Arshid Rasool
کشمیر کی ترقی میں خواتین کا کردار
وادی کشمیر میں تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک حالات مخدوش رہنے کی وجہ سے لوگ کافی دباﺅ میں زندگی گزار رہے تھے خاص کو اس دباﺅکا شکار یہاں کی خواتین تھیں۔ گزشتہ تیس برسوں سے نامسائد حالات کی وجہ سے خواتین زیادہ متاثر رہیں ۔ ایک بہن ، ایک بیوی ،ایک بیٹی اور ایک ماں کی صورت میں کشمیر کی خواتین کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ملٹنسی کے دورمیں خواتین کے حقوق پامال ہوئے اور انہیں اپنے گھروں کے اندر رہنے پر مجبور کیا گیا ۔ خواتین کےلئے گھروں سے باہر کام کرنے کی کھلی آزادی مئیسر نہیں تھی اور سماجی کاموں میں ان کا رول نہ ہونے کے برابر تھا وہیں سیاسی ، تعلیمی اور ترقیاتی شعبوں میں خواتین کی حصہ داری پانچ فیصدی سے بھی کم تھی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ملٹنسی کے دوران یہاں کی خواتین سخت زہنی دباﺅ کی شکار تھی۔ ایک بہن کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ اس کا بھائی جو گھر سے پڑھائی ، نوکری یا کسی اور کام سے باہر گیاہے وہ واپس آئے گا یا نہیں ، اسی طرح ایک ماں ایک بیٹے کی راہیں تکتی رہتی تھیں اور ایک بیوی اپنے شوہر کاانتظار کرتی تھیںاور انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ گھر واپس صحیح سلامت آئیں گے یا نہیں ۔ اس طرح سے خواتین کو ہر صورت میں زہنی دباﺅ کا سامنا تھا ۔ یہاںپر کتنے بہنوں نے اپنے بھائی کھودئے ہیں اور کتنے ہی ماﺅں نے اپنے لخت جگروں کو اپنے سے جدا ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں اور ہزاروں بچے یتیم ہوئے ۔ اس سب صورتحال میں یہاں کی خواتین کو ہی زیادہ متاثر ہوناپڑا ۔ تاہم اب حالات متواتر بہتر ہورہے ہیںاور سرکار ،فوج اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کی مسلسل کوششوں سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خوف زائل ہوا ہے اور یہاںکے حالات بدل گئے جس کی وجہ سے خواتین کو بھی سماجی ، تعلیمی ، معاشرتی اور اقتصادی آزادی مئیسر ہوئی ہے ۔ اب کشمیری خواتین ہر شعبہ میں اپنا کردارنبھارہی ہیںاور بلا کسی خوف وخطر کے اپنے گھروں سے باہر جاکر کام کررہی ہیں۔
کشمیری سماج میں اس وقت اہم کردار اداکررہی ہیں جو نہ صرف وادی کشمیر بلکہ پورے ملک کےلئے اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اگر کشمیری خواتین اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر آزادی کے ساتھ زندگی گزاریں گی تو یہ پورے ملک کےلئے فخر کی بات ہے ۔ خواتین ہر شعبے میں اپنابہترین رول اداکررہی ہیں جس سے خطے کی ترقی کی راہ ہموار ہورہی ہے ۔ شعبہ صحت ہو،شعبہ تعلیم ،کھیل کود ہویا سیاسی میدان ہو یہاں کی خواتین ہر میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ خواتین آج سیاسی میدان میں سربراہی کررہی ہیں ، کمونٹی لیڈران کے طور پر اپنا کردار اداکررہی ہے اور
کشمیر کی خواتین نے حال ہی میں اپنی برادریوں میں خاص طور پر تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے خاندانوں اور بچوں کے لیے خدمات تک رسائی اور مدد کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا ہے۔پہلی اگرچہ خواتین صنفی مساوات کی شکار تھیں اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھ کر بھی خاموش رہتی تھیں تاہم اب ایسا نہیں ہے ۔ اب خواتین کسی بھی ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھاتی ہیں اور خواتین کے حقوق کو اُجاگر کرتے ہوئے ان کےلئے وکیل کے طور پر کام کرتی ہیں جس سے خواتین کے مسائل کم ہونے لگے ہیں ۔ آج کی خواتین اقتصادی طور پر بھی خود مختار ہورہی ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے کنبہ کی بھی دیکھ بھال اور ضروریات کو پورا کررہی ہیں ۔ پہلے کشمیری خواتین کی جانب سے کوئی کاروبار اور تجارت کرنا سماجی لحاظ سے معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن آج کے دور میں خواتین بھی کاروبار میں بھی حصہ لے رہی ہیں ۔ سرکاری اور نجی اداروں میں لڑکیاں اور خواتین مردوں کے برابر کام کرتی نظر آرہی ہیں ۔
