وادی کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی سے دنیا بھر میں مشہور ہے اور یہاں کے آبشار،جھیل، بہتی ندیاں،جھرنے ، سر سبز وادیاں، حدنگاہ تک بلند وبالاپہاڑ ، بے شمار اقسام کے پھول، گلیشئر، برف سے ڈھکی پہاڑیاں غرض یہ منظردنیا بھر کے سیاحوں کواپنی طرف کھینچتا ہے۔ وادی کشمیر کو اپنی بے پناہ خوبصورتی کی وجہ سے ”ایشیاءکا سوئیزر لینڈ“ کہا جاتاہے ۔ یہ وادی صدیوں سے سیاحوں کے پسندید جگہ رہی ہے جس کی وجہ سے سیاحت کشمیر کی معیشت کےلئے ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے جس سے ہزروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ بلواسطہ یا بلا واسطہ منسلک ہے اور سیاحت ہی ان لوگوں کےلئے روزی روٹی کا ذریعہ ہے ۔ البتہ 90کی دہائی میں پاکستان کی جانب سے وادی میں شروع کی گئی ملٹنسی نے جہاں یہاں کے امن کو تباہ کردیا وہیںپر اس سے سیاحتی شعبہ بے حد متاثر ہوا یا یوں کہیں کہ بدامنی کی وجہ سے کشمیر ٹورازم بلکل ہی تباہ ہوگیا تھا۔ جو جموں اور کشمیر میں بہت سی اقتصادی صلاحیتوں کا حامل تھاجموں کشمیر میں بے شمار سیاحتی مقامات ہے جہاںقدرتی خوبصورتی سے یہ خطہ مالا مال ہے وہیںپر یہاںپر متعدد مذہبی مقامات ہے جن میں قدیم تواریخی مساجد، صدیوں پُرانے مندر، خانقاہیں وغیرہ موجود ہیں جو سیاحوں کی پسندیدہ جگہیں ہیں اور جہاں پر مذہبی سیاح جانا پسند کرتے ہیں ۔ وادی میں موسم بہار، موسم گرمائ، موسم خزان اور موسم سرماءیہ چاروںموسم سیاحوں کےلئے دلچسپی کا باعث بنتے ہیں ۔ موسم بہار میں میں ہزاروں اقسام کے پھول ، آبشاروں میں پانی کی بہتات سبز زاروں میں ہریالی ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہے موسم خزاں جسے جھاڑے کا موسم بھی کہا جاتا ہے ایک نیا منظر پیش کرتا ہے اسی طرح موسم سرماءمیں سرد موسم اور برفباری کو دیکھنے کے شوقین سیاح اسی موسم میں وادی وارد ہوتے ہیںغرض ہر موسم میں سیاحوں کی اپنی رغبت ہوتی ہے اور ہر موسم میں الگ الگ ٹورسٹ آتے ہیں ۔
حالات میں سدھار کے ساتھ ہی اگرچہ سیاحت میں نئی جان آئی لیکن کووڈ نے اس پر کاری ضرب دے مارا اور دو برس کے بعد لاک ڈاون کے خاتمہ اور معمول کی زندگی بحال ہونے کے بعد ایک بار پھر سرکار کی کاوشوں کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں نے وادی آنے میں دلچسپی دکھانی شروع کی ۔ کووڈ کے بعد جموں کشمیر ملک کے نمایاں سیاحتی مقامات کے طور پر اُبھر رہا ہے جہاں پر گزشتہ برس رپوٹس کے مطابق 1کروڑ 88لاکھ سے زائد ٹورسٹوں نے جموں کشمیر کادورہ کیا جو گزشتہ ستر برسوں میں سب سے زیادہ سیاحوں کی ریکارڈ ہے ۔ پہلگام ، گلمرگ، سونہ مرگ اور دیگر سیاحتی مقامات بشمول سرینگر کے ہوٹلوں میں پیش گی بکنگ تھی اور یہ سلسلہ سال نو تک جاری رہا تھا ۔
اگر ہم بات کریں دفعہ 370کے خاتمہ اور کووڈ کے بعد کی صورتحال کے بعد کی تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سیاحوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے جموں کشمیر کی سیر کی اور یہاں آکر قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوئے جس کی وجہ سے یہاں پر معیشت میں بھی کافی بہتری آنے لگی ہے ۔سرکاری اعدادشمار کے مطابق جنووری 2022سے اپریل تک 0.35ملین ٹورسٹوں نے شیخ العالم بین الاقوامی ہوائی اڈے پر لینڈنگ کی اور سب سے زیادہ 11اپریل کو ہوائی اڈے پر 102پروازوں جن میں گھریلواور غیرملکی دونوں فلائٹس شامل ہیں نے اس ہوائی اڈے پر اُترے جن میں سیاح تھے۔
