کشمیر میں G20کانفرنس کے انعقادپر
بھارت مخالف قوتوں کو مرچی ضرور لگی ہوگی
وادی کشمیر میں اگلے ہفتے G20عالمی سربراہی اجلاس منعقد ہونے والا ہے ۔ اس عالمی کانفرنس کے کشمیر کے انعقاد پر کچھ بھارت دشمن ممالک کو مرچی ضروری لگی ہے اور اس پر اعتراضات بھی اُٹھائے لیکن بھارت کے مصمم ارادے نے ان ممالک کے ارادوں پر پانی پھیر دیا ۔ کیوں کہ بھارت مخالف ممالک نے ہمیشہ سے ہی بھارت کے ایسے اقدامات کی مخالف کی ہے جن سے جموںکشمیر خاص کر کشمیر کو معاشی لحاظ سے فائدہ پہنچا ہو اور یہاں تعمیر و ترقی کا سفر شروع ہوا ہو۔ یہ کانفرنس نہ صرف سیاحتی ، معاشی لحاظ سے اہم ہے بلکہ یہ کانفرنس سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی کشمیر اور بھارت کے لئے ایک مثبت کانفرنس ثابت ہوگی ۔ جہاں اس کانفرنس کے انعقاد سے کشمیر کی وہ شبہہ دھل جائے گی جو کشمیر دشمن طاقتوں نے عالمی سطح پر بنائی ہے وہیں اس سے یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ اہلیان کشمیر امن پسند اور ترقی کے متلاشی ہے ۔اس عالمی کانفرنس میں دنیا کے قریب ایک سو ممالک کے مندوبین شرکت کرنے والے ہیں جبکہ بھارت نے غیر G20ممالک کو بھی مدعو کیا ہے اس کے علاوہ دیگر ممالک کے سرمایہ کار، صحافی اور سیاحت سے وابستہ عالمی سطح کی شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا ہے ۔ جو یہاں کے حالات کا خود مشاہدہ کرکے عالمی سطح پر کشمیر کے حالات کے بارے میں دنیا کو آگاہ کریں گے اور یہ بات یقینی طور پر اُن لوگوں کے گالوں پر ایک طماچہ ہوگا جو کشمیر کا نام لیکر دنیا بھر میں یہ ڈھول پیٹتے رہتے ہیں کہ ”کشمیر جل رہا ہے “ کشمیر میں خون خرابہ مار دھاڑ اور مخدوش حالات کی وجہ سے لوگ پریشان ہے “ دنیا کو ان کے جھوٹ کا علم ہوگا اور آئندہ ان کی بات پر کوئی کان دھرنے والا نہیں رہے گا۔ ان ممالک نے نہ صرف خود اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کیا بلکہ مسلم ممالک کے مندوبین کو بھی اس میں شرکت کرنے سے روکنے کی کوشش کی البتہ ان ممالک نے اس عالمی سربراہی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کرتے ہوئے کشمیر دشمن ممالک کے پروپگنڈا کو بے نقاب کردیا ۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ بھارت اور کشمیر دشمن ممالک نے جموں کشمیر میں آگ و آہن کا کھیل قریب تین دہائیوں تک جاری رکھا جس کی وجہ سے نہ صرف کشمیر کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے بلکہ یہاں کی تعمیرو ترقی بھی رُک گئی تھی۔ اس جی 20کانفرنس سے کشمیر کےلئے عالمی سیاحت کے دروازے کھل جائیں گے اور کشمیر کی چوکھٹ پر مضبوط معیشت دستک دے گی ۔ ہندوستان کو اس سربراہی اجلاس کی صدارت کا پہلی بار موقع ملاہے اور وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کے دارالخلافہ میں اس کانفرنس کے انعقادکرنے کے فیصلے سے یہ ثابت کردیا ہے کہ کشمیر ملک کےلئے کتنا اہم ہے اور جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ کشمیر میرے دل کے قریب ہے یہ ثابت بھی کردیا ہے ۔ ورنہ جموں میں بھی اس کانفرنس کی میٹنگ منعقد کرنے کےلئے ماحول بہتر تھا اور موسمی صورتحال کے لحاظ سے جموں بہتر تھا لیکن وزیر اعظم کا یہ فیصلہ صحیح ہے کیوںکہ اس عالمی سربراہی کانفرنس کے سرینگر میں منعقد کرنے کےلئے کشمیری لوگ بھی بہت بے چین ہیں اور ہر ایک کی زبان پر آج کل اسی کانفرنس کے بارے میں باتیں ہیں ۔ اس کانفرنس سے یہاںکے لوگوں کی کافی امیدیںوابستہ ہیں ۔ اس کانفرنس کے پُر امن اور خوشگوار ماحول میں منعقد کرنے میں مقامی لوگ بھی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔ کیوں کہ لوگوں کو معلوم ہے کہ G20اجلاس سے کشمیریوں کے کئی مسائل حل ہوں گے ۔ ایک ایسا وقت تھا جب کشمیر کا نام سنتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے ڈروانے خیالات آتے تھے اور غیر ملکی کیا ملکی سیاح بھی یہاں کا نام سن کر دوسری سیاحتی جگہوں کی طرف مڑ جاتے تھے لیکن آج کا وقت دوسرا ہے آج نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد وادی کا رُخ کررہی ہے اور اس عالمی سربراہی اجلاس کے بعد اور زیادہ بیرون ملکی سیاح وادی کی طرف راغب ہوں گے ۔ کشمیر دشمن عناصر نے کوئی کمی باقی نہیں چھوڑی تھی کشمیر کو کھنڈرات ، جہنم زار بنانے کےلئے لیکن ان کی یہ تمنا دل میں ہی دب کے رہ گئی کیوںکہ آج کا کشمیر ایک نیا کشمیر ہے جو اپنی باہیں پھیلائے جی ٹونٹی کے مندوبین اور مہمانوں کا انتظار کررہا ہے ۔