۔ وادی کشمیر بڑے دانشوروں کی آمجگاہ رہی ہے یہاں پر شنکر آچاریہ جیسے ودھوان اور گیانی شخصیت کے ساتھ ساتھ شیخ العالم ؒ کا مسکن رہا ہے ۔غرض یہ خطہ جو اپنی خوبصورتی کےلئے دنیامیں جنت کے نام سے جانا جاتا ہے علم و داشن کا مرکز بھی رہا ہے ۔ جیسا کہ اس سے متعلق ساٹش مورخ جان میکنزی نے کہا ہے کہ وادی کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جس نے عالمی سطح پر تعلیم کا استقبال کیا ہے خاص کر مذہبی علوم کو تقویت بخشی ہے ۔ وادی کشمیر ایک ایسا خطہ رہا ہے جہاں پر مختلف مذایب کے لوگ مل جھل کر رہتے تھے جس نے کشمیر کو تعلیم کے میدان میں اپنا نام روشن کرنے اور دنیا بھر میں شاندار ثقافت کو سنہری حروف میں لکھنے کی طاقت دی ۔لیکن بدقسمتی سے پاکستانی حکمرانوں کی غلط سیاست اور دھوکہ دہی کی پالیسی کی وجہ سے یہ جنت کسی وقت تک جہنم زار میں تبدیل ہوگئی اور قریب تین دہائیوں تک حالات مخدوش رہنے کی وجہ سے وادی کشمیر تعلیمی لحاظ سے ملک کے دیگر حصوں سے کافی پیچھے رہا بالخصوص جدید تعلیم ، سائنسی دور اور تقبلی مزاج کی ترقی نہ ہونے کے برابر رہی ہے ۔ وادی کشمیر میں اگر ہم تعلیمی اداروں اور اس کے فروغ کی بات کریں تو یہاں پر صدیوں سے تعلیمی مراکز سرگرم رہے ہیں ۔ لیکن ان تعلیمی مراکز کو معاشرے کے کچھ طبقوں تک ہی محدود رکھا گیا تھا جس کی وجہ سے عام لوگ ان تعلیمی مراکز سے استفادہ حاصل کرنے سے قاصر رہے تھے خاص کر 1947میں آزادی کے بعد سیاسی انتشار ، قدامت پسند سماجی ڈھانچے ، جہالت اور سب سے بڑھ کر بنیادی سہولیت کے فقدان کی وجہ سے وادی کشمیر میں تعلیمی نظام کافی حد تک متاثر رہا جس کی وجہ سے معیاری تعلیم سے یہاں کی آبادی کا خاصہ حصہ محروم ہوکے رہ گیا۔اس بیچ سال 1989میں پیدا ہوئی شورش کی اور مخدوش حالات نے رہے سہے تعلیمی نظام کو اور زیادہ متاثر کیا اور یہاں کے تعلیمی نظام کا ڈھانچہ تتر بتر ہوا ۔ دھیرے دھیرے اگرچہ حالات بہتری کی طرف گامزن ہوتے گئے اور سال 2008تک وادی کشمیر کی اگر ہم مجموعی ترقی کی بات کریں تو کافی حد تک متاثر رہی، اور حالات ناموافق ہونے کی وجہ سے جدید تعلیم کے فروغ کے کافی کم مواقعے پیدا ہوئے اور یہ خطہ جدید اور معیاری تعلیم سے کافی پیچھے رہ گیا۔ سماجی اقتصادی اور تعلیمی لحاظ سے پچھڑے اس خطے کے بے رنگ خاکوں میں نیا رنگ بھرنے کےلئے مرکزی سرکار نے ”انسانیت،جمہوریت اور کشمیریت“ کے منتر کو آگے بڑھانے کی سعی کی تاہم جموں کشمیر میں موجودسیاسی کھنڈ پینچوں اور مفاد پرست قوتوں نے مرکزی سرکار کی کوششوںکو اس حد تک کامیاب نہیں ہونے دیا جس حد تک مرکز چاہتی تھی تاہم اس پہل سے مرکزی سرکار کو ایک نئی راہ مل گئی ۔ اور تین دہائیوں تک پاکستانی درپردہ جنگ میں مصروف فوج نے نہ صرف حالات کو بہتر بنانے کی طرف توجہ مرکوز کی بلکہ یہاں پر تعلیمی سدھار کی کوششیں بھی شروع کردیں اور اس تناظر میں آپریشن سد بھاونا کے تحت وادی کے اکثر اضلاع میں آرمی گڈول سکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس پہل سے نوجوانوں نے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان سکولوں میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردی اور قومی و ملکی سطحی پر اپنی قابلیت سے آگے بڑھتے رہے ۔ فوج کی جانب سے وادی کے دور دراز علاقوںمیں اس سدبھاﺅنا سکیم کے تحت قریب 43سکول قائم کئے گئے جن میں گزشتہ بائیس برسوں میں تقریبا ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد طلبہ تعلیم سے بہر ور ہوئے ہیں۔ تقریباً 14,500 طلباءاس وقت پرائمری، سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری سطحوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ معاشی طور پر کمزور طبقات کے تقریباً 1500 طلباءوظائف حاصل کر رہے ہیں اور تقریباً 1000 تدریسی اور غیر تدریسی عملہ مختلف گڈ ول سکولوں میں سرگرم ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر سپر 50کے تحت وادی سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو NEETاور JEEکےلئے تیاری کرنے میں مدد کی گئی اور یہ طلبہ امید افزاءکامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے ہی یہ بات واضح کی گئی کہ مرکزی سرکار نے سال 2008میں کشمیریت، انسانیت اور جمہویت کے تحت مرکزی سرکار نے جموںکشمیر کی ترقی یافتہ بنانے اور یہاں پر بنیادی ڈھانچہ کو بہتر بنانے کےلئے اقدامات اُٹھائے تھے ان اقدامات کو دفعہ 370کی منسوخی کے بعد مزید تقویت ملی اور اس کے بعد ملک کے دیگر ترقی یافتہ خطوں کے طرز پر یہاں پر تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع کیا گیا اور آتم نر بھر بھارت کے وژن کے تحت یہاں پر تعلیمی نظام کو بہتر بنایا گیا اور نوجوانوں کےلئے زیادہ سے زیادہ تعلیمی مواقعے پیدا کئے گئے ۔