یہ بات عیاں ہے کہ واد ی کشمیرمیں حالات میں سدھار کے بعد ہی سیاحتی شعبے میں نئی جان آئی ہے پہلے جہاں ہر ضلع میں اور ہر جگہ پر تشدد آمیز واقعات رونماءہوتے تھے جس میں نمایاں کمی آئی ہے جو سیاحتی شعبہ میں بہتری کا موجب بن گیا ہے ۔ اس صنعت نے پہلے ہی زبردست کامیابی حاصل کی ہے اور توقع ہے کہ اس سال سیاحتی سیزن میں تیزی آئے گی۔ہوٹل مالکان، رستوران اور ہاوس بوٹ مالکان کے علاوہ شوروم والے ،شکارے والے ، ٹیکسی ڈرائیور سیاحتی سیزن بہتر ہونے کی امید پر ہے اور وہ گزشتہ دو برسوں کے سیاحتی موسم سے بھی کافی خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم سیاحت کے فروغ کے معاشی فوائد قلیل المدت ہوسکتے ہیں اور اگر وادی کے خراب سیاحتی انفراسٹرکچر اور سڑک کے رابطے جیسے دیرینہ مسائل کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے تو یہ اس سے نہ تو سیاحت پھل پھولے گی بلکہ اس سے روزگار کامسئلہ بھی پیدا ہوگا۔سیاحتی شعبہ کےلئے بہتر انفراسٹریکچر نہ ہونے سے زراعت اور باغبانی کے شعبے بھی متاثر ہوں گے جس کی وجہ سے وادی کی معیشت بھی زدمیں آسکتی ہے ۔سرینگر جموں 295کو میٹر طویل شاہراہ جس کو اب NH44بھی کہا جاتا ہے وادی کشمیر کا ملک کے دیگر شہروںکے ساتھ واحدزمینی راستہ ہے جو جغرافیائی لحاظ سے کافی اہمیت کی حامل ہے البتہ موسم کی ابتر صورتحال کے دوران اس شاہراہ پر اکثر وبیشتر چٹانیںاور زمین کھسکنے کے واقعات رونماہوتے ہیں جو اس شاہراہ پر ٹریفک کی نقل وحمل یں سب سے بڑی رُکاوٹ بنتی ہے۔ سرینگر سے نئی دہلی تک کے سفر کے وقت کو 10 گھنٹے سے کم کرکے 4 گھنٹے کرنے کے لیے حکومت ہند نے 2011 میں اسے چار لین والی ہائی وے میں چوڑا کرنے کا کام شروع کیا۔ یہ منصوبہ 2016 میں مکمل ہونا تھالیکن کئی ڈیڈ لائنیں ختم ہوگئیں لیکن یہ شاہراہ مکمل نہ ہوسکی ۔ گزشتہ دنوں بھی مرکزی وزیرسڑک و تعمیر نے اعلان کیا تھا کہ سال کے آخر تک اس شاہراہ کو بہتر سفر کےلئے مکمل کیا جائے گا۔ اس پروجیکٹ کی چار لینوں کے منصوبوں کو چھ ذیلی منصوبوں میں تقسیم کیاگیا تھا جن میں اودھمپور روڑ روڑجس کی لمبائی 65کلو میٹر ہے ، اسی طرح چنائی ناشری ٹنل جو کہ9.2کلومیٹر لمبی ٹنل ہے ۔ رام بن اودھمپور شاہراہ جو 43کلو میٹر لمبی ہے اور اس کی چوڑائی بڑھانے کا منصوبہ ہے ۔ اسی طرح بانہال رام بن روڑ 36کلومیٹر ، قاضی گنڈ بانہال شاہراہ جس کی لمبائی 15.25کلو میٹر ہے اور سرینگر بانہال روڑ 67.7کلو میٹر روڑ کی تعمیر کا کام اس منصوبے کے تحت آتا ہے البتہ متعلقہ ایجنسیاں ہر آخری تاریخ میں توسیع کی درخواست دیکر اگلی تاریخ تک مکمل کرنے کا اعلان کرتی ہے لیکن سال 2016سے اب تک سات برس کااضافہ عرصہ بیت گیا لیکن اس فور لین سڑک کے منصوبے کو پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچایا گیا۔
جہاں تک جموں کشمیر کا سیاحتی ڈسٹنیشن ہونے کی بات ہے تو یہ ملک کی کئی ریاستوں سے اس حوالے سے کافی بہتر ہے ۔ جموں کشمیر کی جغرافیائی بناوٹ ، قدرتی مناظر اور دیگر عوامل یہاں کی سیاحت کو بڑھانے میں رول اداکرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی ،خوش خلقی وسیع ثقافتی میراث اور شاندار قدرتی ماحول ملک کے دیگر حصوں سے کافی بہتر ہے ۔ جموںکشمیر کے لوگوں کو سیاحت سے متعلق سرگرمیوں کا کافی تجربہ ہے اور یہاں کی دستکاری جس میں پشمینہ شال، کانی شال، نمدہ بافی ، قالین بافی ، پیپر ماشی کے علاوہ لکڑی سے بنی اشیاءجس میں خاص طور پر اخروٹ کی لکڑی سے بنی چیزیں یہاں کی دستکاری کی نمایاں چیزیںہیں۔ اس کے علاوہ کشمیرمیں شاہی کھاناجس کو عرف عام میں ”وازوان “ کہا جاتا ہے جو اپنے ذائقے میں بے حد لذیز ہوتا ہے ان سبھی چیزوں سے یہاں کی سیاحت منفرد مقام رکھتی ہے ۔
