کسی بھی مضبوط ملک کےلئے مضبوط معیشت کی ضرورت ہوتی ہے اور معیشت ہی ملک کے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بناسکتی ہے کیوں کہ ملک معاشی لحاظ سے جتنا مضبوط ہوگا اس کے شہریوںکو اتنے ہی وسائل دستیاب رہیں گے اور ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی ممکن ہوسکتی ہے ۔ کسی ملک کی معیشت اس کے شہریوں کی فلاح و بہبود اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ملک کے سیاسی استحکام، بین الاقوامی تعلقات اور مجموعی ترقی پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اقتصادی ترقی ملک کی صلاحیت اور عوامی سامان کی فراہمی میں اضافہ کرتی ہے۔ جب معیشتیں ترقی کرتی ہیں ریاستیں اس محصول پر ٹیکس لگا سکتی ہیں اور عوامی سامان اور خدمات فراہم کرنے کے لیے درکار صلاحیت اور وسائل حاصل کر سکتی ہیں جن کی ان کے شہریوں کو ضرورت ہے جن میں بنیادی طورپر بہتر طبی خدمات، سماجی تحفظ، تعلیم کی فراہمی ، بجلی کی ترسیل ، گیس کی فراہمی اور بہتر سڑکوں کی دستیابی ۔ اس طرح ایک ملک کی معیشت کئی وجوہات کی بناءپر اہم ہوتی ہے کیونکہ ایک مضبوط اور مستحکم معیشت شہریوں کو روزگار کے مواقع پیدا کرکے اجرتوں میں اضافہ کرکے اور سستی اشیاءاور خدمات تک رسائی فراہم کرکے اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرسکتی ہے ایک مضبوط معیشت معاشی ترقی کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ معاشی لحاظ سے مضبوط ملک ہی مقامی سطح پر حاصل شدہ وسائل کو عوام کی زندگی بہتر بنانے کےلئے بروئے کار لاسکتا ہے جو عالمی سطح پر پیداواری صلاحیت اور مسابقت میں اضافے کا باعث بنتی ہے ایک مستحکم معیشت مالیاتی اتار چڑھاو¿ اور غیر یقینی صورتحال کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے جس کی وجہ سے سرمائی کاری کے اہداف آسان ہوجاتے ہیں اور تجارت کو فروغ ملتا ہے ۔ جب ملک میںتجارت بہتر ہوگی ، لوگوں کو ہر بنیادی ضرورت مہیا ہوگی تبھی ملک بھی خوشحال بن سکتا ہے اور جرائم کم ہوجاتے ہیں ۔جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ جو ممالک معاشی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں وہاں پر جرائم کا گراف بلند ہوتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب عوام کو روز گار کے مسائل ہوں گے ، اشیاءضروریہ مہنگی ہوگی تو یقینی طور پر اپنی ضرورتوںکو پورا کرنے کےلئے لوگ جرائم کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔
کووڈ کے بعد ہم نے دیکھا کہ سری لنکا میں معاشی بدحالی کی وجہ سے کیا حالات پیدا ہوئے یہاں تک کہ لوگوں نے حکمرانوں کو ملک بدر کردیا اور ملک میں دھنگے فساد بپا ہوئے ۔ یہی ہال اس وقت پاکستان کا بھی ہے ۔ پاکستان کو اس وقت معاشی بحران کا سامنا ہے، جس میں افراط زر کی بلند سطح اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی ہے۔ اس کی وجہ سے اشیائے ضرویہ کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور حکومت نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ وسائل کے تحفظ کے لیے استعمال میں کمی کریں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ حکومت نے توانائی کے تحفظ کے اقدامات بھی نافذ کیے ہیں، جیسے کہ شاپنگ مالز اور مارکیٹوں کو ایک مخصوص وقت تک اپنی لائٹس بند کرنے کے لیے کہا ہے۔ ملک میں غریب عوام کو کھانے کے لالے پڑرہے ہیں عام لوگوں کو دووقت کا کھانا بھی بہتر ڈھنگ سے نصیب نہیں ہوپارہا ہے ۔ اس کے عوامی عالمی سطح پر بھی پاکستانی کی معیشت میں گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح پر آ گیا ہے، جس سے ملک کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت غیر ملکی ذخائر بڑھانے کے لیے امریکہ میں سفارت خانے کی جائیداد فروخت کر رہی ہے۔ مجموعی طور پر یہ بیان پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کی درست عکاسی کرتا ہے۔اس وقت امریکہ سمیت دیگر ممالک پاکستان کو اس بحران سے نکلنے میں کوئی مدد نہیں کرتے ہیں ۔پاکستان کی اس موجودہ بحران کی ایک بہت بڑی وجہ وہاں پرطویل عرصے تک سیاسی خلفشار بھی ہے ۔ حکومت اور قیادت میں متواتر تبدیلیوں کے ساتھ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی تفصیلات ہنگامہ خیز رہی ہیں۔
