کشمیر کے علاقے میں ہندوستانی فوج کی موجودگی طویل عرصے سے شدید بحث اور چھان بین کا موضوع رہی ہے۔ سیاسی پیچیدگیوں اور عسکریت پسندی کی وجہ سے درپیش چیلنجوں کے درمیان، ایک پہلو جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ ہے ہندوستانی فوج اور کشمیری شہریوں کے درمیان تعلق، جو کہ “ہمسایا” کے تصور کے تحت بنایا گیا ہے، ایک اردو اصطلاح جس کا مطلب پڑوسی ہے۔ یہ مضمون کشمیر کے لوگوں کے لیے ایک ہمسائیہ کے طور پر ہندوستانی فوج کے کثیر جہتی کردار کی کھوج کرتا ہے، جس میں سلامتی، ترقی اور انسانی ہمدردی کی کوششوں میں ان کے تعاون پر توجہ دی گئی ہے۔وادی کشمیر ہندوستان او رپاکستان کے درمیان طویل عرصے سے تنازعے کا باعث رہی ہے اور بھارت کی تقسیم کے ساتھ ہی یہ تنازعہ اُس وقت شروع ہواجب 1947میں ہندوستانی فوج یہاں تعینات ہوئی ۔ بھارتی فوج کی کشمیر آمد کے بعد تب سے لگاتار پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں اور سرحدوں پر گولہ باری کرتے آئے ہیں ۔ اس کے علاوہ کشمیر کی اندرونی حفاظتی صورتحال کو بگاڑنے کےلئے پاکستان نے دہشت گردی کے ذریعے کئی کوششیں انجام دیں ہیں۔ کشمیر میں فوج کی تعیناتی صرف حفاظتی ذمہ داریوں تک ہی محدود نہیں رہی ہے بلکہ عوام کے ساتھ قریبی رابطہ بنائے رکھتے ہوئے فوج وقت وقت پر عوامی جان و مال کے تحفظ اور آفات کے وقت ان کی بھر پور مدد کرنے میں اہم کردار اداکرتی ہے ۔ پاکستان کی سپانسر شدہ ”دہشت گردی “ کو ختم کرنے کےلئے فوج نے کشمیر میں کئی ملٹنسی مخالف آپریشن چلائے ہیں جن میں ”آپریشن آل آوٹ“ بھی ایک رہا ہے ۔ اس آپریشن کے تحت خطے میں ملٹنسی کے مکمل خاتمہ کی کوششوں کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کو زیادہ سے زیادہ محفوظ ماحول فراہم کرنے میں فوج نے اس آپریشن کو انجام دیا ہے۔ اس آپریشن کے تحت عوام کو تحفظ فراہم کرنے کےلئے اور دہشت گردوں کے خوف کو کم کرنے کےلئے چیک پوائنٹس قائم کئے گئے ۔ فوجی گشت بڑھایا گیا اور جنگجو مخالف آپریشنوں کو تیز کردیا گیا جس کی وجہ سے کشمیر میں امن و امان قائم ہوا ۔ فوج نے نہ صرف ”دہشت گردوں “ کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں بلکہ لوگوں کو دہشت گردی کے خوف سے محفوظ رکھا اور ان میں ایک حوصلہ پیدا کیا ۔ کشمیر میں تعینات فوج نے نہ صرف کشمیری عوام کے مال و جان کی حفاظت کی ذمہ دار نبھائی ہے بلکہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کے علاوہ فوج نے عوام کی فلاح و بہبود اور بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی کےلئے بھی کام کیا ہے ۔ سدبھاونا پروجیکٹ جیسے اقدامات نے فوج کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، تعلیم کو بڑھانے اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے مختلف سرگرمیوں میں مصروف دیکھا ہے۔ ان منصوبوں میں دور دراز علاقوں میں اسکولوں، پلوں اور سڑکوں کی تعمیر شامل ہے، جو نہ صرف بہتر رابطے کی سہولت فراہم کرتے ہیں بلکہ خطے میں معمول اور ترقی کے احساس کو بھی فروغ دیتے ہیں۔دور دراز علاقوں میں خستہ حال سڑکوں ، پینے کے صاف پانی کا بندوبست جیسے اہم کام انجام دیتے ہوئے ایک انسانی فریضہ انجام دیا ہے ۔ فوج کی جانب سے دور دراز علاقوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کےلئے بھی کاوششیں کی گئیں جن میں آرمی گڈ ول سکول قائم کرکے فوج نے اہم کردار ادکیا ہے ۔ یہ اسکول دور دراز اور تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتے ہیں جس کا مقصد مقامی نوجوانوں کی ترقی اور انہیں بہتر مواقع فراہم کرنا ہے۔ ان سکولوں میں بچوں کی ذہن سازی اور ان کو معیاری اور جدید علوم سے آراستہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ ان علاقوں کے بچے عصری دور میں کسی چلینج کا سامنا کرنے میں دشواریاں پیش نہ آئیں اور تعلیمی میدان میں وہ دیگر بچوں کی طرح آگے رہیں۔ اس کے علاوہ فوج کی جانب سے دور دراز علاقوں کے لوگوں کو طبی سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہے ۔ اس ضمن میں فوج میڈیکل کیمپ اور خون کے عطیہ کی مہم چلاتی ہے، اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کی خدمات انتہائی ناقابل رسائی علاقوں تک بھی پہنچیں۔ فوج کی جانب سے منعقدہ اس طرح کے کیمپوں میں مریضوں کو مفت ادوات اور علاج و معالجہ فراہم کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ میویشوں کے علاج کےلئے بھی فوج سدبھاﺅنا سکیم کے تحت وٹرنری کیمپ لگائے جاتے ہیں ۔ اتناہی نہیں بلکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال اور آفات سماوی کے دوران بھی ہندوستانی فوج عوام کو راحت پہنچانے اور ان کے مال و جان کو تحفظ فراہم کرنے میں رول اداکرتی ہے ۔ چاہئے وہ شدید بارشیں ، برفباری ہو، طوفانی ہواﺅں سے ہوئے نقصانات ہوں یا تباہ کن سیلاب ہو یا زلزلہ ہوں فوج نے ہمیشہ سے ہی لوگوں کی مدد کی ہے ۔ سال 2014میں آئے تباہ کن سیلا ب کے دوران فوج نے بچاﺅ کارروائیاں شروع کرتے ہوئے لوگوں کو گھروں سے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا ، ان کو امدادی سامان فراہم کیا اور اس آف کے دوران لوگوں کی صحت سے متعلق کارروائی بھی فوج نے شروع کی تھیں۔ فوج کی جانب سے ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے ساتھ قریبی تال میل قائم کریں اور ان کی ناراضگی کو کم کرنے کی کوششیں کریں اس کےلئے فوج کی جانب سے عام شہریوں مختلف پروگرام منعقد کئے گئے جن میں نوجوانوں کےلئے کھیل کود کی سرگرمیوں اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے کے اقدامات شامل ہے ۔ ان اقدامات سے فوج مقامی لوگوں کے قریب گئی اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ فوج اپنی ذمہ داروں کے علاوہ خطے میں سیکورٹی کے چلینج سے نمٹنے کی کوشیش جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم اس کے باوجود بھی فوج کو تنقید کا سامنا رہا ہے خاص کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے فوج پر انگلیاں اُٹھائی جارہی ہے اور آرمڈ فورسز سپیشل ایکٹ نے فوج اور لوگوں کے مابین تعلقات میں تناﺅ پیدا کیا ہے ۔ فوج کےلئے حفاظتی اقدامات اور شہریوں کے ساتھ تال میل بنائے رکھنے میں ابھی بھی کئی طرح کے چلینج ہے ۔فوج نہ صرف سرحدوں اور خطے کے اندر امن و امان کےلئے کام کررہی ہے بلکہ کشمیری عوام کےلئے ایک بہترین ہمسایہ کے طور پر بھی اپنا کردار اداکررہی ہے ۔