اس تناظر میںجب ہم یہاںپر سیاحتی شعبے میں بنیادی سہولیات کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ٹورازم سیکٹر میںانفراسٹریکچر کافقدان ہے ۔ اسلئے جموںکشمیر کے ٹورازم بورڈ کو سیاحت کے فروغ دینے والے کے طور پر کام کرنا ہوگا نہ کر ایک ریگولیٹر کے طور پر اس کا کام ہونا چاہئے ۔ یہاں کے ہوٹل، گیسٹ ہاوسوں میں اتنی گنجائش نہیں ہے جب سیاحتی سیزن اپنے جوبن بھر ہوتا ہے وہ مطلوبہ نتائج دکھاسکے اورسیاحوں کے رش کو سنبھال سکیں۔ جیسا کہ گزشتہ برس دیکھا گیا کہ یہاں کے سبھی ہوٹل بک تھے اور ہوٹل مالکان نئے سیاحوں کی بکنگ منسوخ کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کی سہولیات بہت کم ہیں اور صفائی کے حالات قابل رحم ہیں۔ لہذاجموں و کشمیر میں بنیادی ڈھانچے کی مناسب دیکھ بھال اور ترقی کی ضرورت ہے۔ اس سے متعلق ادارہ انسٹچیوٹ آف ہوٹل منیجمنٹ (آئی ایچ ایم) سرینگر مقامی لوگوں کو تربیت فراہم کرنے اور انہیں بین الاقوامی معیار کے برابر لا کر ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تربیتی سہولیات قائم کی جانی چاہئیں تاکہ سیاحت کی صنعت میں کام کرنے والے مقامی افراد، جیسے کہ ٹور گائیڈ، باورچی اور دیگر، مناسب طریقے سے تربیت یافتہ اور سیاحوں کی آمد کو منظم کرنے کے لیے تیار ہوں۔ جموں و کشمیر کو بعض اوقات ”پیراڈائز ان ایکسپلورڈ“بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں بہت سے غیر دریافت شدہ سیاحتی مقامات ہیں۔ ایسے نئے غیر دریافت شدہ اور دلکش مقامات کو مسلسل تلاش کی ضرورت ہے اور نئے مقامات کو سیاحتی نقشے پر لانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ سیاح رواتی جگہوں کے علاوہ نئی نئی جگہوںپر جاکر قدرتی حسن و جمال سے مالا مال نظاروںکا مشاہدہ کرسکیں۔ جموں و کشمیر کی سیاحت کو سیاحوں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک کو بین الاقوامی میدان میں اپنی پرانی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے نئے جدید طریقوں کے ذریعے روایتی دستکاری کی صنعت کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ سیاحت اور ماحولیات پر اثرانداز ہونے والے تمام نئے پروجیکٹوں کو ریاست کی نازک ماحولیات کو نقصان پہنچائے بغیر پائیدار طریقے سے انجام دیا جانا چاہیے۔خاص طور پر سیاحتی مقامات پر صحت و صفائی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اوروہاں پر سیاحتی سیزن کے دوران نکلنے والے کوڑا کرکٹ کو سائنسی طریقے سے ٹھکانے لگانے کےلئے اقدامات اُٹھائے جانے چاہئے تاکہ قدرتی ماحول اور ماحولیات کو کوئی خطرہ نہ پہنچے ۔ یہ بات واضح ہے کہ سیاحت جموں کشمیر کی معیشت میں ایک اہم کرداراداکرتی ہے اور اقتصادی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہے اسلئے اس کو مستقبل میں بہتر ٹورازم بنانے کےلئے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ بہتر سیاحتی انفراسٹریکچر سے سیاحت کو مزید فروغ ملے گا اور اس سے نہ صرف یہاں کی اقتصادی حالت بہتر ہوگی بلکہ روزگار کے مسائل بھی اس سے حل ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ یہ خطے کی مجموعی ترقی میں بھی رول اداکرے گی۔