کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی میں نوجوانوں کا کلیدی رول ہوتا ہے اور ہمارے ملک میں آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوںپر مشتمل ہے جبکہ دنیا بھر میںتقریباً 1.5 بلین افراد کی عمر14 سے 24 سال کے درمیان ہیں جن میں سے 1.3 بلین ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔اب اگر ہم اپنے جموں کشمیر کی بات کریں گے تو سال 2011کی مرد شماری کے مطابق جموں کشمیر کی مجموعی آبادی ایک کروڑ 25لاکھ کے قریب ہے تاہم اس میں لداخ خطہ کی آبادی بھی شامل ہے ۔ جبکہ کل آبادی میں 70فیصدی نوجوان ہیں جن کی عمر 35سال سے کم ہے ۔ اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جموں کشمیر میں ایک تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ نوجوان قوم اور ملک کا سرچشمہ ہوتا ہے اور نوجوان کی ملک کی ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں اور ملک کو اُنچائی پر لے جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے دیکھا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں یہاں کے نوجوانوں کا جواستحصال کیا گیا اس سے تعمیر و ترقی میںنوجوانوںکی شرکت نہ ہونے کے برابر رہی ہے ۔
ایک طویل مدت تک نامسائد حالات کے سبب جموں کشمیر کی ترقی میں کافی رُکاوٹ تھی اور سیاسی خلفشار اور شورش کی وجہ سے کشمیر کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے ۔ یہاں کے نوجوانوں کو سیاسی طور پر ہتھیار کے بطور استعمال کیا گیا اور جان بوجھ کر نوجوانوں کو فیصلہ سازی میں پیچھے رکھا گیا تھا ۔ یہاں کے نوجوانوں اگرچہ کافی حساس مانے جاتے ہیں اور صحیح و غلط کا شعور رکھتے ہیں تاہم ان کا جواستحصال ہوا ہے وہ کشمیری معاشرے کےلئے کافی نقصان دہ ثابت ہوا ۔
1989میں جموں کشمیرمیں عسکریت پسندی کاآغاز ہوا اور اسی وقت سے یہاں کے نوجوانوںکو سیاست دانوں نے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنا شروع کردیا اور پاکستانی حمایت یافتہ مسلح جدوجہد سے لیکر کشمیر کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں تک ایک طویل سفر میںیہاںکے نوجوان دانستہ طور پریا غیر دانستہ طور پر سیاسی جماعتوںکے ہاتھوں کٹھ پتلی کی طرح نچائے گئے ۔ مسلح شورش اور احتجاجی دور اگرچہ ختم ہوا تاہم اس کے بعد ایک نیا دور شروع ہوا جس میں یہاں کے نوجوانوں کو بطور او جی ڈبلیو استعمال کیا جارہاہے اس نیٹ ورک کے خلاف پولیس اور فورسز نے کامیابی کے ساتھ آپریشن شروع کئے اور اس کے تدارک کی طرف توجہ دی یہاں تک کہ سیکورٹی فورسز کی طرف سے متعدد گرفتاریاں بھی کی گئیں۔اس صورتحال پر جب گہرائی کے ساتھ نظر دوڑائی جاتی ہے تو اس کے پیچھے بے روزگاری کا مسئلہ کارفرما دکھائی دیتا ہے ۔ اعدادوشمار کے مطابق جموں و کشمیر میں 60 لاکھ سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں جن میں سے 30 لاکھ وادی کشمیر میں ہیں۔ یہ بے روزگاری تعلیمی سرمائے کے کردار پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اس تعلیمی نظام کے زوال کی ممکنہ وجوہات یہ ہیں کہ ہنر کا سیٹ دستیاب جاب پروفائلز سے میل نہیں کھاتا، تعلیمی ادارے ابھی تک غیر ترقی یافتہ ہیں اور رسمی تعلیمی نظام طلباءکو روایتی اور خاندانی پیشے جیسے کہ دستکاری یا زراعت وغیرہ کی اجازت نہیں دیتا اور ناہی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے خاندانی اور مورثی پیشے سے جڑنا چاہتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کی دستکاری ، کاشتکاری اور صنعت کاری میں وہ وسعت نہیں ہے اور ناہی یہ روزگار کا تقاضا پورا کرنے کے اہل مانے جاتے ہیں ہاں اگر کوئی شوقیہ خاندانی پیشہ سے جڑتا ہے ۔
