جنت بے نظیر وادی کشمیر اس روئے زمین پر جنت نماءایک خطہ ہے جس کو قدرت نے اپنی بے پناہ خوبصورتی سے نوازا ہے اور بے شمار انمول نعمتوں سے مالا مال کیاہے ۔ یہاں کے آبشار، بے شمار اقسام کے پھول ،لذیز میوہ جات ، بہتے دریاءجھرنے اور ندیاں ، سبز اور نیلا پانی ، آسمان سے باتیں کرتے پہاڑ اور سفید چادر جیسی برف ، یہاںپر چرند وپرند وں کی بولیاں قدرت کے اس خزانے کو اور بھی انمول بنادیتے ہیں۔ یہ خطہ حقیت میں ایک طلسماتی حسن سے بھرا پڑا ہے اور شائد ہی اس روئے زمین پر کوئی ایسا دوسرا خطہ ہو جیسے کہ معروف شاعر امیر خسرو نے کشمیر کے بارے میںبتایا ہے ”اگر فردوس بر روئے زمیں است ،ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است “یعنی اگر زمین پر کہیں جنت ہے یہی ہے یہی ہے یہی ہے ۔جیسے کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ وادی کشمیر میں کس طرح کے حالات تھے جن کی وجہ سے یہاںپرسب سے زیادہ نقصان سیاحتی سیکٹر کواُٹھانا پڑا تھا تاہم سرکار کی کاوشوں سے اب حالات بالکل مختلف ہے اور امن کی فضا قائم ہوئی ہے خاصکر گزشتہ چند سالوں میںتمام شعبوں میں ترقی نے مقامی لوگوں میںایک نیا اعتماد اور امید کی کرن دی ہے۔سیاحت میں فروغ کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات بھی بہتر ہورہی ہے جیسے کہ دیہی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر و تجدید ،بجلی کی سپلائی میں معقولیت، موبائل کنکٹوٹی کے علاوہ اہم شاہراہوںکو بہتر بنایاگیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مقامی لوگوں کو راحت پہنچی ہے بلکہ سیاحتی کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔
جہاں وادی کشمیر میں دیگر شعبہ جات کو فروغ مل رہا ہے وہی تعلیم و طبی شعبہ میں بھی کافی بہتری لائی گئی ہے ۔نوجوانوں خصوصاً خواتین کو بااختیار بنانے اور انہیں تعلیم دینے سے معاشرے کے بنیادی طبقے کی رکاوٹیں دور ہوئی ہیں ۔اب سکول و کالج بلا رُکاوٹ چلائے جارہے ہیں جہاں پر بچے لڑکے لڑکیاں تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ اسی طرح تجارت بھی فروغ پارہا ہے اور سرکاری سکیموں کا اطلاق زمینی سطح پر ہورہا ہے ۔ اسٹارٹ اپس میں نوجوانوں کی شمولیت اور روزگار کے مواقعے پیدا کرنا حالات کی بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ اگر ہم بات کریں سیاحت کی تو سیاحت کی طرف سرکار نے خصوصی توجہ مرکوز کی کیوں کہ جموںکشمیر میں سیاحت سب سے بڑی صنعت ہے جس سے یہاں پر لاکھوں افراد منسلک ہے ۔ گزشتہ سال سیاحت نے ریکارڈ توڑ دیا اور لاکھوں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں نے جموں کشمیر کی سیر کی ۔سرکاری اعدادشمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں ڈھیڑ کروڑ سے زائد سیاحوں نے وادی کا رُخ کیا ۔
سیاحت سے جہاں وادی کشمیر کے متعدد سیاحتی مقامات میں سیاحتی سرگرمیاں بڑھ گئیں وہی سرینگر جو کہ وادی کشمیر کا دارالخلافہ ہے میں بھی تجارتی سرگرمیاں عروج پکڑ گیں ۔ جھیل ڈل میں گزشتہ موسم گرماءمیںبے شمار شکارے پانی پر تیرتے دکھائی دے رہے تھے جبکہ شنکر آچاریہ کی پہاڑی پر بے شمار ٹورسٹوں نے سرینگر کا نظارہ دیکھ لیا ۔ سرینگر شہر معاشی لحاظ سے وادی کا تاج ہے اور اس کو عرف عام میںشہر کا قلب بھی کہا جاتا ہے ۔ سرینگر شہر پہاڑیوں کے دامن میں بسا ایک شہر ہے جہاں پر وادی کشمیر کی ثقافتی ورثے کی مثال ملتی ہے ۔ یہاں پر کئی طرح کے پکوان ہوٹلوں اور ریستورانوں پر دستیاب ہے جن میں کشمیری روایتی پکوان بھی شامل ہے جو سیاحوں کی پہلی پسند ہوتی ہے ۔
