سابق ریاست جموں کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ کی منسوخی اور تنظیم نو کے تین سال 05اگست 2022کو مکمل ہوئے ۔ ان تین سالوں میں جموں کشمیر نے کس قدر ترقی کے منازل طے کئے وہ عیاں ہے ۔ سال 2019کو 5اگست کے دن مرکزی حکومت نے سابق ریاست کی اسمبلی کو تحلیل کرکے خصوصی درجہ واپس لیا اور یہ فیصلہ بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہونے والی قرارداد پر مبنی تھا۔ اگرچہ اُس وقت اس کی ہر طرف مخالف ہوئی تاہم بھارت اپنے اس فیصلے پر ڈٹا رہا ۔ 6اگست 2019کو مزید ایک دفعہ 370کی تمام شقوں بشمول 35اے کو منسوخ کیاگیا ۔ تاریخی اعلان کے تین سال سے زیادہ بعدہم دیکھتے ہیں کہ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر نے کس طرح ترقی کی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کے ذریعہ خصوصی اختیارات دیئے گئے تھے، جس سے وہ اپنا آئین تشکیل دے سکے۔ اس معاہدے کے تحت مرکزی سرکار کے چار فیصلوں پر ریاست کو اتفاق کرنا تھا جن میں مواصلات، دفاع اور خارجیہ پالیسی اور قوانین میں کسی بھی ترمین یا تبدیلی کا حق مرکز کے پاس تھا لیکن اس کےلئے ریاستی اسمبلی کی منظوری بھی ضروری تھی تاہم دفعہ 370کی منسوخی کے بعد مرکزی سرکار اب جموں کشمیر انتظامیہ یا حکومت کی منظوری لینے کی محتاج نہیں ہے اور اب مرکز ہر طرح کے قانون کے اطلاق کےلئے مجاز ہے ۔ دفعہ 370کے تحت ریاست کے مستقل باشندوں کو حکومت ہند کی جانب سے کئی مراعات فراہم تھے جیسے کہ سرکاری نوکری کےلئے یہاںکا مستقل باشندہ ہونا لازمی تھا جبکہ کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ حکومتی امداد، سرکالر شپ حاصل کرنا کا حق نہیں رکھتا تھا اس کے ساتھ ساتھ کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ جموں کشمیر میں کہیں پر بھی جائیداد نہیں خرید سکتا تھا اور اس کےلئے بھی ریاست کا باشندہ ہونا ضروری تھا ۔ اس دفعہ کے تحت ایک اور نمایاں خصوصیت جو ریاست کو حاصل تھی وہ ریاست کا اپنا ایک دستور اور اپنا پرچم تھا اور ریاست میں صدارتی راج کا اطلاع نہیں ہوسکتا تھا جب تک نہ کہ مقامی اسمبلی سے اس کےلئے قرارداد پاس ہوتی ۔ جبکہ بیرونی جارحیت یا جنگ کے تناظر میں صرف قومی ایمرجنسی نافذ کی جاسکتی تھی ۔ جہاں پورے ملک میں شہریوں کو قومی شہری ہونے کا حق حاصل ہے وہیں سابق ریاست جموں کشمیر کے باشندوں کو دوہری شہریت حاصل تھی ۔ سیاسی عمل میں بھی جموں کشمیر ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں جدا تھی جیسے کہ پورے ملک میں اسمبلی یا قانون سازیہ کی مدت پانچ برس ہے جبکہ جموں کشمیر کی قانون سازیہ کی مدت چھ برس تھی۔ اس طرح سے جو بھی مرکزی سرکار قوانین راج کرتی یہاں پر اس کا اطلاق براہ راست نہیں ہوتا تھا اس کےلئے بھی اسمبلی کی منظوری ضروری تھی اور سب سے بڑی بات مقامی قانون سازیہ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ کسی بھی قانون میں ترمین کا اختیار رکھتی تھی یا کوئی بھی قانون پاس کرسکتی تھی ۔ ان وجوہات کی بنا پر جموں کشمیر کو آئین ہند کے تحت کچھ خصوصیت حاصل تھی ۔
حکومت ہند نے اس دفعہ کی منسوخی اور جموں کشمیر کو دو یوٹیز میں بانٹنے کے عمل پر سختی قائم رہے حتیٰ کہ کئی ممالک نے اس کی مخالف کی اور کافی عالمی دباﺅ کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا ۔ روس نے اس فیصلے پر بھارت کی حمایت کی جبکہ امریکہ نے بڑی حد تک بھارت کو اس کام میں ساتھ دیا اور اپنی بھر پور حمایت سے اس کام کو بھارت کےلئے آسان بنادیا ۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی جبکہ ترکی ، پاکستان اور چین نے اس فیصلے کی مخالفت ضرورت کی البتہ ترکی کی مخالفت بھارت کےلئے کوئی وجہ نہیں تھی تاہم چین نے جارحیت کا رُخ اختیار کیا تھا ۔ دفعہ 370کی منسوخی پر چین نے براہ راست بھارت پر الزام عائد کیا کہ اس فیصلے سے ریاست کی سالمیت کو علاقائی خطرہ لاحق ہے ۔ جس کے تناظر میں مشرقی لداخ میں گلوان وادی کا واقع مئی 2020میں پیش آیا۔جس دوران بھارتی اور چینی افواج کے مابین شدید جھڑپ ہوئی اور کم سے کم 20بھارتی فوجی مارے گئے جبکہ چینی فوج کے بعد متعدد اہلکار ہلاک ہوئے تھے اور یہ تنازعہ کا رُخ اختیار کرگیا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان سخت تلخی کا باعث بنا ۔ اسی طرح پاکستان بھی اس فیصلے سے سیخ پا دکھائی دیا اور کسی بھی حد تک جانے کی بات کی ۔ پاکستان نے بھارت کے اس فیصلے کو غیر قانونی قراردیکر کہا تھا کہ بھارت جموں کشمیر میں ڈیموگرافی تبدیل کرنا چاہتا ہے اور ایک اکثریتی علاقہ کو اقلیت میں تبدیل کردینا چاہتا ہے ۔ البتہ بھارت کی خوش قسمتی یہ رہی کہ عالمی کووڈ کا دور شروع ہوا اور عالمی توجہ کشمیر کے معاملے سے ہٹ کر کووڈ کی طرف مبذول ہوئی ۔ اور عالمی سطح پر جموں کشمیر کا مسئلہ سرد پڑ گیا اور اس کا براہ راست فائدہ بھارت کو پہنچا اور اس کے بعد بھارت کی راہیں مکمل طور پر صاف ہوئیں۔ اس طرح سے پاکستان اور چین کا چیخنا چلانا ان ہی علاقوں تک محدود رہا الٹایہ کہ چین پر کووڈ کو پھیلانے کا الزام بھی لگا جس کی وجہ سے پوری عالمی برادری چین کی مخالف ہوئی اور بھارت کی حمایت میں کھڑی ہوئی ۔
حکومت ہند نے 5اگست 2029کو جموں کشمیرکی آئینی خودمختاری منسوخ کرکے جموں کشمیر کی اسمبلی کو تحلیل کردیا اور اس ڈرامائی کاروائی کے ساتھ ہی دفعہ 370اورآرٹیکل 35اے کو ختم کرکے جموں کشمیر اور لداخ کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کیا جس کے تحت لداخ کو خود مختار ہل ڈیولپمنٹ کونسل دینے کا وعدہ کیا گیا اور جموں کشمیر کو یوٹی کے تحت اسمبلی دینا کا وعدہ کیا گیا ۔ اس اہم فیصلے کے بعد ظاہر سی بات تھی کہ جموں کشمیر میں حالات خراب ہوجائیں گے جس کے پیش نظر سرکار نے کئی مہینوں تک یہاں پر کرفیوا ور سخت بندشیں نافذ کردیں ۔ اس اہم فیصلے کے تناظر میں حکومت ہند کا دعویٰ تھا کہ اس سے جموں کشمیر میں اعلیٰحدگی پسندی اور ملٹنسی کو فروغ مل رہا ہے اور اس خصوصی درجہ کی وجہ سے خطے کی سماجی اور معاشی ترقی رکی ہوئی ہے ۔
جموں کشمیر کی تقسیم اور آرٹیکل 370کے خاتمہ کے اب تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس کے بعد اگر دیکھا جائے تو جموں کشمیر میں نمایاں تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے ۔ سب سے بڑی جو ان تین برسوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے وہ ملٹنسی اور تشدد میں کمی ہے جو یہاں پر حالات کے بگاڑ کا سبب تھا جس کی وجہ سے نہ یہاں پر اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہورہی تھیں بلکہ تعلیمی نظام اور سیاحتی ڈھانچہ بھی بُری طرح سے درہم برہم ہوکے رہ گیا تھا ۔اعداد و شمار کے مطابق2019 کے بعد تین سالوں میں 69فیصدی تشدد یا ملٹنسی کے واقعات کم ہوئے ہیں ۔حکومت کی جانب سے قبضہ شدہ سرکاری اراضی پر تعمیر کردہ یا دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے والی جائیدادوں کی مسماری کی مہم خطے میں امن قائم کرنے کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ حال ہی میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے اننت ناگ میں حزب المجاہدین کے دہشت گرد کمانڈر امیر خان کی جائیداد اور جنوبی کشمیر کے پلوامہ کے راج پورہ میں جیش محمد کے دہشت گرد عاشق نینگرو کے گھر کو مسمار کر دیا۔اس کے علاوہ کئی علاقوں میں جنگجوئیانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی جائیداد کو قرق کیا گیا اور اس طرح سے ملٹنسی پر دباﺅ بنائے رکھتے ہوئے سیکورٹی فورسز کی جانب سے کامیاب جنگجو مخالف آپر یشن موثر ثابت ہورہے ہیں ۔