تین دہائی قبل وادی کشمیر میں شورش بپا ہوئی جو قریب قریب تیس برسوں تک جاری رہی اور اس مدت میں عسکریت تنظیموں کی سرگرمیاںمختلف مراحل کے تحت جاری رہیں ۔ تیس برسوں سے یہ تنظیمیں نظریاتی طور پر کشمیری نوجوانوں کو اپنے جھانسے میں لاکر ملیٹنٹ تنظیموں میں بھرتی کرتی آرہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں سرگرم ملیٹنٹوں کو یہ تنظیمیں اسلحہ اور فنڈس بھی مہیا کرتی رہی ہیں۔ ان تنظیموں میں لشکر طیبہ، ایچ ایم ، ٹی آر ایف کے علاوہ جیش محمد اور تحریک المجاہدین وغیرہ تنظیمیں شامل ہیں جنہوں نے قریب تین دہائیوں تک جموں کشمیر میں حالات بگاڑنے میں رول اداکیا ہے ۔ پاکستانی سرزمین سے چلائی جارہی یہ تنظیمیں سپانسر ایجنسیوں کی طرح کام کرتی رہی ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان تنظیموں کو چلانے میں تبدیلی آتی رہی ہے اور وادی کشمیر میں ”دہشت گردی “ کو برقرار رکھنے میں ان تنظیموں نے بھی اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لائی ہے خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر ان تنظیموں نے وادی میں ملٹنسی کو زندہ رکھنے کی سعی کی ہے ۔اگرچہ اسلحہ اور رقومات کی فراہمی پیچیدہ ہوئی اور سرحدوں پر اسلحہ کی سمگلنگ اور دراندازی اب قریب قریب ختم ہوچکی ہے تاہم ان تنظیموں نے بھی جدید ذرائع اپنانے شروع کئے ہیں ۔ تاہم عسکریت کے اس نیٹ ورکر کو پوری طرح سے ختم کرنے اور بے اثر کرنے میں سب سے اہم عنصر رقومات کی فراہمی ہے اور اگر اس پر مکمل طور پر پابندی لگ جائے گی تو اس کے بغیر وادی میں ”دہشت گردی“ برقرار رکھنا ان کےلئے ناممکن ہوجائے گا۔
پاکستان میں مقیم ایجنسیاں اور دیگر لوگ جن میں این جی اوز اور دیگر تنظیمیں جو کشمیر کاز کی حمایت کرتے ہیں اسلحہ کی فراہمی ، نئی بھرتی اور فنڈس کی منتقلی ان کےلئے بہت بڑا مسئلہ ہے جس کےلئے انہوں نے جدید ٹیکنالوجی جیسے آن لائن فنڈنگ کا سہارا لینا شروع کردیا ہے ۔اسلحہ اور فنڈنگ کی سپلائی کو برقرار رکھنے، لاجسٹکس کا سلسلہ جاری ممکنہ بھرتیوں کی نشاندہی کرنے والے ‘ڈارک ویب’ کے ماسٹرز کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے مسلسل مالی امداد فراہم کر رہے ہیںاسکے لئے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان تک پہنچنے میں کبھی کبھی سیکورٹی ایجنسیوں کےلئے دشوار بن جاتا ہے ۔ ایسے ذرائع کو چنا جاتا ہے جس طرف خاص توجہ نہیں جاتی جیسے کہ یتیم خانے ،خیراتی ادارے اور این جی اوز کے ذریعہ یا کاروباری افراد کے ذریعہ فنڈنگ کے کام کو انجام دیا جاتا ہے ۔ تاہم رقم کی منتقلی کے روایتی طریقے، جعلی کرنسی اور ہارڈ کیش وغیرہ کی نقل و حرکت میں کافی کمی آئی ہے۔ البتہ باقاعدہ بینکنگ سسٹم کے ذریعے تھوڑی مقدار میں منتقلی جو الرٹ بنانے کی حد سے تجاوز نہیں کرتی ہے ان کی شناخت اور ٹریک کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ معمول کے لین دین معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ مشکل وہ ٹرانزیکشنز ہیں جو کسی رسمی مالیاتی ضابطے کی پیروی نہیں کرتے ہیں اور ان کا پتہ لگانا عملی طور پر مشکل ہوتا ہے جب تک کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں پوری طرح سے اس میں نظر گزر نہ رکھ سکیں۔آن لائن لین دین کے علاوہ ایک موثر طریقہ منشیات اور سونے کی سمگلنگ ہے اور یہ وادی میں سرگرم دہشت گردوں کو متحرک رکھنے کےلئے مالی معاونت کے طور پر کام کرتا ہے ۔