شہر سرینگر کے علاوہ وادی کشمیر کے دیگر سیاحتی مقامات جن میں گلمرگ جو پوری دنیا میں مشہور ہے خاص کرموسم سرماءمیں یہ مقام ٹورسٹوں سے کھچا کھچ بھرا رہتا ہے ۔ گلمرگ ایک سنو سیکنگ سپارٹ کے نام سے بھی مشہور ہے جہاں پر گزشتہ کئی برسوں سے سنو فیسٹول اور سنو گیمز بھی منعقد کی جارہی ہیں اور حال ہی میں ”کھیلو انڈیا“تھری کے حوالے سے دو روزہ پروگرام بھی منعقد ہوا ۔ گلمرگ کی اگر بات کریں تو یہ ایک ہرا بھرا میدان ہے جس کے ارد گرد پہاڑی سلسلہ بھی ہے جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے ۔ پہاڑیوں کے بیچ میں گنڈولا کار کیبل چلائی جاتی ہے جس پر سفر کے دوران جادوائی دنیا کا تصور ہوتا ہے ۔ برف پوش ڈھلوانوں کے ساتھ موسم سرما کے کھیلوں کی بہترین سہولیات جیسے سکینگ، سنو بورڈنگ، ہیلی سکینگ اور ٹوبوگننگ کے شوقین مہم جوئیوں کے لیے یہ جگہ سردیوں میں دیکھنے کے لیے بہترین ہے۔ برف پوش چوٹیوں اور ہرے بھرے میدانوں کے چشموں میں جس میں طرح طرح کے پھول کھلتے ہیں گلمرگ واقعی میں قدرت کاایک انمول تحفہ ہے جو کشمیر کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتا ہے ۔
اسی طرح اگر ہم بات کریں سونہ مرگ کی یہ وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل میں واقع ایک پہاڑی علاقہ ہے جو کنگن اور لہہ شاہراہ کے درمیان موجود ہے جیسا کہ اس اس کے نام سے پتہ چلتا ہے کہ سونہ مرگ اس کے پہاڑوں پرسورج کی کرنیںجب پڑتی ہیں تو یہ وادی سنہرے چمک کے ساتھ کھل اُٹھتی ہے ۔ یہ جگہ جھرنے اور ندیوں کے بیچ ہے اور اسی جگہ سے دریائے سندھ کی شروعات ہوتی ہے اس کی ندی کا پانی سبز دکھائی دیتا ہے جس میں مشہور ٹروٹ مچھلیاں بھی کثرت سے پائی جاتی ہے اور مچھلی کا شکار کرنے والے شوقین دور دور سے یہاں آکر اپنا شوق پورا کرتے ہیں ۔یہ جگہ خاص طور پر ٹریکنگ کےلئے ایک موزون جگہ ہے جبکہ یہاں پر سبزہ زاروں کی بھی بھرمار ہے ۔ سونہ مرگ کے راستے سی ہی امرناتھ سالانہ یاترا بھی جاتی ہے اور یہ جگہ بیس کیمپ کےلئے مختص رہتی ہے ۔
وادی کشمیر میں قریب 30برس تک ایسے حالات رہے جس میں سیاحتی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا اور سیاح بہت ہی قلیل تعداد میں وادی کی طرف آتے تھے لیکن اب جبکہ حالات پھر سے معمول پر آگئے ہیں اور سیاحوں کی بڑی تعداد وادی کی سیر پر آتے ہیں۔ گزشتہ برس سیاحوں کی ریکارڈ تعداد دیکھی گئی ہے ۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سال 2022میں 1.62کروڑ سے زیادہ سیاحوں نے وادی کی سیر کی جو گزشتہ 75برسوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے ۔ وادی کے تمام سیاحتی مقامات جن میں پہلگام ، گلمرگ، ، سونہ مرگ، دودھ پتھری جیسے مشہور علاقوں میں تمام ہوٹلوں میں پیش گی بُکنگ تھی ۔ سرینگر اور جموں سے براہ راست ملکی اور بین الاقوامی پروازوں کی تعداد میں اضافے سے سیاحت کے شعبے کو زبردست فروغ ملا ہے۔ سرینگر اور جموں دونوںہوائی اڈوں سے رات کی پروازیں شروع کرنے سے بھی سیاحت میں اضافہ ہوا ہے۔ فضائی رابطے میں زبردست ترقی نے کشمیر کو تقریباً پورے سال کے لیے مسافروں کے لیے قابل رسائی بنا دیا ہے۔ملک کے میٹرو شہروں جیسے دلی، ممبئی، کولکتہ، چندی گڑھ ، امرتسر ، بنگلور سے براہ راست پروازوں نے بھی سیاحت کے فروغ میں مدد دی جس کے نتیجے میں سیاحوں کی ایک خاصی تعداد وادی پہنچ رہی ہیں۔
