پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں امراء، وزراءاورفوجی سربراہ و کمانڈر شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن اس ملک کی رعایا غریبی کے خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ خاص کر اگر ہم بات کریں پاکستانی فوج کی تو یہ فوج قوم و ملک کی خدمت کےلئے نہیں بلکہ اپنے عیش و آرام کےلئے وجود میں آئی ہے ۔ اس کے اعلیٰ سے ادنا تک فوجی افسران اپنے آپ کو مختلف علاقوں کے جاگیردار تصور کرتے ہیں ۔ اس فوج کے افسران نجی کمپنیاں چلارہے ہیں یہاں تک کہ فوج نے باضابطہ طور پر کارپوریٹ سیکٹر میں قدم جمانے شروع کردئے ہیں۔ ایک طرف پاکستان میں مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے تو دوسری طرف اس کے فوجی افسرن شاہ خرچیوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ پاکستانی نگران پنجاب حکومت نے ‘کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ’ کے لیے تقریباً 45,267 ایکڑ اراضی فوج کے حوالے کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔پاکستانی فوج کے لینڈ ڈائریکٹوریٹ نے حال ہی میں ریاستی حکومت کو خط لکھ کر ضلع بھکر میں 42,724 ایکڑ، خوشاب میں 1,818 ایکڑ اور ساہیوال میں 725 ایکڑ اراضی مانگی ہے۔، ملکی روزنامہ ڈان نے رپورٹ کیا۔20 فروری 2023 کے پنجاب حکومت کے نوٹیفکیشن اور 8 مارچ کو دستخط کیے گئے مشترکہ منصوبے کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے خط میں یاد دلایا گیا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ زمینیں فوری طور پر پاک فوج کے حوالے کر دی جائیں۔ اس مشترکہ منصوبے پر فوج، پنجاب حکومت اور کارپوریٹ فارمنگ میں کام کرنے والی نجی فرموں کے درمیان دستخط کیے گئے ہیں۔میڈیا رپوٹس کے مطابق 8 مارچ کو جے وی مینجمنٹ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے، یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس منصوبے کے لیے درکار ریاستی زمینیں فوری طور پر پاک فوج کے حوالے کر دی جائیں گی۔پاکستانی فوجی ذرائع نے بتایا کہ فوج اپنے وسائل کو ان منصوبوں کے انتظام کے لیے استعمال کرے گی، جن کا انتظام ریٹائرڈ فوجی افسران کریں گے۔اس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ پاکستانی فوجی افسران سبکدوشی کے بعد بھی فوج کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور اپنی شاہانہ زندگی کو جاری رکھنے کےلئے اس طرح کے منصوبوں کے حصے دار بنتے ہیں ۔ اس طرح سے عام لوگوں کو خاص کر کاشتکار وں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرکے اس پر فوج براہ راست قبضہ کررہی ہے ۔ا گرچہ فوج کا دعویٰ ہے کہ فوج کسی بھی زمین پر قبضہ نہیں کر رہی ہے بلکہ ‘ایک مربوط انتظامی ڈھانچے’ کو یقینی بنا رہی ہے۔ نجی شعبہ سرمایہ کاری کرے گا اور کھاد کی فراہمی سمیت مدد فراہم کرے گا۔تاہم زمینی سطح پر اگر دیکھا جائے تو فوج باضابطہ طو رپر اراضی پر قبضہ کرکے اس کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے ۔ اس طرح سے غریب لوگوں کو دانے دانے کا محتاج بنایا جارہا ہے۔ زرعی سیکٹر میں دخل اندازی کے علاوہ پاکستانی فوج کئی دیگر سیکٹروں پر بھی کنٹرول کررہی ہے جس میں دفاعی سازوسامان کی تیاری اور تجارتی کمپنیاں ، آئی ٹی سیکٹر وغیرہ شامل ہیں ۔ اس طرح سے پاکستانی فوج ایک ”رچ آرمی“ یعنی امیر ترین فوج کی صف میں شامل ہورہی ہے لیکن دوسری طرف اسی ملک کے عام انسانوں کی زندگی بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔اس ملک میں مہنگائی کا اس قدر غلبہ ہے کہ عام انسان دووقت کا کھاناکھانے کےلئے بھی ترس رہا ہے ۔ جہاں عام انسانوںکودیگر سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے وہیں فوجی افسران کو ہر چیز مئیسر رکھی جارہی ہے۔پاکستانی فوجی افسران اور ان کے اہلخانہ کی زندگی کو مزید عیاشیانہ بنانے کےلئے پاکستانی فوج شاپنگ مالز ، سنیما ہالز ، مریج ہالز ، وغیرہ بنارہی ہے جن سے حاصل شدہ آمدنی فوجی افسران اور ان کے اہلخانہ پر خرچ کی جارہی ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پاکستان فوج پیٹرول پمپ سے لیکر بڑی صنعتی پلانٹس بھی قائم کررہی ہیں تاکہ ان کی عیاشیوںپر خرچ ہونے والی رقومات کا بندوبست ہوسکے ۔ دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو عام لوگوں کو دو قت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی ہے ۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں آج بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں پر لوگوں کو نہ بجلی دستیاب ہے اور ناہی پینے کےلئے صاف پانی کا کوئی انتظام ہے ۔ ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ کمپوٹر اور سمارٹ فون تو دور کی بات موبائل کیا ہے ۔ ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی آج بھی قدیم طرز پر گزررہی ہے ۔ حال ہی میں پاکستان کے کئی شہروں میں سیلاب نے تباہی مچادی تھی لیکن ان متاثرہ علاقوں میں عام لوگوں کی راحت رسانی کےلئے نہ تو فوج نے ہی کوئی اقدام اُٹھایا اور ناہی سرکار کی طرف سے کوئی عملی اقدامات کئے گئے ۔ اس سیلاب کی وجہ سے بے شمار لوگ بے گھر ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں افراد روزی روٹی سے محروم ہوئے لیکن ان کی بحالی کےلئے کوئی بھی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ غرض یہ کہ ایک طرف پاکستانی فوجی افسران اپنے لئے عیاشی کا سامان تیار کرنے میں جٹی ہوئی ہے تو دوسری طرف اس ملک کے عام انسان جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