کھیل کے میدان میں دلوں کو جوڑنے والا کرکٹ میچ
گریز جو کہ سال کے قریب چھ مہینے باہری دنیا سے زمینی رابطہ سے کٹ کے رہ جاتا ہے اور ہر طرف صرف برفیلے پہاڑ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پر چھ مہینے تک کھانا ذخیرہ کرکے رکھنا پڑتا ہے کیوںکہ مقامی طور پر ان چھ مہینوں میں نہ کچھ اُگتا ہے اورناہی کوئی چیز دستاب ہوتی ہے ۔میں نے اسی علاقے میںموسم سرما ءکا سیزن گزارا جہاںپر صرف پیک کیا ہوا بند کھانا ہی دونوں وقت ملتا تھا اس جگہ ہم ہیلی پیڈ کی دیکھ بھال کےلئے ممورتھے اور میرے ساتھ مزید بیس اہلکار تھے اور ہیلی پیڈ تک صرف 300میٹر کا پید ل راستہ تھا۔ پوسٹ سے ہمیں تبدیل کردیا گیا اور ایسا لگتا تھا جیسے ہم کسی بہت مدت بعد انسانوں سے ملنے والے ہیں کیوںکہ جہاں اور جس جگہ ہم تعینات تھے اُس جگہ کوئی بھی انسان دکھائی نہیں دیتا تھا سوائے ان کے جومیرے ساتھ وہاں پر تعینات تھے۔ جون کا مہینہ تھا اور مجھے گریز میں ویلی فلور پر کمپنی کمانڈر کی ذمہ داری دی گئی۔ میں اس کے لیے کافی پرجوش تھا کیونکہ مختلف چیلنجز اور بہت سارے کام ہوں گے۔ اس سے بڑی بات کی بہت سے لوگوں کو دیکھ سکتا ہوں اور اس دنیا میں ہونے کا احساس پیدا ہوگا ۔ اس کے علاوہ سب سے بڑا چیلنج ایک دوسرے کے تئیں باہمی افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دینے کے لیے تعلقات کو قائم کرنا اور عوام کا اعتماد حاصل کرنا تھا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عمر رسیدہ افراد نے دنیا دیکھی ہوتی ہے اسلئے جس جگہ میری پوسٹنگ ہوئی وہاں پر بھی ہمارے سے عمر رسیدہ افراد بہت دل کھول کرملتے تھے جنہیں یہ احساس تھا کہ فوج ہماری محافظ ہے اور یہاں پر ہماری مدد کرسکتی ہے جبکہ اسکے برعکس نوجوان روکھے روکھے دیکھتے تھے ۔ادی میں نیٹ ورک کے متعارف ہونے کے ساتھ ان کی یہ سمجھنے میں مدد کرنا بہت زیادہ اہم ہو گیا کہ ہم یہاں مدد کے لیے ہیں اور ہم دوست کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
ہم اپنے کیمپ کے سامنے کرکٹ کھیلنے میں وقت گزارتے تھے ۔حالانکہ زیادہ تر گورکھا آدمی اس کھیل سے ناواقف تھے کیونکہ ان میں سے صرف 5 سے 6 ہی پہلے کھیل چکے تھے۔ کچھ فاصلے پر گاو¿ں کے لڑکے ایک اور میچ کھیل رہے تھے۔ ہمارے برعکس وہ اس میں اچھے تھے کیونکہ وہ بچپن سے اسے کھیل رہے تھے۔ یہ ہفتے تک اسی طرح جاری رہا اور بعض اوقات کسی بھی گروپ کے چند افراد صرف تشریف لاتے اور دوسروں کو اس وقت تک کھیلتے دیکھتے جب تک ان کی ٹیمیں میدان میں نہ آ جائیں۔ ایک دن میں لڑکوں کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ اگلے اتوار کو ہماری ٹیموں کے ساتھ میچ کھیلنا چاہیں گے۔ فیصلہ کئی وجوہات کی بناءپر ہوا۔ پہلا کھیل سے محبت ہے۔ اس کے علاوہ لڑکوں کو جاننے کا یہ بہت اچھا موقع تھا جو کہ ان کے ساتھ محدود میل جول کی وجہ سے مشکل تھا۔ چنانچہ دن طے ہوا اور ایک میچ کا دن بھی طے ہوا۔ میں نے اپنے اہلکاروںمیں سے ایک ٹیم کا انتخاب کیا۔ اس میں چند ایسے لوگ شامل تھے جو اس میں بہت اچھے تھے اور کچھ جنہوں نے اپنی زندگی میں ہتھیار کے بغیر کبھی بلے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا ۔ اسلئے ہم نے اس میچ سے پہلے کھیل کے بنیادی باتوں پر دھیان دینے لگے اور اس میچ میں سخت ٹکر دینے کےلئے تیاری کرنے لگے جیسے کہ ہم دیکھ رہے تھے کہ علاقے کے لڑکے بھی مشق میں مشغول رہتے تھے ۔ اس میچ کے حوالے سے دونوں ٹیموں میں کافی جوش دکھائی دے رہا تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میچ صبح10بجے شروع ہونا تھا لیکن دونوں ٹیمیں صبح 9بجے ہی میدان میں موجود تھیں۔ اور پہلے ہی پریکٹس کر رہی تھیں۔یہ میچ اب صرف دوٹیموں کے مابین کانہیں رہا تھابلکہ اس کو دیکھنے کےلئے گاﺅں کے کافی لوگ جن میں بزرگ اور خواتین بھی شامل تھیں دیکھنے کےلئے آئی تھیں ۔ا س وجہ سے کئی لوگوں نے اس دن اپنے مویشیوںکو بھی چرنے نہیں چھوڑا تھا اور اس دن چھٹی کی ۔ جبکہ کئی لوگ پانچ دس کلو میٹر چل کر میچ دیکھنے آئے تھے جنہوںنے اپنے ہاتھوں میں تھرماس اُٹھارکھے تھے جن میں ”نون چائے“ رکھی تھی اور میچ کے دوران وہ اس چائے کی چسپیاں بھی لے رہے تھے ۔