پاکستان میں مقیم لیڈران کی ہدایت پر منشیات کی رقم مختلف او جی ڈبلیو ماڈیولز میں تقسیم کردی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر آن لائن ذرائع جیسے کرپٹو کرنسیاں جیسے بٹ کوائن آخری صارف کو رقم کی منتقلی کا ترجیحی طریقہ بن رہی ہیں۔ ان کرنسیوں کے غیر قانونی استعمال کو روکنے کے لیے نہ ہونے کے برابر قوانین کی وجہ سے دہشت گرد تنظیم کے لیے بغیر کسی خوف کے اس طریقے کو تلاش کرنا آسان ہو رہا ہے۔ آن لائن فنڈنگ کے طریقہ کار میں بھی اب تدیلی لائی گئی ہے ۔ ایک ساتھ بھاری رقم کی منتقلی کے بجائے تھوڑی تھوڑی رقم کا لین دین جاری رکھا جاتا ہے جس کی طرف کوئی شک کی گنجائش نہیں رہتی ہے ۔
پاکستان اوراس کی ایجنسیاں مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر زندہ رکھنے کےلئے وادی میں ملٹنسی کو فروغ دے رہا ہے البتہ مرکزی سرکار کی جانب سے ٹرر فنڈنگ کے خاتمہ کےلئے ٹھوس اقدامات اُٹھائے جاچکے ہیںجس کے تحت 2019میں این آئی اے ، ایس آئی اے ،سی بی آئی اور دیگر ایجنسیوں کو کام پر لگایا جاچکا ہے اور اب تک ان کی متعدد کارروئیوں میں درجنوں افراد کے خلاف کیس درج کئے جاچکے ہیں۔ تب سے لے کر اب تک این آئی اے نے دہشت گردی کے نیٹ ورک میں ملوث تمام لوگوں کی مالی اعانت کے نیٹ ورکس اور اٹیچ کی جائیدادوں کو نیچے لاتے ہوئے کئی چھاپے مارے ہیں۔اس سلسلے میں این آئی اے اور ایس آئی اے کی جانب سے سرینگر میں متعدد افراد کے خلاف کارروائی کرکے ان کی جائیدادیں قرق کی جاچکی ہیںجن میں خاص طورپر سرکردہ اعلیٰحدگی پسند لیڈر شبیر احمد شاہ کی جائیداد کو بھی ایس آئی اے نے قرق کرلیا ہے ۔ یہ حکومت کے فعال اقدامات ہیں اور ان نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے نئے اور بہتر طریقوں کے ساتھ مسلسل دباو¿ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ٹرر فنڈنگ کے سلسلے میں حالیہ دنوں وزارتی کانفرنس میں وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ٹرر فنڈنگ کی نئی شکل آن لائن منتقلی اب ایک نیا چلینج بن کر سامنے آرہی ہے البتہ سرکار اس سے نمٹنے کےلئے ہر ممکن اقدام اُٹھارہی ہے ۔
مالیاتی اداروں کو بھی سرکاری گائیڈ لائنوں کے تحت اپنے گراہکوں سے متعلق جانکاری رکھنی چاہئے اور کسی بھی مشکوک کھاتے سے متعلق سرکاری ایجنسیوں کو مطلع کرنا چاہئے ۔بینکوں کو ان افراد کی معلومات فراہم کرنی چاہئیں جنہوں نے یکمشت قرضوں کی ادائیگی کی ہے خاص طور پر نقد رقم میں یا ایسے افراد جنہوں نے اکاو¿نٹ میں نقد رقم جمع کرائی ہے جس کا ذریعہ کا کوئی پتہ نہیں ہے یا اس کی آمدنی کے مطابق نہیں ہے۔ جائیداد کی نقد رقم یا بینک قرض کے ذریعے خریداری اور فوری ادائیگی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نوٹس میں لائی جائے۔
اس کے علاوہ کرپٹو کرنسی کے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت قوانین کو ترجیحی بنیادوں پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ وادی میں سرگرم او جی ڈبلیو ز اور سرگرم ملیٹنٹوں کی نقل و حرکت پر اگرچہ سیکورٹی فورسز کی کڑی نظر ہے تاہم ٹرر فنڈننگ کے لئے استعمال میںلائے جانے والے اداروں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اس کےلئے جہاں سرکار کام کررہی ہے وہیںعام لوگوںکی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کے حوالے سے حساس رہیں اور متعلقہ اداروں کوکسی بھی مشکوک سرگرمی سے متعلق جانکاری دے ۔