پاکستان میں سیاسی خلفشار ، معاشی بدحالی اور کاشکار ہے اور یہ صورتحال کئی مہینوں سے چل رہی ہے بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے جب سے سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی حکومت کو معزو ل کیا گیا تب سے اس ملک میں کشیدگی کا ماحول بدستور جاری ہے ۔ اس صورتحال کے پیچھے پاکستانی فوجی ادارے ہے اور یہ بات حالیہ دنوں اُس وقت عیاں ہوئی جب پاکستانی عوام نے کھل کر عمران خان والی جماعت کے حمایتی نمائندوں کے حق میں ووٹ دیا تاہم اس کے باوجود بھی پاکستان انصاف تحریک حکومت بنانے میں ناکام ہوئی کیوں کہ پاکستانی فوج شریف اور بھٹو خاندانوں کے ساتھ ہے ۔ اگرچہ آئینی اور دستور طور پر 8فروری 2024کو انتخابات کرائے گئے تاہم ان انتخابات کے نتائج شکوک و شبہات کے دائرے میں آئے تھے کیوں کہ جمہوری طرز پر اگرچہ لوگوں نے عمران خان کے حق میں ووٹ دیئے تاہم اس کے باوجود بھی ان کے حق میں انتخابی فیصلہ نہیں آیا۔ اس وجہ سے پاکستانی فوج کی پالیسی ظاہر ہوئی اور جموری طرز عمل میں فوج کا عمل دخل صاف عیاں ہوا ۔بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں اور سیاسی ماہرین نے پہلے ہی پیش گوئی کی تھی کہ انتخابی نتائج نواز شریف اور زرداری امیدواروں کے حق میں آئیں گے اس کے باوجود بھی میڈیا اس بات کا اعتراف کررہا تھا کہ زمینی سطح پر عمران خان کی ساخت کافی مضبوط ہے ۔ تاہم اس کے باجود بھی نواز شریف اور زرداری کے حق میں انتخابی فیصلہ ہوگا کیوں کہ فوجی ادارے نواز شریف کو اقتدار پر بیٹھنے چاہتے تھے ۔ نواز شریف پر بے شمار رشوت خوری ، بدعنوانیوں اور دھاندلیوں کے مقدمات تھے جس کی وجہ سے انہیں نہ صرف جلا وطن کیا گیا تھا بلکہ ان کو چودہ سال کی قید بھی سنائی گئی تھی اس کے باوجود بھی قانونی طور پر ان کےلئے راہیں نکالیں گئیں اور ان کا پاکستان واپس آنے کےلئے را ہ نکالی گئی ۔ الجزیرہ انگریزی کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”شریف کی واپسی اور اس کے نتیجے میں ان کی قانونی قسمت میں تبدیلی، ان کے خلاف سزائیں ختم ہونے اور الیکشن لڑنے پر پابندیاں ہٹانا صرف اس لیے ممکن ہوا کہ فوج نے 2024 کے انتخابات میں ان کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔پاکستانی جمہوری اداروں کی جانب سے انتخابی مشق کو ملانا صرف ایک ڈرامہ تھا اصل میں انہیں عمران خان سے چھٹکارا حاصل کرنا اور نواز خاندان کو اقتدار سونپنا تھا ۔ لیکن اس کے منظم اقدامات سے عمران خان میں اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور ان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی نااہل قرار دینے کے لیے تقویت ملی۔ جیسے ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8 فروری 2024 کی پولنگ کی تاریخ مقرر کی۔اس سے قبل 16 دسمبر 2023 کے اعلان میں فوج کے زیر کنٹرول انوارالحق کاکڑ کی زیرقیادت نگراں حکومت نے تیزی سے کارروائیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کا مقصد پی ٹی آئی کی اہلیت اور انتخابی عمل میں بامعنی حصہ لینے کے لیے کو روکنا تھا۔ پہلے اقدام کے طور پر 22 دسمبر 2023 کوالیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات کو ”ہماری ہدایات“کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر ”غیر آئینی“ قرار دے کر عمران خان کی پارٹی کو ایک زبردست دھچکا پہنچایا۔ اس کے نتیجے میں انتخابی ادارے نے پی ٹی آئی سے اس کی مشہور انتخابی نشان ”بلے“ کو چھین لیا، جسے اس کی سیاسی شناخت پر براہ راست حملے کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ اس کے انتخابی امکانات کو نقصان پہنچایا جائے اور اسے ہمیشہ کے لیے پاکستان کے سیاسی منظر نامے دور رکھنا تھا۔سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور اس کی جماعت تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ایک اور جمہوری ادارے یعنی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تاہم پاکستانی فوجی اداروں کے قبضے میں نہ صرف جمہوری ادارے ہیں بلکہ پاکستانی عدلیہ بھی ان کی غلام ہے جس کے نتیجے میں عدالتی فیصلے نے یہ ظاہر کیا کہ کس طرح اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے خلاف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذاتی ناپسندیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کو ہٹانے کے ای سی پی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔تاہم ملک کی ایک عدالت پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ردکردیا اور 9جنوری 2024کو اپنے ایک غیر معمولی فیصلے میں تحریک انصاف کے حق میں بات کرتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ غیر قانونی ، اور غیر جمہوری ہے اور انتخابی نشان کو منسوخ کرنے کا اس ادارے کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں وہ بھی تب جب ایک دفعہ اس نشان پر عمران خان کی جماعت نے الیکشن لڑا اور حکومت بھی بنائی ۔ لیکن بد قسمتی سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد 13جنوری 2023کو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں عرضی دائر کی اور چیف جسٹس عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ای سی پی کے خلاف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ انتخابی ادارہ نہ تو ”پی ٹی آئی کا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کے لیے ”غیر منطقی وجہ“ سے کام کر رہا ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے پی ایچ سی کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے جس میں ‘سیاسی جماعتوں کو ان کے نشانات فراہم کر کے اپنے امیدواروں کو منتخب کرنے کے لوگوں کے حق کو برقرار رکھا گیا تھا۔اس نے عدلیہ کی غیر جانبداری کے خلاف سنگین شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے اور یہ بات یہاں بھی عیاں ہوئی کہ پاکستانی سپریم کورٹ بھی فوج کے زیر تسلط کام کررہی ہے جس کے نتیجے میں فوج کے اشارے پر آئین کے برخلاف بھی فیصلہ صادر کیا جاسکتا ہے ۔ سیاسی مبصرین اور غیر جانبدارانہ میڈیا اداروں نے اپنے تبصروں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ یہ فیصلہ آئینی اختیارات کا ناجائز استعمال ہے اور اس فیصلے میں شواہد و جمہوری حقوق کو بالائے طاق رکھ کر چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کی عمران خان سے ذاتی دشمنی کا عنصر زیادہ عیاں ہوتا ہے ۔ سرکاری اداروں اور خاص کرفوج کی جانب سے عمران خان کی جماعت کو نشانہ بنانے ، انہیں سوشل میڈیا پر تشہیر سے روکنے ، انتخابی نشان ختم کرنے اور قیادت کو اسیر بنانے جیسے اقدامات کے باجود بھی زمینی سطح پر اگر دیکھا جائے تو عمران خان کی جماعت کے حق میں لوگوںنے فیصلہ دیا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام اور عام لوگ پاکستانی عدلیہ سے کوئی انصاف کی توقع نہیں رکھتے ہیں اور فوجی جارحیت کے خلاف صف آراءہے اور انہوںنے جمہوری طرز عمل اپناتے ہوئے پی ٹی آئی کے نمائندوں کو چنا ہے ۔ انتخابات کے بعد پاکستان میں جو حالات و اقعات رونماءہوئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج اور اس کی قیادت اپنے مفادات کی خاطر جمہوری اداروں کو اپنا غلام بنارہی ہے اور یہ ان کی نااہلی ہے کہ فوج ایک ایسے شخص کو اقتدار دلانے کی کوشش میں رہی ہے جس کے خلاف ملک کے اثاثوں کو لوٹنے کے بے شمار مقدمات درج ہیں ۔ اگرہم پاکستان کے موجودہ حالات کا مشاہدہ کریں تو یہ بات بلکل صاف دکھائی دے رہی ہے کہ ان حالات کی ذمہ دار پاکستانی فوجی قیادت ہے جو اس ملک میں جمہوری طرز عمل کے خلاف شروع سے ہی رہی ہے ۔ فوجی ادارے جمہوریت کے استحکام کے لئے کبھی کا م نہیں کرتی ۔ حالیہ انتخابی نتائج نے ظاہر کیا کہ پاکستانی فوج عوام کی نظروں سے گر چکی ہے اورعوام میں اس کی شناخت ایک عامرانہ ادارے کی رہ گئی ہے ۔پاکستانی فوجی ادارے کی ان حرکات سے نہ صرف فوجی اندرونی خلفشار کی شکار ہوئی ہے بلکہ قیادت میںبھی غیر اعتباریت بن گئی ہے ۔