خیر دونوں ٹیموں کے کپتان میدان کے بیچ میں آئے اور ٹاس کےلئے سکہ اُچھالا تو گاﺅں کی ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ دونوں ٹیمیں تیار ہونے کے لیے اپنے اپنے ڈگ آو¿ٹ میں چلی گئیں۔ بلے باز پچ تک پہنچ گئے اور بولر اپنے رن اپ کے آغاز میں امپائر کے اشارے پر پہلی گیند پھینکی گئی اور وہ باو¿نڈری کی طرف اڑ گئی۔ رنز اچھے رن ریٹ پر بن رہے تھے اور یہ صرف چوتھے اوور میں ہی تھا کہ ہمیں پہلی وکٹ 45 رنز کے اسکور پر ملی۔ہماری ٹیم کے کھلاڑیوں نے باو¿نڈری کی طرف بڑھنے والی ہر گیند کو روکنے کے لیے ہر طرح کی توانائی صرف کی کیونکہ وہ اپنا 100% دیے بغیر کچھ کرنے سے واقف نہیں تھے۔ میچ چلتا رہا اور سکور آگے بڑھتا رہا۔ مقامی لڑکوں کی ٹیم
کے کپتان نے نصف سنچری اسکور کی اور ان کی اننگز کے اختتام پر 10 اوورز میں اسکور 108ہوگیا تھا اور اس صرف چار وکٹ ہی ان کے گرے تھے ۔ خیر ہماری ٹیم کے کھلاڑیوں نے کافی کوشش کی اور ان کی اس کوشش کو مقامی لوگوں نے جو کھیل دیکھ رہے تھے کافی سراہا کیوں کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی کھلاڑی تھے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار کرکٹ کھیلی تھی ۔ 10 منٹ کے بعد میچ دوبارہ شروع ہوا اور ہمیں ایک بڑے ہدف کا تعاقب کرنا تھا۔جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ گاﺅں کے لڑکے دن بھر کرکٹ کھیتے رہتے دکھائی دیتے ہیں جس سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ ہم سے کئی گنا بہتر کھیل سکتے ہیں ۔ خیر ہماری ٹیم کے اوپنروں نے بلے ہاتھ میں لئے بیٹنگ کی شروعات کی تاہم فیلڈنگ والی ٹیم کو پہلا بریک تھرو ملا اور ہماری ایک وکٹ گر گئی ۔ میں اس کے بعد کھیلنے گیا جس کو کرکٹ کی زبان میں ”ون ڈاون“ کہا جاتا ہے ۔ میں نے اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر اننگز کو آگے لے جانے کی کوشش کی اور چند اچھے شاٹس کے ساتھ 5 اوورز کے اختتام پر اسکورایک کھلاڑی کے نقصان پر 48رن ہوگیا۔ لیکن اگلی ہی گیند پر میرا ساتھی بولڈ ہو گیا۔ اگلے تین اوورز میں ہم نے 35 رنز بنائے۔ لیکن 9ویں اوور میں ہم نے لگاتار 2 وکٹیں گنوائیں جن میں مجھ سمیت اور اب ہمیں آخری اوور کے 18 رنز درکار تھے۔ ہم میچ 5 رنز سے ہار گئے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کس طرح کا رد عمل ظاہر کرنا ہے لیکن جب میں نے اپنے ارد گرد دیکھا تو میں نے دیکھا کہ ہر کوئی اچھل کود اور جشن منا رہا ہے قطع نظر اس کے کہ کون میچ جیتا ہے۔ مقامی لڑکے اور ہمارے سپاہی گلے مل رہے تھے اور ایک دوسرے کے کھیل کی تعریف کر رہے تھے۔ہماری ٹیم نے اگرچہ میچ ہار الیکن دل جیت گئے۔ ہم نے زمین پر دو مختلف ٹیموں کے طور پر کھیلا لیکن اس کھیل نے ہمیں ایک ہی ٹیم بنا دیا جس کا بانڈ اتنا مضبوط تھا کہ کبھی ٹوٹا نہیں۔ یہ ایک ایسے دور کا آغاز تھا جہاں مجھے اور میرے دیگر ساتھیوںکو کبھی بھی گھر سے دور ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا گیا۔اس میچ کے آخر پر سبھی لوگوں نے ہماری ٹیم کی کافی تعریف کی اور ہماری کوشش کی داد دی ۔ یہ میچ ہماری یادوں کا ایک عظیم میچ تھا کیوں کہ اس میچ سے فوج اور مقامی لوگوں کے مابین نزدیکیاں بڑھیں اور ایک دوستانہ ماحول قائم ہوا۔