اب اگر ہم بات کریں تو ان تین سالوں میں جموں کشمیر میں ترقیاتی منظر نامہ بھی تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور سیاسی جماعتیں کھلے عام اپنے جلسے اور پروگرامات منعقد کررہے ہیں اور جمہوری عمل میں اپنا کردار اداکررہے ہیں ۔ ذرائع کی اگر مانیں تو رواں برس کے وسط میں جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے جو یہاں پر عوامی حکومت قائم کرنے میں کردار اداکرے گی ۔اسی طرح سے کشمیری پنڈتوں کی وطن واپسی کی راہیں بھی ہموار ہورہی ہیں اور 1990سے اب تک 44ہزار کشمیری پنڈت کنبوں نے ہجرت کی ہے جن کی باز آبادی کاری کےلئے سرکار اقدامات اُٹھارہی ہے ۔ ان پنڈت خاندانوں میں جو کشمیر واپس آرہے ہیںانہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے حکومت نے ایک مکمل پالیسی تیار کی ہے۔ آنے والے کشمیری پنڈتوں کو آباد کرنے کے مقصد سے سرینگر اور اس کے آس پاس مختلف علاقوں میں انہیں بسانے کےلئے اقدامات اُٹھائے جاچکے ہیں۔ جبکہ مختلف اضلاع میں وزیر اعظم پیکیج کے تحت کشمیری پنڈتوں کو ملازمتیں فراہم کی جاچکی ہیں ۔
دفعہ 370کی منسوخی کے بعد بیرونی سرمایہ کاروں کےلئے بھی راہیں ہموار ہوئی ہیں اور ان تین برسوں میں 23ہزار152کروڑ روپے کے مفاہمت ناموں پر ایل جی انتظامیہ اور بیرونی سرمایہ کاروں کے مابین مفاہمت نامے پر دستخط ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ دبئی ایکسفو 2020میں کئی بیرون ممالک خاص کر عرب ممالک کے سرمایہ کاروں نے جموں کشمیر میں سرمایہ کاری پر رضامندی ظاہر کی تھی ۔ جس سے یہاں پر صنعتی ترقی کو فرو غ ملے گا۔ اس کے علاوہ سرکار ٍکی ٍجٍانب سے مختلف فلیگ شپ پروگراموں کو بھی چلایا جارہا ہے جو مقامی نوجوانوں کو رورزگار فراہم کرنے کےلئے ایک منصوبہ ہے اور اس طرح سے مقامی سطح پر بھی نوجوانوں کو روزگار کے مواقعے فراہم کئے جارہے ہیں۔ مجموعی طور پر اگر ہم دیکھیں گے تودفعہ 370 کی منسوخی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو نمایاں طور پر کم کرنے میں کامیاب رہی ہے اور وادی میں امن قائم ہو رہا ہے۔ تاہم ہمارے مخالفین اس سکون کو غیر مستحکم کرنے اور ایک کشیدہ ماحول پیدا کرنے کی مسلسل کوشش میں ہیں۔ دشمن دہشت گردی کے حملوں کے لیے ڈرون جیسی ہائی ٹیک ایڈز کا استعمال کر رہا ہے اور دراندازی اور امن کو سبوتاز کرنے کے لیے نئے متبادل تلاش کر رہا ہے۔ حال ہی میں جموں خطہ سے دراندازی کی مختلف کوششوں کو مسلح افواج نے کامیابی سے ناکام بنایا ہے۔ سرحدوں کے اس پار دشمن کی اس طرح کی مذموم کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے سیکورٹی فورسز پوری طرح تیار ہیں۔ وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والی مختلف سیکورٹی ایجنسیاں اور این جی اوز مقامی سطح پر امن کو قائم کرنے اور ایسے نوجوانوںکو قومی دھارے میں واپس شامل کرنے کےلئے اقدامات اُٹھارہی ہے جو غیر علمی کی وجہ سے غلط راستے پر چلنے کی طرف راغب ہورہے ہیں۔
اب حکومت ہند کی توجہ یہاں پر سیاسی عمل اور جموری نظام کی بالادستی کی طرف ہے اور اس کےلئے اگلا منصوبہ جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کرانا ہے اور ممکنہ طور پر یہ 2023میں انجام پائے گا۔ کیوں کہ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کو اپنی پسندیدہ اور منتخب حکومت قائم کرنا کا بنیادی حق ہے اور سال 2019کے بعد یہاں پر گورنر راج قائم ہے جو زیادہ دھیر تک نہیں رہ سکتا ہے اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اب سرکار اور عوام باہمی تعاون کے ساتھ اس جمہوری عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلئے کام کریں ۔