اب اگر ہم بات کریں وادی کشمیر میں فلموں کی عکس بندی کی تو وادی کشمیر تیس برس پہلے فلم انڈسٹری کی پہلی پسند یدہ جگہ تھی جہاں پر فلموں کی شوٹنگ ہوا کرتی تھیں لیکن مخدوش حالات کے سبب فلم نگری والے بھی یہاںآنے سے کتراتے تھے لیکن اب ایک مرتبہ پھر وہ اس طرف راغب ہورہے ہیں۔ 2021 میں جموں و کشمیر میں متحرک فلم ایکو سسٹم کی ترقی اور فلم سازوں کو شوٹنگ کے لیے راغب کرنے کے لیے 500 کروڑ روپے کی ابتدائی الاٹمنٹ کے ساتھ ایک جامع فلم پالیسی کا آغاز کیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے ایک سال کے اندر، فلموں اور ویب سیریز کے لیے 140 کے قریب شوٹنگ کے اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں۔ سڑک اورہوا ئی سفر میں بہتری اورسرکاری محکموں کی طرف سے بہتر سہولیات کی فراہمی کے ساتھ وادی کشمیر میں فلموں کی شوٹنگ کا دوبارہ آغاز ہو گیا ہے جہاں شوٹنگ کے مختلف مقامات دستیاب ہیں۔گزشتہ دو برسوںمیں اگر ہم فلموںکی شوٹنگ کی بات کریںتو اس عرصے میں متعدد فلموں کو یہاں پر فلمایا گیا ہے ۔ وادی کشمیر اب پھر سے فلم انڈسٹری کےلئے دلچسپی کی جگہ بن گئی ہے ۔اس کے ساتھ ہی تیس برس بعد سرینگر کے سونہ وار میں ملٹی پلیکس سنیما گھرکا افتتاح کیا گیا جس سے یہاں کے لوگوں میں اعتماد کی بحالی میں مدد ملی ہے ۔
یہاں پر حالات کی مخدوشی کے سبب بڑی تعداد میں نوجوان بے روزگار رہے ہیں جن کا استعمال سماج دشمن عناصر نے آسانی کے ساتھ کیا اور ان کو ملک مخالف سرگرمیوںمیں ملوث کرتے رہے جس کی وجہ سے ان نوجوانوںکا مستقبل بھی مخدوش بنتا رہا ۔ تاہم مرکزی سرکار کے ایک اہم فیصلے کے تحت دفعہ 370کی منسوخی عمل میں لائی گئی جس کے نتیجے میں حالات یکسر بدل گئے ۔ اس کے بعد جہاںترقیاتی منظر نامہ تبدیل ہوا وہی نوجوانوں کےلئے روزگار کے متعدد وسائل بھی پیدا ہوئے اور پتھر بازی ماضی کی بات بن گئی ۔ آج وادی میں نوجوان معیشت کی مضبوط ریڑھ کی ہڈی ہیں اور ریاست کی ترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔ ٹریڈ مین شپ، انٹرپرینیورشپ جیسی جدید ترین مہارتوں کی تربیت اور مقامی نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے حوصلہ افزائی کے ساتھ خطے میں اعلیٰ روزگار کی شرح دیکھی جا رہی ہے اس طرح ناخواندگی، بے روزگاری اور عسکریت پسندی میں کمی آئی ہے۔ اس کو یقینی بنانے میں حکومت کا بہت اہم رول ہے اور مرکز حکومت نے اسے یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بڑی تعدادمیں نوجوان کھیل کود کی سرگرمیوںکے ساتھ ساتھ تعلیمی شعبہ میں بہترین کارکردی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور انکے آگے بڑھنے کی راہیں ہموار ہورہی ہیں۔
دیگر شعبوں کی طرح تعلیمی شعبہ میں بھی کافی بہتری لائی گئی ہے جموںکشمیر کی مختلف یونیورسٹیوںمیں جدید کورسز متعارف کرائے گئے ہیں جن میں ٹریول اینڈ ٹور ازم منیجمنٹ، جنرل ایڈمنسٹریشن اور کیٹرنگ ، بین الاقوامی ہاسپٹلٹٰی جیسے گریجویٹ کورسز شامل ہیں جس سے نوجوانوں کےلئے روزگار کی نئی راہیں کھل گئیں ہیں ۔ یونیورسٹیوں میں روایتی کورسز کے علاوہ جدید کورسز متعارف ہونے سے نوجوانوں کو اپنا مستقبل تئن کرنے کا بھی موقع فراہم ہوا ہے ۔ غرض وادی کشمیر میں ایک نئے دور کی شروعات ہوئی ہے جس سے یہاں کے لوگوںکو کافی راحت مل رہی ہے ۔ اب یہ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ سرکار کی ان کاوشوں کو کامیابی سے ہمنکار کرائیں اور اپنے مستقل کے ساتھ ساتھ قوم و ملک کی ترقی میں اپنا کردار نبھائیں۔