وادی کشمیر کو مخدوش صورتحال اور بدامنی سے نکالنے کےلئے بھی کشمیری خواتین کا رول اہم رہا ہے ۔پہلے اگرچہ پولیس میں کشمیری خواتین جانے سے کتراتی تھیں لیکن اب پولیس اور دیگر فورسز ایجنسیوں میں کشمیری خواتین کی نمائندگی بھی بڑھ رہی ہے اور اب بلا ججک خواتین فورس میں شامل ہورہی ہیں اور امن و سلامتی کےلئے کام کررہی ہیں۔ خواتین مختلف کمیونٹیز کے درمیان بات چیت اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے اور تنازعہ کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ سول سوسائٹی کی تنظیموں میں سرگرم عمل ہیں جو انسانی حقوق کے مسائل اور امن کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہیں۔ خطے کی خواتین انسانی حقوق کے ان مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں سرگرم عمل رہی ہیں جن کا انہیں اور دوسروں کو سامنا ہے اور وہ علاقے میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور ضروریات کی وکالت کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ تشدد کا شکار ہونے والوں کو مدد فراہم کرنے اور خواتین کے حقوق کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ یہاں کی خواتین صنعت ، دستکاری اور روایتی فنون کو بھی جلا بخش رہی ہے ۔ دستکاری میںخواتین کارول قابل سراہنا ہے ۔ یہاں کی خواتین اپنے موروثی ورثے کو زندہ رکھنے کےلئے روایتی صنعتوں ، دستکار ی ، موسیقی اور کھانے پینے کے طریقہ کار کو اپنارہی ہیں اور اس کو اگلی نسل تک پہنچانے کی کوشش کررہی ہیں ۔
دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ کشمیری خواتین تعلیمی شعبہ میں بھی آگے بڑھ رہی ہیں ۔ پہلے اگرچہ کشمیری خواتین کےلئے محدود تعلیمی وسائل تھے تاہم کچھ برسوںمیں دیکھا گیا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں نمایاں کاکردگی نبھارہی ہیں۔وہ سکولوں،کالجوںاور یونیورسٹیوں میں شعبہ جات کی سربراہ کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔وہ نوجوان لڑکیوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر اپنا کردار اداکررہی ہیںاورانہیں اپنی تعلیم اور کیریئر کے اہداف حاصل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ تعلیمی پالیسیوں اور پروگراموں کی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جو لڑکیوں اور خواتین کی ضروریات کے لیے جامع اور ذمہ دار ہوں۔ اسی طرح یہاں کی خواتین ہیلتھ سیکٹر میں بھی اپنی خدمات اداکررہی ہیں ۔ کشمیری خواتین ڈاکٹر، نرس ، ٹیکنشن اور لیبارٹر اسسٹنٹوں کے طور پر شعبہ صحت میں رول نبھارہی ہیں۔ شعبہ صحت میں خواتین نے کووڈ کے دوران بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔ غرض آج کے نئے کشمیر کی خواتین ہر میدان میں بہتر کارکردی نبھارہی ہے اور اس کےلئے ایک طرف انہیں سرکاری طور پر بھر پور تعاون فراہم ہورہا ہے تو دوسری طرف انہیں اپنے گھر والوں اور کنبہ کی طرف سے بھر پور حمایت حاصل ہے اس طرح سے کشمیری خواتین سماجی لحاظ سے بھی آگے بڑھ رہی ہے ۔
کسی بھی معاشرے کی مجموعی ترقی کےلئے جہاں مردوں کا رول اہم ہے وہیں پر خواتین کی شمولیت بھی ضروری ہے اور ملک اور قوم کی ترقی اُس وقت ناممکن ہے جب تک نہ خواتین کی بھر پور نمائندگی ہو۔ اگرچہ پہلے وادی کشمیر میں خواتین کو صنفی تعصب کا سامنا تھا اور نامساعد حالات کی وجہ سے وہ کئی طرح کی آزادی سے محروم تھیں تاہم مرکزی سرکاری اور فوج اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کی کاوشوں سے ان کے خوابوںکو پرلگئے ہیں اور وہ آزادی کے ساتھ اب ہر میدان اور ہر شعبہ میں بہترین خدمات انجام دے رہی ہیں۔ تاہم انہیں مزید آگے بڑھانے کےلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے اور خواتین کے تئیں جو سوچ ہے اس میں اگرچہ کافی تبدیلی آئی ہے لیکن ابھی بھی اس سوچ کو مزید آزاد خیالی کی طرف بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی دیگر خواتین کی طرح ہی کشمیری خواتین بھی ہر میدان میں اپنی نمائندگی کا مظاہرہ کرسکیں ۔