کشمیری نوجوان مسابقتی امحتانات جیسے AILET، یو پی ایس سی، نیٹ، NIFTاور دیگر شعبوں میں امتحانات میں امید افزائی نتائج لارہے ہیں جیسے کہ حال ہی میں NEETمیں کئی طلبہ نے کامیابی حاصل کرلی ہے جن میں جنوبی کشمیر کے اضلاع سے وابستہ نوجوانوں نے بھی میدان مار لیا ۔نہ صرف شعبہ تعلیم بلکہ کشمیری نوجوان قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلوں اور مستقبل کے دیگر شعبوں میں بھی اپنے قدم جما رہے ہیں۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سول انتظامیہ کی ذہنیت میں مثبت ترقی اور ذمہ داریوں کے بارے میں احساس کمٹمنٹ کے رویے میں تبدیلی نے کشمیر میں تعلیمی اور ہنر مندی کے معیار کو بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ 2008 سے نہ صرف سرکاری اداروں کے ذریعے بلکہ پرائیویٹ اداروں کے ذریعے بھی خاص طور پر کشمیر کے دور دراز علاقوں میں اسکولوں کو فعال کرنے اور تعلیمی اداروں کے انٹیک کے طول و عرض کو بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ سروے رپورٹ کے مطابق 2018-19میں اعلیٰ تعلیمی سطح پر جموں کشمیر کا مجموعی اندارج 42.4تھا اور سال 2020۔21میں یہ 50.1فیصدی تک پہنچ گیا ۔اسی طر ح سال 2020-21میں یہ 59.8ریکارڈ کیا گیا اور اس طرح سے دفعہ 370کی منسوخی کے بعد اس میں قریب 20فیصدی کااظہار ہوا ہے۔ اس طرح سے سرکاری سکولوں میں دور دراز علاقوں میںبچوں کے داخلہ کا تناسب 14.2تک بڑھ گیا ہے ۔ سروے رپورٹ کے مطابق 2019 سے پہلے جموں و کشمیر نیشنل اچیومنٹ سروے میں 17 ویں نمبر پر تھا2021-22 میں اسے قومی سطح پر 6 ویں پوزیشن پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اور عالمی وبائی بیماری کوروناوائرس کا دوسال تک اثر رہنے کے باوجود بھی جموں کشمیر میں شعبہ تعلیم نے حوصلہ افزاءکام کیا ہے ۔ اسی طرح 1.24 لاکھ لڑکوں اور لڑکیوں کو ابتدائی نوزائیدہ بچوں کی توجہ اور اصلاح کے لیے اندراج کیا گیا ہے۔ صرف گزشتہ دو سالوں میںدو ہزار کنڈر گارڈن ، 1420ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز اور28گرل ہوسٹلوں کا قیام عمل میں لایاگیا ہے جبکہ اس مدت میں 12ہزار سے زائد اساتذہ کو تربیت دی گئی ہے اور پانچ لاکھ سے زیادہ طلبہ کو ٹیلبٹس، روبوٹکس لیبارٹریز، ڈیجیٹل سکول رومزوغیرہ فراہم کئے جاچکے ہیں اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جموں کشمیر میںشعبہ تعلیم کی طرف مرکزی سرکار خصوصی توجہ دے رہی ہے اورجموں و کشمیر ایک قومی تعلیمی مرکز کے طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہے، جو نوجوانوں کو معاشرے کے تمام طبقات کو جامع ترقی کی طرف لے جانے کے لیے تعلیمی اور روزگار کے مواقع فراہم کرے گا۔ جو مذہبی بنیاد پرستی اور بنیاد پرستی کو ختم کرنے اور کشمیری عوام کے دل و دماغ میں آزادی کا حقیقی جذبہ پیدا کرنے میں معاونت کرے گا۔تعلیم تمام انسانوں کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔ تعلیم مثبت نقطہ نظر کے ساتھ مستقبل کے حصول اور انسان کو پر امید بنانے کی طاقت دیتی ہے۔ نوجوانوں کے مستقبل میں سرمایہ کاری کا یقین بلاشبہ کشمیر کے مثبت مستقبل کے لیے ایک امید ہے۔ وادی کشمیر میں دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی شعبہ کی طرف خصوصی توجہ دیجارہی ہے اور اس سلسلے میں کئی مراحل طے کئے جاچکے ہیں اور ابھی کچھ مراحل تکمیل کے قریب ہے ۔ مرکزی سرکار کی مسلسل کوششوں کی بدولت کشمیر نہ صرف امن و سلامتی کا خطہ بن رہا ہے جہاں پر تعمیر وترقی کا نیا دور شروع ہوچکا ہے بلکہ یہ خطہ تعلیمی لحاظ سے بھی جدید تعلیم کا گہوارہ بن رہا ہے جو تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