اس ملک میں سیاسی عدم استحکام ، بدعنوانی اور سیاست میں فوجی مداخلت کی تاریخ رہی ہے جس نے اس ملک کی اقتصادی حالت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ حکومت میں تسلسل اور استحکام کے فقدان نے طویل المدتی اقتصادی پالیسیوں اور اصلاحات کو نافذ کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ قیادت میں متواتر تبدیلیاں احتساب اور شفافیت کے فقدان میں بھی معاون ثابت ہوئی ہیں، جس نے بدعنوانی کو پروان چڑھنے دیا ہے۔سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے جس وقت اپنے عہدے سے استعفیٰ دیااُس وقت پہلے ہی یہ ملک اقتصادی بحران کا شکار ہوا تھا کیوں کہ اس کے دورمیں کووڈ تھا جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اقتصادی حالت خراب ہوئی تھی ۔ ان کے بعد جو نئی حکومت قائم ہوئی اس کو کئی چلینجوں کا سامنا رہا جس میں خاص طور پر اقتصادی بحران سے نمٹنے کا ایک بڑا مسئلہ درپیش رہا ۔ مزید یہ کہ پاکستان میں سیاسی بحران اور عدم استحکام نے غیر ملکی سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کو بھی روکا ہے۔ ملک مہنگائی، بے روزگاری، اور ایک بڑی غیر رسمی معیشت کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے۔پاکستان کی معیشت کو حالیہ برسوں میں درحقیقت کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں بلند افراط زر، بڑھتا ہوا تجارتی فرق، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، اور بڑھتے ہوئے قرض شامل ہیں۔ ان چیلنجوں نے ملک کی مالیاتی پوزیشن پر اہم دباو¿ ڈالا ہے اور حکومت کی ضروری خدمات فراہم کرنے اور معاشی ترقی کی حمایت کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔ پاکستان کی معاشی پریشانیوں کے پیچھے ایک اہم عنصر اس کا تجارتی خسارہ ہے، جو کہ برآمدات میں کمی، درآمدات میں اضافہ، اور اہم شعبوں میں مسابقت کی کمی سمیت کئی عوامل کے امتزاج کی وجہ سے برسوں سے بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر خاصا دباو¿ پڑا ہے، جو تیزی سے ختم ہو رہے ہیںاور حکومت کے لیے اپنے قرضوں کی ادائیگی مشکل سے مشکل ہو گئی ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستانی حکومت کو کئی اقدامات کرنے ہوں گے، جن میں برآمدات میں اضافہ، درآمدات میں کمی، اہم شعبوں کی مسابقت کو بہتر بنانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے اقدامات پر عمل درآمد شامل ہے۔ حکومت کو اپنے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اب جبکہ پاکستان میں شاہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت ہے وہ مختلف اقتصادی پالیسیوں اور ترجیحات پر عمل پیرا ہو سکتی ہے۔متذکرہ بالا چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو سیاسی عدم استحکام اور بدعنوانی سے نمٹنے، جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے اور پائیدار ترقی اور ترقی کو ترجیح دینے والی طویل مدتی اقتصادی اصلاحات کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی ملک معاشی استحکام اور خوشحالی کے حصول کی امید کر سکتا ہے۔مجموعی طور پرپاکستان کے معاشی چیلنجز اہم ہیںاور ان سے نمٹنے کے لیے حکومت، نجی شعبے اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ تاہم صحیح پالیسیوں اور حکمت عملیوں کے ساتھ پاکستان کے لیے اپنی معیشت کا رخ موڑنا اور ایک زیادہ پائیدار اور خوشحال مستقبل کی تعمیر ممکن ہے۔
