دنیا کے بہت سے ممالک میں پہاڑی سلسلے موجود ہیں جو ایڈونچرس کے شوقین افراد کو ان کی من پسند جگہ فراہم کرتے ہیں ان ہی خطوں میں سے ایک وادی کشمیر بھی ہے جو ہمالیائی پہاڑی سلسلے میں چاروں طرف گھری ہوئی ہے اور ایڈونچررس کے شوپین افراد کےلئے یہ ایک انوکھی اور دلچسپ جگہ ہے ۔ وادی کشمیر پورے برصغیر میں واحد وہ جگہ ہے جہاں پر ہر طرف آسمان سے باتے کرتے پہاڑ دکھائی دے رہے ہیں۔ وادی میں ٹریکنگ کےلئے کئی جگہیں موجود ہیں جن کے بارے میں شائد ہی دنیا پوری طرح سے واقف ہیں ۔ وادی کشمیر کے ارد گرد پہاڑی سلسلہ کے بیچ جھیلیں نظر آتی ہیں جو یہاں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے ایک طرف اگر یہ جھیلیں کو کو جنت نما خطا بناتی ہیں تو دوسری طرف ٹریکنگ کے شوقین کےلئے یہ ایک انمول خزانہ جیسے ہیں کیوں کہ ان جھیلوں کے کناروں پر ٹریکنگ کے دوران روح کو سکون ملتا ہے جو وادی کو صوفیانہ طرز کی سرزمین بناتی ہے ۔ ان ٹریکوں کے درمیان ایسی جگہیں بھی ملتی ہیں جو حقیقی معنوں میں قدرتی خوبصورتی کی تصویر پیش کرتی ہے ۔ ان قدرتی آبی جھیلوں میں شہر آفاق جھیل ڈل سے اگر ہم شروع کریں تو اس کے علاوہ ستی سر، گنگ بل ، ناراناگ کے علاوہ گڑسر قابل ذکر ہیںجو 13,750فٹ کی اونچائی پر واقع ہے ۔ ان سبھی جگہوں کی ٹریکنگ کو ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت لگتا ہے تاہم اگر موسمی صورتحال ناموافق رہتی ہے تو اس میں نو دن سے بارہ دن بھی لگتے ہیں۔ اس ٹریک پر جانے والوں میں قوت برداشت اور جسمانی ہمت کی ضرورت ہونی چاہئے تبھی جاکر ان جگہوں پر پہنچ کر انسان روحانی سکون حاصل کرسکتا ہے ۔ اسی طرح ایک اور جگہ تار سر مار سر ہے اور یہ جگہ بھی ٹریک کے شوقین رکھنے والے افراد کےلئے بے حد پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے ۔ تار سر مار سے ایک پہاڑی سلسلہ سے ہوتا ہوا جاتا ہے جس میں سرسبز شاداب میدان اور کئی جگہوں پر چھوٹے آبشار نما جھیلیں دیکھنے کو ملتی ہیںجو اس راستے پر چلنے والوں کو ایک عجیب سکون مئیسر کرتا ہے ۔ تار سر مار سر سطح سمندر سے 13500فٹ کی اونچائی پر واقع ہے ۔وادی کشمیر کے دیگر علاقوں کی طرح ہی تار سر مار سر بھی اگرچہ بالائی جگہ پر موجود ہے تاہم یہ ٹریک آسان ہے اور کوئی بھی اس کو آسانی کے ساتھ سر کرسکتا ہے البتہ اس ٹرک میں سات دن لگتے ہیں۔اسی طرح وسطی کشمیر میں ایک اور جگہ جو کہ پہاڑی علاقہ سے ہوتا ہوا جاتا ہے ناراناگ ہے یہ ضلع گاندربل کے کنگن قصبہ میں واقع ہے اور سرینگر لہہ شاہراہ کے راستے میں ہی ایک اور راستہ اس طرف جاتا ہے ۔ اسی ضلع میں ایک اور نارنگ محلش ٹریک ہے جس میں گنگ بل جھیل اور نند کوہل بھی شامل ہے اور یہ سال کے ہر موسم میں کھلے رہتے ہیں کیوں کہ یہ وسطی ضلع میں ہونے کی وجہ سے سرینگر سے کم ہی فاصلے پر واقع ہے اور اس جگہ اتنی بھی برفباری نہیں ہوتی کہ اس راستے چلنا دشوار بن جائے البتہ منسلک پہاڑوں پر خاصی برف باری ہوتی ہے جس کا پانی بارہ برس نیچے کی نہروں اور جھیلوں کو سیراب کرتا ہے ۔ یہ ٹریک دیودار کے جنگلات سے گزرتا ہوا جارہا ہے جو کہ ایک پگڈنڈی ہے اور یہ ٹریک ناراناگ، گنگ بل تک رہنمائی کرتی ہے ۔ یہ سطح سمندر سے بارہ ہزار فٹ سے زائد کی اونچائی پر واقع ہے ۔ اس طرح اگر ہم جنوبی کشمیر کے ٹریکنگ کےلئے موزون جگہوں کی تو ان میں کوہلائی گلیشیر جو کہ نالہ لدر اور دریائے جہلم کا اصل موجد ہے یہی سے دریائے جہلم کی اصل شروعات ہوتی ہے ۔ اس جگہ کو قدرت کی روشنی بھی کہا جاتا ہے یہ تاریخی وادی ندیوں ، جنگلات، جھیلوں اور لدر نالہ کے کنارے ہوتے ہوئے آخر پر گلیشیر کے ساتھ ملتا ہے اور آخر پر اس کی اونچائی سطح سمندر سے 12ہزار 600فٹ سے زائدہ ہے اس ٹریک کو سر کرنے کےلئے پانچ دن سے زیادہ لگتے ہیں تاہم اگر موسم بہتر رہتا ہے تو اس ٹریک پر سفر کرنا زیادہ دشوار بھی نہیں ہے البتہ یہ کئی خطروں سے پُر ہے یہاں پر برفانی طوفان کا زیادہ خطرہ رہتا ہے ۔ تاہم یہ جگہ حقیقی معنوں میں ایک طلسماتی دنیا کا تصور پیش کرتی ہے جہاں پر انسان تصوراتی دنیا میں کھو جاتا ہے ۔ جیسا کہ کئی اہم شخصیات نے وادی کشمیر کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ زمین پر جنت ہے اس تناظر میں مشہور شاعر امیر خسرو نے کا ایک مشہور شعر”گر فردوسِ بریں بہ روئے زمیں است، ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است“یعنی اگر زمین پر کہیں پر جنت ہے تو وہ یہی ہے یہی ہے یہی ہے ۔