کرناہ :
ادھی ادھوری سڑکوں کی تکمیل کب مکمل ہوگی ?
سرحدی دھیات کے لوگ اشیائے ضروریات کاندھوں پر لیجانے پر مجبور ،سرکار کے بلندبانگ دعوے زمینی سطح پر سراب ثابت
پیرزادہ سعید
کرناہ //سرکاری سطح پر اس بات کے دعوے تو بہت کئے جا رہے ہیں کہ گائوں گائوں کو سڑک رابطوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے لیکن ان دعوئوں کی کلی سرحدی تحصیل کرناہ کے بلاک چھمکوٹ میں کھل جاتی ہے جہاں بیسوں دیہات کو جوڑنے والی سڑکوں کی تعمیر کو أدھورا چھوڑ دیا گیا ہے ۔اور آدھی سڑکیں مکینوں کےلئے باعث عذاب بن چکی ہیں ایسی سڑکوں پر گاڑیوں کا چلنا ایک خواب بنا ہوا ہے اور مسافر میلوں کا سفر پیدل عبور کرنے پر مجبور ہیں ۔کئی سال قبل چترکوٹ سے کھوڑیاں سڑک کا منصوبہ سرکار نے بنایا اس سے چامبرہ، ٹاڑیاں ،کلس اور دیگر بستیوں کے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا لیکن یہ سڑک صرف چند ہی کلو میٹر تعمیر ہوئی اور چامبرہ پڑی تک اس کو مشینوں کے زریعے نکال کر اس کی تعمیر روک دی گئی اب یہ سڑک برسوں سے تعمیرکی منتظر ہے اور یہاں کی آبادی کو میلوں دور سے چترکوٹ اور دیگر علاقوں تک پہنچنا پڑتا ہے خاص کر مریضوں کو لوگ کاندھوں پر أٹھا کر چترکوٹ اور گھنڈی گجراں تک لاتے ہیں ننے منے بچے پیدل اسکولوں تک پہنچتے ہیں لیکن سڑک کی مکمل تعمیر کے حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے ۔ادھر 12 سال گزر جانے کے باوجود سکھ بریج کی تعمیر بھی مکمل نہیں ہو سکی اور نتیجے کے طور پر بادرکوٹ اور اس کے ملحقہ علاقوں کے لوگ طلباء وطالبات تھمڑیاں اور ہیبکوٹ سے اپنے گائوں تک پہنچنے پر مجبور ہیں ۔۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے اس پل کے ذریعے بادرکوٹ کے لوگ ٹنگڈار اور ٹیٹوال پہنچے تھے یہ پل 1965میں قلندر میر لمبردار نامی شہری کی سربراہی میں مقامی لوگوں کی مدد سے تعمیر کیا گیا لیکن چند سال قبل اس پل کو اس غرض سے وہاں سےمنہدم کیا گیا تاکہ یہاں نئے پل کی تعمیر ہو پل کی تعمیر کےلئے تین کروڑ روپے خرچ کئے جانے تھے لیکن ابھی تک پل کے ضرف دو پلر ہی کھڑے ہو سکے ہیں اور باقی کام پائے تکیمل تک پہنچنا ناممکن لگ رہا ہے ۔یہی نہیں بلکہ کئی سال قبل گھنڈی سیداں اور گھنڈی گجراں دیہات کو درگڑ گائوں کے ساتھ جوڑنے کےلئے گھنڈی درگڑ سڑک کی تعمیر مکمل ہوئی لیکن بدقسمتی سے سڑک اس قدر خستہ حال ہے کہ اس پر گاڑیاں تو دور مال مویشی بھی چلنے سے کتراتے ہیں اور سرکار صرف دو کلو میٹر اس سڑک کو بہتر بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہے ۔اسی طرح بٹلاں سے کڑہامہ سڑک بھی تعمیر کی منتظر ہے حالانکہ انتظامیہ نے دو سال قبل یہ دعوی’ کیا تھا کہ سڑک کی تعمیر کےلئے محکمہ جنگلات کی این او سی طلب کی جا رہی ہے لیکن دو برس گزر جانے کے باوجود بھی نہ این او سی ملی نہ سڑک تعمیر ہو سکی ۔اسی طرح مقام سرما پڑی سڑک کی تعمیر میں تاخیر بھی مقامی لوگوں کےلئے بڑی پریشانی کا سبب بن رہی ہے اور سڑک کی خستہ حالت کے نتیجے میں لوگوں کو پیدل سفر کرنا پڑتا ہے ۔معلوم رہے کہ سال 2018میں 29لاکھ روپے کی لاگت سے مڈل اسکول چنی پوری سے سرما پڑی تک 1.5کلو میٹر سڑک کی تعمیر کا کام محکمہ تعمیرات عامہ نے شروع کیا اس دوران مشین کو استعمال میں لاکر اگرچہ تھوڑا بہت کام کیا گیا لیکن مکمل تعمیر ابھی بھی لوگوں کےلئے ایک خواب بنی ہوئی ہے ۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ محکمہ آر اینڈ بی اور پی ایم جی ایس وائی سڑکوں کی مرمت میں لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں ۔کرناہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پہلے تو کوئی پروجیکٹ شروع ہی نہیں ہوتا اور اگر کوئی شروع بھی ہو جائے تو أن کی تکیمل میں دہائیاں لگ جاتی ہیں ان دیہات کے مکینوں کی مشکلات آسانی سے بیان ہی نہیں کی جا سکتی ۔آج کے اس جدید دور میں جہاں مریض کاندھوں پر اٹھا کر ہسپتالوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ وہیں طلباء وطالبات میلوں کا سفر طہہ کر کے اسکولوں تک پہنچتے ہیں۔ اشیائے ضروریات گھوڑوں کی پیٹ پر لاد کر ان گائوں تک پہنچائی جاتی ہے اور سرکار ان علاقوں کی طرف دھیان دینے کے بجائے زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہے کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے ۔مقامی لوگوں نے سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ سڑکوں کی تعمیر پر خصوصی دھیان دیا جائے تاکہ لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