پاکستانی کی بگڑتی معاشی صورتحال میں ایک اور کاری ضرب اُس وقت لگا جب پاکستان میں 2022میں تباہ کن سیلاب آیا جو کہ یقینی طور پر قدرتی آفت تھی جس نے اس ملک کومزید کمزور کردیا ۔ اس سیلاب کی وجہ سے انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی بہت زیادہ دیکھا گیا تھا۔ یہ ملک پہلے ہی برسوں سے کمزور معیشت اور سیاسی عدم استحکام سے نبرد آزما ہے اور سیلاب نے اسے درپیش چیلنجوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ،پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشت گردی اور اندرونی تنازعات سے نبردآزما ہے اور پشاور میں حالیہ خودکش بم حملہ مسلسل خطرے کی گھنٹی ہے۔ امریکی انخلا کے بعد پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کے دوبارہ سر اٹھانے سے خطے میں سلامتی کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے لیکن یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک میں ایک مضبوط سوسائٹی اور آبادی بھی ہے جس نے اکثر اس ملک کو مشکل وقت میں بحران سے نمٹنے میں مدد کی ہے ۔
پاکستان میں معاشی بحران درحقیقت نہ صرف خود ملک کے لیے بلکہ پورے خطے اور اس سے باہر کے لیے تشویشناک ہے۔ معاشی عدم استحکام سے پیدا ہونے والی سماجی اور سیاسی بدامنی سلامتی کے خدشات کو بڑھا سکتی ہے جس سے دہشت گردی اور ایٹمی اثاثوں کے پھیلاو¿ کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان کی حکومت معیشت کو مستحکم کرنے اور بحران کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرے، بشمول بدعنوانی، بدانتظامی، اور تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کی کمی کو دور کرے ۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کی امداد پر انحصار پاکستان کو ایک کمزور پوزیشن میں ڈال دیتا ہے کیونکہ یہ بیرونی حالات اور مطالبات کے تابع ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آو¿ٹ فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ملک کو عالمی برادری کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اہم اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ ایسے اداروں کی طرف سے عائد کردہ شرائط معاشی بحران کو مزید نہ بڑھائیں یا ملک کی خودمختاری کو مجروح نہ کریں۔ عالمی مالیاتی منڈیوں پر اقتصادی بحران کے ممکنہ اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکیونکہ پاکستان کی معیشت تجارت، سرمایہ کاری اور ترسیلات زر کے ذریعے عالمی معیشت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں اور دیگر ممالک سے ترقیاتی امداد کی ضرورت بڑھنے کا امکان ہے، اور اس سے وسائل اور توجہ دیگر عالمی ترقیاتی ترجیحات سے ہٹ سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری مل کر پاکستان کی معاشی بحالی کو پائیدار اور جامع انداز میں مدد فراہم کرے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان کے بنیادی ڈھانچے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی ایک اہم مثال ہے اور اس کی کامیابی ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر پاکستانی اپنی معیشت کو استحکام فراہم نہیں کرسکتا تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کو بھی سری لنکا جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے پاکستانی پالیسی سازوں اور اقتدار پر براجمان سیاسی لیڈران کو چاہئے کہ وہ اس بحران سے نکلنے کےلئے جلد سے جلد اقدامات اُٹھائیں اور زیادہ تر توجہ ملکی سطح پر وسائل کی طرف مرکوز کریں جس نے نہ صرف روزگار کے وسائل پیدا ہوں گے دوسرا اس سے یہ اس ملک کی معیشت بھی بڑھے گی اور بیرون ملک درآمدات پر انحصار کم ہوگا ۔ سرکار کوجامع اور پائیدار اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