آج سے بیس تیس برس پہلے اعلیحدگی پسندوں اور عسکریت پسندوں کو اخبارات میں اپنے پروپگنڈے پر مبنی کالم یا پریس نوٹ شائع کرنے کےلئے ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد پر دباﺅ ڈالا جاتا تھا اور زور زبردستی سے کچھ اخبارات ان پریس نوٹوں اور کالموں کو شائع کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے تاہم آج کل کے انٹرنیٹ کے دور میں منفی پروپگنڈاپر مبنی مواد کو سوشل میڈیا پر شائع کرنے کےلئے کسی کو ڈرانے یا دھمکانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ آج کل کے دور میں کوئی بھی کچھ بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرسکتاہے نہ کوئی رُکاوٹ ہے اور ناہی کوئی بندش ہے ۔ اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے عسکری تنظمیں پروپگنڈا پر مبنی مواد کو سوشل میڈیا پر ڈال کر بھارت کے خلاف نوجوانوںکو بھٹکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک طرف سے اگر ہم کہیں کہ سوشل میڈیا اب اس طرح کے عناصر سوشل میڈیا کو بطور ملٹی میڈیا جہاد کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ آج ملٹنسی اور تشدد سے متعلق سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں تصاویر اور ویڈیوز ہر ایک دن سوشل میڈیا سائٹس پر موجود ہیں۔ اس طرح کا مواد، زیادہ تر نوجوان کشمیریوں کو اُکسانے کےلئے استعمال کیا جارہا ہے اور دیکھا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے پوسٹوں کا سیلاب ہے ۔ اس صورتحال نے سائبر ڈومین میں ورچوئل جہاد سے لڑنے کے لیے سیکورٹی فورسز کے لیے ایک بڑی پریشانی کو جنم دیا ہے۔اگرچہ پولیس اور فورسز کی جانب سے اس کا توڑ کرنے کی کوششیں جار ی ہیں تاہم موثر اندازمیں اس پر روک نہیں لگائی جاسکتی ۔ سوشل میڈیا کو بطور ایک ہتھیار کے استعمال کرنے کی کوشش پہلے لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کی جانب سے 2015دسمبر میں کی گئی جنہوں نے آئی ایس آئی ایس یعنی اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا سے متاثر ہوکر اپنا سائبر سیل شروع کیا۔ حافظ سعید نے اس سیل کو اپنی تنظیم کے نصب العین اور نظریہ اور بھارت مخالف پروپگنڈا اور وادی کشمیر میں بدامنی پھیلانے کےلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس طرح سے اگر ہم بات کریں کشمیر میں ملٹی میڈیا جہاد کا آغاز سال 2010سے ہوا تھا جب برہانی والی ایک جنگجو نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی اور سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر بشمول دیگر جنگجوﺅں کے اپ لوڈ کرتے گئے اور سال 2013تک وہ جموں کشمیر کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کےلئے توجہ کا مرکز بن گیا تھا اور ایک معروف عسکری کمانڈر کے طور پر اُبھرا ۔ ان کے مارے جانے کے بعد حزب المجاہدین کی کمانڈ سبزار بٹ نے سنبھالی تھی اور سبزار نے بھی فیس بک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی تصاویر مع ہتھیار اپ لوڈ کرنے شروع کی اور اس طرح سے سبزار بھی مقامی سطح پر ایک نامی ملیٹنٹ کمانڈر بن گیا ۔ سبزار اور برہان وانی کی سوشل میڈیا پر تصاویر اپ لوڈ کئے جانے کا فائدہ ملیٹنٹ گروپوںکا ہوا اور مقامی نوجوان بلا سوچے سمجھے ان تنظیموں میں بھرتی ہوتے گئے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ فوج اور پولیس نے ان تمام جنگجوﺅں کو جاں بحق کیا اور آہستہ آہستہ ان کی تصویر بھی دھیمی ہوتی گئی ۔
اب اگر ہم کشمیر میں ملٹنسی کی ابتداءکی بات کریں گے تو 80کے دہائی کے آخر پر یعنی 1989سے وادی کشمیر میں عسکریت پسندی کا دور شروع ہوا جس نے وقت کے ساتھ ساتھ کئی مراحل دیکھے ۔ ایک وقت میں وادی کشمیر میں ملٹنسی کا خاصا دبدبہ تھا لیکن حالات میں بدلاﺅ آتا گیا اور ملٹنسی ختم ہوتی گئی ۔ عسکریت پسندوں نے حالات کے ساتھ ساتھ اپنا لائحہ عمل بھی تبدیل کیا اور جدید آلات کا استعمال کرتے ہوئے ملٹنسی کو زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ایک طرف اب سوشل میڈیا پر منفی پروپگنڈا چلایا جارہا ہے تو دوسری طرف ٹار گیٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا جس نے اگرچہ لوگوں میں پھر سے خوف و ہراس پیدا کیا لیکن فوج اور پولیس کی جانب سے جنگجو مخالف کامیاب آپریشنوں کی بدولت اس میں ٹھہراﺅ آیا ہے ۔
سوشل میڈیا کے استعمال اب جنگجو براہ راست کررہے ہیں جن میں انکاونٹر میں پھنسے جنگجووں کے بارے میں سوشل میڈیا پر اطلاعات اور ان کے مرنے کے بارے میں جانکاری جنگجوﺅں اور ان کے گھروالوں کے مابین آخری بات چیت اور اس کے علاوہ جنوبی کشمیر کے جنگلوں میں ہتھیاروں کی نمائش اور تربیت وغیرہ ایسے اقدامات ہیں جن کے ذریعے کشمیری نوجوانوںکو بہلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ملیٹنٹوںکے لیے سوشل میڈیا صرف رابطے کا ایک ذریعہ نہیں ہے۔ یہ جنگ کا ایک ہتھیار ہے۔ اس کو مقامی نوجوانوںکو عسکری جماعتوں میں شامل کرنے کےلئے بھی استعمال میںلایا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا جیسے ہتھیار اکا توڑ کرنے کےلئے سیکورٹی اداروں کی جانب سے پہلے ہی اقدامات اُٹھائے جاچکے ہیں جس میں فوج اور پولیس کی جانب سے چلائی جانے والی سائبر سیل جس کا مقصد آئی ایس آئی اور دیگر پاکستانی ہینڈلرز کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کے خلاف کام کرنا اور ان کے پروپگنڈے کے بارے میں عوام کو باخبر کرنا بھی ہے ۔ فوج نے اس کےلئے ایک موثر اور بہتر انداز میں کام کررہی ہے جس میں یہ کوشش رہتی ہے کہ دفاعی فورسز کی کوئی خفیہ معلومات سائبر سپیس میں منتقل نہ ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ وادی میں جاری ملٹنسی کے خلاف لوگوںمیں بیداری پیدا کی جاتی ہے اور اس کےلئے فوج کی جانب سے میڈیا سیل کام کررہی ہے ۔ جہاں سیکورٹی ادارے اپنا کام کررہے ہیں وہیں پر عام لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ پاکستان اور اس کے آلہ کاروں کے ان منصوبوںکو ناکام بنانے کےلئے اپنا رول اداکریں اور اس کے خلاف آواز اُٹھائیں تاکہ کشمیری بچوں کو کوئی راہ بھٹکانے کی جرات نہ کریں ۔جیسا کہ تیس برس پہلے کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ہزاروں نوجوان موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس منفی پروپگنڈا کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طور پر اس کا توڑ کریں ۔