ملنگام بانڈی پورہ کشمیر/صوفی میڈیا سروسز۔منظور ظہور شاہ)
وادی کشمیر کے معروف صوفی بزرگ اور ولی کامل سید غلام رسول شاہ چشتی جنہیں ننگا باجی کے نام سے جانا جاتا ہے ،کا 68 واں سالانہ عرس روائتی جھنڈا چڑھانے اور دعایئہ مجلس کے ساتھ اختتام پزیر ہوا ۔ سید غلام رسول شاہ چشتی جو وادی کشمیر اوروادی سے باہر ننگا باجی کے نام سے مشہور ہیں،کے بارے میں بتایا جاتا ہےکہ وہ تقسیم برصغیر ہند وپاک سے قبل الائی خیبر پختون خان نیلی شنگ (موجودہ خیبر پختون) سے کشمیر آئے تھے ۔ سید شبیر احمد گیلانی سابق سینئر سپرانٹنڈنٹ پولیس جوکہ گدی نشین اول وننگا باجی صاحب کے فرزند سید ضامن شاہ چشتی کے داماد ہیں, نے بتایا کہ سید ننگا باجی صاحب جسے علم معرفت حاصل کرنے کا زبردست شوق تھاتقسیم ہند سے قبل جوانی میں اپنے والد سید مقبول شاہ کے کہنے پر گھر سے پیر مرشد کی تلاش میں نکلے ۔ ننگا باجی صاحب اس سے قبل برٹش آرمی میں ملازم تھے اور وہاں بھی سروس کے دوران اپنی روحانی کمالات دکھا چکے تھے ۔اور برٹش آرمی کی نوکری چھوڑدی۔سید
شبیرگیلانی نے بتایا کہ ننگا باجی صاحب تقسیم ہند سے قبل اپنے آبائی وطن خیبر پختون سے ہجرت کرکے نڈا مظفر آباد ( موجودہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کی راجدھانی) آئے اور یہاں اس وقت کے مشہور صوفی بزرگ سائیں محمد عظیم خان چشتی قادری کے مرید بن گئے اور ان کے حکم پر مختلف درگاہوں پر حاضری دیتے ہوئے جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے نالہ آورہ پہلگام میں قیام کیا ۔اور پیر مریدی شروع کی ۔یہاں عوام کو فیض حاصل ہوتا گیا۔ننگا باجی نے یہاں نکاح بھی کیا اور پیر مرشد کے حکم کے عین مطابق جنوبی کشمیر سے شمالی کشمیر کے اس جگہ ملنگام بانڈی پورہ منتقل ہوگئے یہاں اپنی خانقاہ بنائی اور کھیتی باڑی شروع کی۔
صاحب کرامت بزرگ سید غلام رسول شاہ چشتی کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ بہت جلالی بزرگ رہے ہیں اور علاقے کے صاحب ثروت لوگ ان کے مرید اور محب رہے ہیں یہاں تک کہ ان کے وصال سے قبل ملنگام میں موجود ان کی خانقاہ پر اس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیر اعظم مرحوم شیخ محمد عبداللہ اورنائب وزیراعظم مرحوم بخشی غلام محمد کے علاوہ صدر ریاست ڈاکٹر کرن سنگھ برابرحاضری دیتے تھے ۔
ملنگام کے ایک بزرگ شہری عبدل رزاق کا کہنا ہے کہ ہمارا یہ علاقہ پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں کے اکثر لوگ پتھروں کا منافع بخش کاروبار کرتے ہیں اور یہ سب صاحب مزار سید غلام رسول شاہ چشتی کی دعاوں اور فیض کی برکت ہے۔
غلام احمد گورسی نامی65 سالہ بزرگ زائر جو پہلگام سے آۓ تھے، نے بتایا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے میں اپنے والد کے ساتھ یہاں ہر سال عرس میں شرکت کرنے والد صاحب کے کندھوں پر سوار ہوکر آتا تھا۔ میرے بچپن میں ہمیں بانڈی پورہ قصبہ سے یہا ں پہاڑ پر پیدل چڑھنا پڑتا تھا۔ انہوں نے اپنے حادثے میں زخمی ہونے اور یہاں آکر بغیر کسی آپریشن کے ٹھیک ہونے کی کراماتی لمبی اور دلچسپ کہانی سنائی ۔ ان کے مطابق باجی صاحب نے جنوبی کشمیر میں اپنے قیام کے دوران ان کے گاؤں میں کئی دن عبادت کی تھی اور وہ جگہ اب بھی وہاں محفوظ ہے۔ گجر بکروال بورڈ کے ممبر رہے اس بزرگ نے جذباتی انداز ننگا باجی اور ان کے فرزند و پہلے گدی نشین سید ضامن شاہ کی کراماتیں بیان کیں ۔
پنجاب سے آئے سکھ زائرین کا ایک وفد بھی ننگا باجی کے سالانہ عرس میں شرکت کرنے کےلئے کشمیر کے اس دور دراز اور پہاڑی علاقے میں آیا تھا۔ جن کے لئے یہاں الگ سے لنگر کا انتظام کیا گیا تھا۔ درگاہ کے ایک منتظم نے بتایا کہ ہر سال کی طرح امسال بھی غیر مسلم زائرین کے قیام وطعام کے لئے الگ سے انتظام کیاگیاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ عرس تقریبات میں زائرین کو سہولیات فراہم کرنے اور انتظام و انصرام کے حوالے سے مقامی اور آس پاس کے علاقے کے نوجوانو ں نے اپنے نام پہلے ہی رضاکارانہ طور درج کرائے تھے۔اور رات دن زائرین اور عقیدت مندوں کی خدمت میں پیش پیش رہے۔
درگاہ کے صحن اور آس پاس کی عمارات کے علاوہ میدانوں اور ٹیلوں میں زائرین دوران ایام عرس خیمہ زن رہے اور صحت و صفائی کے لئے ضلع انتظامیہ بانڈی پورہ اور پولیس کے علاوہ مقامی فوجی یونٹ کے جوان نظر آئے ۔جب کہ نزدیکی میدانوں اور سڑکوں پر چھاپڑی فروشوں نے اپنا سامان دستیاب رکھ کر خوب منافع بخش کاروبار کیا۔ اس نامہ نگار نے پورے ملنگام علاقے میں روحانی منظر کے ساتھ ساتھ ایک میلہ لگا دیکھا۔ اور مقامی اور غیر مقامی لوگوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کووڈ کے دو سال کو چھوڑ کر وہ ہر سال عرس کے ایام میں یہاں اپنے ٹھیلے اور چھاپڑیاں سجاکر خوب کاروبار کرتے آئے ہیں ۔ میلے میں بچوں کے کھیل کود اور تفریح کے علاوہ خرید وفروخت کے سیکنڑوں اسٹال لگے تھے ۔جبکہ روائتی ڈھول اور بیڈ باجے بجانے والوں کی ٹولیاں بھی زبردست سرگرم پائی گئیں ۔
اور لوگوں کے علاوہ اس عرس میں جن شخصیات نے درگاہ پر حاضری دی ان میں سابق وزیر عثمان مجید ، اور سابق ممبران اسمبلی نظام الدین اور غلام محمد ناز شامل ہیں۔