کسی بھی قوم کو اگر تباہی کے دہانے پر پہنچانا ہوگا تو سب سے پہلے اس کی نوجوان نسل کو نشانہ بنایا جاتا ہے کیوں کہ نوجوان نسل سب سے پہلے کسی بھی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ان کو کسی بھی طرح استعمال کرنا سب سے آسان ہوتا ہے کیوں کہ ان کی کچی سوچ اور کم تجربہ کی وجہ سے وہ دوسروں کے ہاتھوں جلد ہی استعمال ہوتے ہیں جس طرح ہم کشمیر ی نوجوانوں کے بارے میں جانتے ہیں جس کو پاکستان نے وقت وقت پر اپنے حقیر مفادات کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کےلئے بار بار استعمال کیا ہے خاص کر انہیں مذہب کے نام پر ملک کے خلاف اُکسایا گیا ۔ اب اگر ہم وادی کشمیر میں عسکری دور کی بات کریں تو شروع سے ہی عسکریت پسندی کے دور نہیں کئی مراحل دیکھے ہیں ۔ 1980کی دہائی کے آکر میں وادی کشمیر میں عسکری دور شروع ہوا جو کہ پہلے تو آوارہ گردی سے شروع ہوا لیکن اس نے ایک نظریاتی تصور کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کیا جس کی وجہ سے 1993کے بعد بے شمار نوجوان عسکری صفوں میں شامل ہوئے جو نہ صرف وادی کشمیر بلکہ پورے خطے کےلئے ایک پریشان کن صورتحال پیدا ہوئی ۔ جموں کشمیر میں تعینات فوج نے صورتحال کو معمول پر لانے کےلئے بڑی کی حکمت عملی اور ہمدردانہ جذبے کے ساتھ کام کیا اور عسکریت کا وہ سخت دور دھیرے دھیرے کم ہوگا ۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندی نئے چہروں کے ساتھ سامنے آتی رہی اور ایک دور ایسا شروع ہوا جب عسکریت پسندی میں کم عمر لڑکے شامل ہوتے ہوئے دیکھے گئے جن کی عمر صرف 18سال سے کم تھی اور ان کی ہلاکت کا رجحان بھی کافی حد تک تشویشناک رہا کیوں کہ ایسے کم عمر لڑکے پاکستانی عزائم سے نابلد تھے ۔یہ ایک عجیب صورت حال ہے اور ایک بہت ہی انوکھی تبدیلی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی سطح پر کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ دہشت گردی کی حرکیات سے نابلد نوجوانوں کو اکسانا اور ان کی ترغیب دینا کسی جنگی جرم سے کم نہیں۔ایسے نوجوانوں کو ملک اور فوج کے خلاف اُکسایا گیا اور اس کےلئے پاکستان اور اسکی ایجنسیوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کیا ۔
چھوٹے لڑکوں یا کم عمر نوجوانوں کی طرف جنگجوﺅں گروپوں میں شمولیت کی اگر بات کریں تو یہ عسکری کارروائیوں میں سرگرم رہنے سے زیادہ سوشل میڈیا پر سرگرم رہنے کے رجحان کی طرف زیادہ رہا جس کی وجہ سے ایسے عسکریت پسندوں کو پوسٹر بوائز کے ناموں سے پُکارا جانا لگا ۔ جس سے سوشل میڈیا میں ہنگامہ برپا ہو گیااور سوشل میڈیا پر ایسے پوسٹربوائز کی تصاویراور ویڈیوز وائرل ہوتی گیں۔ لیکن ان پوسٹر بوائز کے قریب سے مطالعہ کرنے سے ایک الگ کہانی سامنے آئی۔ یہ ان کی تعلیم یا اس کی کمی نہیں تھی جس نے انہیں عسکریت پسندی کی طرف راغب کیا۔ فیصلہ کن عنصر ان کا خاندانی ماحول اور نظریاتی پس منظر تھا۔ نوجوانوں کے عسکریت پسندی کی طرف راغب ہونے کی سب سے بڑی وجہ گھر میں، معاشرے میں یا ہم عمر گروپ کے اندر تعلیم کا ماحول تھا۔ان پوسٹر بوائز میں جو زیادہ سوشل میڈیا پر مشہور ہوئے ان میں برہان وانی، ریاض نائیکو، ذاکر موسیٰ، ڈاکٹر سمیع اللہ اور بہت سے دوسرے عسکریت پسندتھے تاہم ان کی عسکریت پسندی میں جانے کی وجہ ان کے آس پاس کے ماحول یا گھریلوں ماحول بنا تھا۔اوریہ نوجوان گوریلا جنگجوو¿ں سے زیادہ سوشل میڈیا ٹائیگرز تھے۔ سوشل میڈیا نے عسکریت پسندوں کی اس نسل کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ گھر میں عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کے خیالات کو رومانوی کرنے کی چمک میں پھنسانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے ایسے نافہم نوجوانوں کو عسکریت پسندی میں شامل ہونے میں ایک اہم کردار اداکیا تھا ۔
جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ 90کی دہائی میں شروع ہونے والی مسلح شورش نے 2000تک کائی ادوار دیکھے اور کئی مراحل سے گزر گئی اسی طرح سال 2021سے ایک اور رجحان سامنے آیا جس کو ہائبرڈ کا نام دیا گیا ۔اس طرح سے نوجوانوں کے ذہنوں کے ساتھ کھیلنے کے آن لائن رجحان نے عسکریت پسندوں کی ایک نئی نسل کو جنم دیا جسے ہائبرڈ دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ عسکریت پسندی کی توجہ اب ہائبرڈ عسکریت پسندوں کے ذریعے نرم اہداف کو مار کر خلل پیدا کرنے کی طرف زیادہ ہے۔ ہائبرڈ عسکریت پسند ایک نئی نسل ہیں اور نوجوان ذہنوں سے کھیل کران کو عسکریت پسندی کی طرف مائل کرنا ہے یہ کلاسیکل آپریٹنگ عسکریت پسند نہیں ہیں بلکہ سیکورٹی فورسز کے لیے پوشیدہ ہونے کے فلسفے کے تحت کام کرتے ہیں۔ وہ روزانہ کی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں، مقامی لوگوں اور دوستوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں اور خفیہ ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ بنیادی کام جو انہیں انجام دینے کے لیے کہا جاتا ہے وہ ہے سافٹ ٹارگٹ اور ٹارگٹ کلنگ کی تلاش۔ اس کے بعد مشن کی تکمیل کے بعد عسکریت پسندوں کی ان ہائبرڈ کیٹیگریز کے ذریعے معمول کی زندگی دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔ سیکورٹی فورسز کو ان عسکریت پسندوں کی شناخت، تصدیق اور مزید اندیشے کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے جن کا ریکارڈ صاف ہے اور وہ تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ حکمت عملی سے کام کر رہے ہیں۔اس طرح سے وادی کشمیر میں ملٹنسی کا ایک اور دور شروع کیا گیا البتہ یہ زیادہ سرگرم نہ ہونے سے حالات پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتا اور ناہی یہ فوج اور جنگجوﺅں کے مابین دوبدولڑائی کا باعث بن رہا ہے البتہ یہ سلسلہ پریشان کن ضرور ہے ۔
جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ پاکستان اور اس کی خفیہ ایجنسیاں کشمیری نوجوانوںکو اُکسانے کےلئے مختلف طریقے سے سوشل میڈیا کااستعمال کرکے نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ پاکستان اپنے مفادات کے لیے کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی طرف راغب کر رہا ہے۔ یہ دہشت گردی کی حکمت عملی نوجوانوں کی طرف جھکاو¿ رکھتی ہے کیونکہ وہ ناپختہ ذہن کے ہوتے ہیں۔ انہیں آسانی سے پھنسایا جاتا ہے اور پاکستان کی طرف سے محض آن لائن معلومات اور غلط اور منفی پروپیگنڈے کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔ سماجی اقتصادی پریشانی کو نوجوانوں کو تباہی کی طرف دھکیلنے کے ایک اور بڑے عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ منشیات کا استعمال آسان ہتھیار ہے۔پاکستان ایک طرف ملٹنسی کو بڑھانے کےلئے مختلف طریقے آزمارہا ہے تو دوسری طرف یہاں کے نوجوانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کےلئے منشیات کی طرف دھکیل رہا ہے اور اس وقت منشیات کے عادی افراد میں نوجوانوں کا تناسب نمایاں ہے۔ عسکریت پسندی میں ملوث نوجوانوں کے پروفائل کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اب زیادہ تر نوجوان ملٹنسی میں دلچسپی نہیں رکھتے اسلئے پاکستان نے یہاں کے نوجوانوںکو منشیات کی سمگلنگ کی طرف راغب کررہا ہے کیوں کہ منشیات ایک ایسا حربہ ہے جس سے نسلوں کی نسلیں تباہ ہوسکتی ہے ۔
نوجوانوں کی تباہی کےلئے اگر ہم آج کل کے سمارٹ فون کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے تو بیجا نہ ہوگا کیوں کہ سمارٹ فون ایک ایسی چیز ہے جو آج کل ہر کسی کی ضرورت بن چکی ہے تاہم نوجوان اس کی تباہ کاریوں سے بچ نہیں پاتے ہیں اگر والدین ان پر صحیح نگرانی نہ کریں تو سمارٹ فونوں سے بچے کافی بگڑ جاتے ہیں بچوں کی طرف سے سمارٹ فونز کا استعمال اور والدین کی طرف سے کسی قسم کی نگرانی کا فقدان ان بچوں کو آن لائن دہشت گردوں کے لیے آسان شکار بنا دیتا ہے۔ پولیس نے والدین کی طرف سے بغیر کسی نگرانی کے بچوں کی جانب سے سمارٹ فون کے بے تحاشہ استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ والدین اپنے بچوں کے بدلتے ہوئے رویے سے لاعلمی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ بہت سے بے راہرو نوجوان مجرمانہ کارروائیوں کے لیے سمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں۔ سمارٹ فون کلچر نوعمروں کے ذہنوں کی تشکیل میں ایک اہم عنصر کے طور پر ابھرا ہے۔ کوویڈ کی وجہ سے، پچھلے دو سالوں میں اسکول چھوڑنے کا تناسب بہت زیادہ رہا ہے۔ کشمیر کے مختلف اضلاع میں اساتذہ اور والدین کے ساتھ بات چیت میں یہ بات سامنے آئی ہے، حالانکہ محکمہ اسکول نے ایسا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کیا ہے۔تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ کووڈ کے بعد سے بہت سے نوجوان سکول سے دوری اختیار کرچکے ہیں ۔ اور مشاہدے میں آیا ہے کہ سکول چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ موبائل فون کا زیادہ استعمال اور اس کی لت ہے ۔ سکول چھوڑنے والوں کی عمر 14سے 18برس تک کے بچے ہیں جو سمارٹ فون کے کثرت سے استعمال کی وجہ سے اس کے عادی اس قدر بن چکے ہیں کہ وہ ایک گھنٹہ بھی موبائل کو اپنے ہاتھوں سے دور نہیں رکھ سکتے ہیں اور جب وہ موبائل کے بغیر رہتے ہیںتو ان کا لہجہ تلخ اور چڑچڑا بن جاتا ہے ۔
نوجوانوں کی طرف سے زیادہ موبائل کے استعمال سے ان میں عسکریت پسندی کی طرف مائل کرتا ہے اور پولیس اور دیگر حفاظتی ایجنسیوں کےلئے ان پر نظر رکھنا اور ان کی نشاندہی کرنا ناممکن بن جاتا ہے کیوں کہ وہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمیں ملوث ہونے کا ریکارڈ نہیں رکھتے اور پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں زیادہ ترایسے افراد پر نظر رکھتی ہے جن کے خلاف پولیس سٹیشنوں میں ریکارڈ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایسے نوجوان پولیس اور فوج کی نظروںسے بچے رہتے ہیں اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے ہینڈلرز سے آسانی سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور یہ امرکافی مشکل ہوتا ہے ۔ کیوں کہ مزید افراتفری پھیلانے اور سیکورٹی فورسز کے لیے مختلف چیلنجز پیدا کرنے کے لیے عسکریت پسندی کی اس نئی نسل کی شمولیت کے بعد اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خاموش نسل نظر نہ آنے اورغیر منظم طریقے سے کام کرتی ہے اور اس طرح سیکورٹی فورسز کے ذہن میں ہمیشہ یہ سوال رہتا ہے کہ خفیہ حملے کے واقعات کب، کیسے، کہاں اور کس پر ہوں گے۔ اس لئے یہ سیکورٹی فورسز کےلئے کسی چلینج سے کم نہیں ہوتا۔آج کل کے اس انٹرنیٹ کے دور میں نوجوانوں کو کسی معاملے میںملوث کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے اسلئے اس معاملے میں جہاں سیکورٹی فورسز اور پولیس کاکام ہے کہ آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں وہیںوالدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی حرکات وسکنات پر کڑی نظررکھیںخاص کر موبائل کے استعمال کے دوران وہ کس کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیںاور کیا سرگرمی کرتے ہیں ۔سیکورٹی فورسز کے فعال اقدامات یقینی طور پر علاقوں میں رونما ہونے والی مختلف نوعیت کی تبدیلیوں پر نظر رکھنے میں کافی حد تک مددگار ثابت ہوں گے۔ یہ اقدامات ان کے ارد گرد ہونے والی کسی بھی چیز کے بارے میں مقامی لوگوں سے حقیقی رائے جمع کرنے میں مدد کریں گے جس کے نتیجے میں انہیں بغیر کسی تاخیر کے مناسب اقدامات کرنے میں مدد ملے گی۔اس کے علاوہ نئی نسل کے نوجوانوں کی صحیح تربیت اور انہیں زیادہ سے زیادہ جسمانی سرگرمیوںجیسے کھیل کود سیر و تفریح اور انہیں منشیات سے دور رکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر اس انٹرنیٹ کے دورمیں نوجوانوں کی طرف توجہ نہ دی گئی تو ملک اور قوم دشمن عناصر ان معصوم ذہنوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کےلئے آسانی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں۔