موجودہ دور میں جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ سیکورٹی فورسز کےلئے سب سے بڑا چلینج او جی ڈبلیو کارجحان ہے اس کے علاوہ ایک بہت بڑا چلینج جس سے فورسز ادارے نمٹ رہے ہیں وہ بنیاد پرستی ہے اوربنیاد پرستی وادی کے نوجوانوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ بنیاد پرست اسلام پسند گروپ جذباتی تقریروں کے ذریعے نیٹ ورکس کے ساتھ اپنے نظریے کو پھیلا رہے ہیں اس طرح اس تعلیمی نظام میں جڑیں پھیلا رہے ہیں جو وادی میں پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔تاہم یہاں یہ بات بھی ضروری ذہن نشین کرنی ہے کہ ہر کوئی نوجوان بنیاد پرستی کی طرف راغب نہیں ہورہا ہے اور اسلام پر مکمل عمل کرنے والے سبھی اس طرف مائل نہیں ہوتے ہیں ۔ یہاں پر کئی نوجوانوں کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو قومی دھارے میں رہ کر اسلام پر عمل پیرا ہیں اور ملک اور قوم کی ترقی میں کردار اداکرتے ہیں ان میں نذیر احمد وانی، اے سی ، ایس ایم لیفٹیننٹ عمر فیاض ، آر ایف این اورنگزیب، شاہ فیصل، پرویز رسول، ہلال احمد جیسے لوگ کشمیر کے لوگوں کے وقار اور حوصلے کو ظاہر کرتے ہیں۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ دور جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کا دورہ ہے تو سماج دشمن عناصر اس کا بھر پور فائدہ اُٹھارہے ہیں اور یہاں کے نوجوانوں کو غلط راستے پر ڈالنے کےلئے اسی کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیںکہ یہ ایک نئی جنگ ہے جو جو سمارٹ فونوں کے ذریعے لڑی جارہی ہے ۔ سمارٹ فونوں اور انٹرنیٹ کے جال کے بیچ سوشل میڈیا پر دستیاب پروپگنڈا مواد کے اثر سے بنیاد پرستی بڑھ رہی ہے اور اس طرف نوجوان مائل ہورہے ہیں۔ معاشرے میں نہ صرف سماجی انتشار ہے، بلکہ ایک بہت بڑا اخلاقی خلا بھی ہے۔ اس کے علاوہ، تکنیکی حکمرانی کے اقدامات کی کمی اور وسیع پیمانے پر بدعنوانی نے کشمیر کو ایک سلگتا ہوا انگارا بنادیا ہے ۔ تاہم اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے خاص کر نوجوانوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرکے انہیں بنیاد پرستی سے دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
فوج اور دیگر حفاظتی اداروں کی کاوشوں کی وجہ سے اگرچہ وادی کشمیر میں ملٹنسی کا خاتمہ ممکن ہوا ہے اور زمینی سطح پر علیحدگی پسندی اور عسکریت پسندی مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے اور اب کشمیر علاقائی طور پر محفوظ ہو سکتا ہے، لیکن جذباتی اور نفسیاتی طور پر وادی اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ ذہنی طور پر کشمیری نوجوان سرکار سے بیزاری کا عندیہ دیتے ہیں اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے نوجوانوں کو صحیح راہ دکھانے کی طرف توجہ دی جائے اور زیادہ سے زیادہ روزگار کے وسائل پیدا کرکے نوجوانوں کو اپنے کام میں مشغول رکھنے کےلئے اقدامات اُٹھائے جائیں۔ ہمیں کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے اور کشمیریت کو دوبارہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ عین اسی وقت پر تعلیمی ادارے جیسے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں اہم شعبے ہیں جہاں نوجوانوں کو ان کے مسائل پر بات چیت اور مطالعہ کرنے کے لیے جگہ فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہمیں خواتین کے ساتھ بات چیت اور صنفی تعصب پر مبنی مکالمے کے لیے مزید جگہ کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں جہاد کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے علماءتک پہنچنا چاہیے۔ ایک مکمل طور پر اصلاح شدہ اسکول کا نصاب وقت کی ضرورت ہے، جہاں بنیاد پرستی سے دور موثر تعلیم اور شہری علوم کی شمولیت سے حاصل کیا جاتا ہے۔کشمیر عوام طویل مدت تک شورش کی زد میں زندگی گزارنے کی وجہ سے ذہنی اور جذباتی طور پر مجروح ہوچکے ہیں اسلئے ان کے زخموں پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے اور ان سے ہمدری ظاہر کرکے ان کے دل جیتنے کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