوف کے بغیر اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد ہیں۔مذہبی عقائد اور ارکان پر عمل کرنے میںہر انسان کو بنیادی آزادی مئیسر ہے اور آئین نے ہندوستان کے ہر شہری کو محفوظ آزادی فراہم کی ہے ۔ دنیا میں ہندوستان وہ واحد ملک ہے جہاں پر اس کثرت سے مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں اس مذہبی آزادی کی وجہ سے امن و سلامتی اور مذہبی ہم آہنگی پروان چڑھتی ہے ۔ہندو مسلمان ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی میں ساتھ دیتے ہیں اور یہی مساوات اور بھائی چارے کی ڈور میں ہندوستان بندھا ہوا ہے ۔ اب اگر ہم کشمیر کی بات کریں تو کشمیر میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح ہی ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور اپنے مذہب پر چلنے اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی کھلی چھوٹ ہے ۔ اگرچہ تاریخ پر نظر ڈالنے سے ہمیں یہاں کی تاریخ پیچیدہ نظر آتی ہے ۔ 1947سے ہی پاکستان کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے کی کوشش میں لگا ہے جس دوران کئی دفعہ بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ بھی چھڑ گئی ہے ۔ یہ خطہ ایک طویل عرصے سے تنازعات کی لپیٹ میں ہے۔ ہنگامہ آرائی کے باوجود کشمیر کے لوگوں نے اپنی ثقافتی اور مذہبی روایات کو برقرار رکھا ہے۔ ہندوستانی آئین میں مذہب کی آزادی کا تحفظ کیا گیا ہے اور کشمیر کے لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس میں روایتی لباس پہننے، مذہبی علامات کا استعمال کرنے اور مذہبی تقریبات کا حق شامل ہے۔پاکستان بار بار مذہب کے نام پر یہاں حالات خراب کرنے کی فراق میں رہتا ہے تاہم وہ اپنی مزموم کوششوں میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہواہے ۔ بھارتی آئین کے تحت کشمیر میں بھی ہر کسی طبقہ کو مذہبی آزادی فراہم ہے ۔ملک کے دیگر حصوں کی طرح ہی وادی کشمیر میں بھی لوگ ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوتے ہیں اور مذہبی روسمات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ کشمیر میں بھی لوگ صدیوں سے کشمیری پنڈتوں کے تہواروں میں شامل ہوتے آئے ہیں اور گنیش چترتھی، درگاپوجا ، ہولی اور دیگر ہندو تہواروں میں کشمیری پنڈتوں کی خوشیوں میں شامل ہوئے ہیں جبکہ کشمیری پنڈت بھی مسلمانوںکے تہواروں خاص طور پر عیدیں کے موقعے پراپنے بھائیوں کے ہمراہ ان کی خوشیوں میں شامل ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو گلے لگاتے ہیں اور کشمیریت کی یہ ایک اعلیٰ اقدار ہے جو صدیوںسے یہاں پر برقرار رہی ہے ۔ مذہب ہندوستان اور کشمیر کے سماجی تانے بانے کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ اس نے سیاسی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وادی کشمیر مذہبی بھائی چارے اور مساوات میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے اور پوری دنیا میں اس کےلئے مشہور ہے جہاں پر ایک کشمیری پنڈت کے فوت ہونے پر مسلمان ان کی آخری رسومات میں شامل ہوتے ہیں جبکہ مسلمان اپنی شادی بیاہ کی تقریبات میں کشمیری پنڈتوں کو مدعو کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ بھارت میں مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثال ہے اس میں اکثریت ہندو برادری سے لے کر مسلم کمیونٹی، سکھ برادری اور عیسائی برادری تک ہے۔ ہندوستان کا آئین مذہب کی آزادی فراہم کرتا ہے اور یہاں کی عدالتیں بھی مذہبی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتی جبکہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے بھی ہر فرد کو آزادی کے ساتھ مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی چھوٹ ہے ۔ یہاں تک کہ کسی ریاست کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر کسی طبقہ یا گروہ کو ترجیح نہیں دے سکتی ہیں ۔ ریاست کو اقلیتوں کے حقوق کا بھی تحفظ کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ آئین میں مذہبی حقوق کی برابری بھی فراہم کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام مذہبی برادریوں کو عبادت گاہیں قائم کرنے اور اپنے مذہبی امور کا انتظام کرنے کا حق حاصل ہے۔ کشمیر میں مذہب اور سیاست کا رشتہ بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس خطے میں مسلم اکثریت ہے اور خطوں کی مذہبی برادریوں نے خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آزادی کے وقت سے اور کشمیر پر پاکستان کی جارحیت کے بعد سے مذہب کا ہمیشہ استحصال ہوتا رہا ہے اور پاکستان کی حمایت یافتہ جماعت اسلامی اور حریت کے ذریعے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے مذاہب کے درمیان نفرت کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا رہاہے۔ تشدد میں اضافے کی وجہ مذہبی برین واشنگ اور بنیاد پرستی کو قرار دیا جا سکتا ہے جسے بنیادی طور پر پاکستان کی حمایت حاصل ہے جس نے کشمیر میں ایک نسل کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کی بدترین مثال کشمیر میں پنڈت برادری کے خلاف جارحیت اوران کی یہاں سے ہجرت ہے ۔ اس تباہ کن صورتحال کے باوجود بھی کشمیر میں مذہبی بھائی چارہ ابھی باقی ہے اگرچہ کچھ عناصر کی جانب سے اسے مزید نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے البتہ عام لوگوں کی اگر بات کر
یں تو وہ مل جھل کر رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔اگر ہم ماضی کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کشمیر مسلم اکثریتی خطہ ہونے کے باوجود ہندو مذہب میں اس کی بہت مضبوط اہمیت ہے، کیونکہ اسے شیو مت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور اسلام کے آغاز سے پہلے ہندوستان کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کا حصہ رہا ہے۔ ایک حقیقت یہاں تک کہ مقامی لوگوں کو بھی اس پر فخر ہے اور وہ مختلف مذہبی تہواروں، خاص طور پر امرناتھ یاترا میں خوشی کے ساتھ حصہ لینے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ مذہب کے حوالے سے کشمیر کے لوگوں کی جامع فطرت کو ظاہر کرتا ہے۔مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے خلاف صف آراءہونے کی ضرورت ہے اور مذہبی بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وادی کشمیر میں بدامنی پھیلانے والے عناصر کو شکست سے دوچار ہونا پڑے۔