وادی کشمیر جس کو قدرت نے بھر پور وسائل سے نوازا ہے میں نہ جنگلی حیات ، چرندوپرند ، آبی حیات کےلئے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے یہاں پر بلند و بالا پہاڑ، برفیلی چوٹیاں، گھنے جنگلات، آسمان سے باتیں کرتے دیودار کے درخت حیات کےلئے ایک آب حیات کی مانند ہے ۔ حمالیائی خطے کے بیچ میں جنت نماءاس علاقے میں مختلف اقسام کے جنگلی جانور پائے جاتے ہیں ۔ یہاں کے مشہور جنگلی جانوروں میں برفیلی چیتے جو برفیلی پہاڑیوں میں قیام کرتے ہیں اور دنیا میں مخصوص علاقوں میں یہ پائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح یہاں کے سر سبز چراگاہوں کی رانی کہلائی جانے والی ہرن جس کو یہاں پر ہانگول بھی کہا جاتا ہے ایک نایاب جانور ہے جو سرخ نسل سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہانگول کشمیری جنگلات کی ایک نایاب جانوروں کے اقسا م میں سے نمایاں خصوصیت رکھتا ہے ۔ برفیلی علاقوں میں ایک اور جانور بھورے ریچھ کی بھی کافی اہمیت ہے ۔ ”بھورا ریچھ “ کافی نایاب جانور ہے اور جنگلی ریچھوں میں یہ کافی کم دکھتا ہے تاہم وادی کشمیر کی برفیلی پہاڑی علاقوں میں بھورے ریچھ بھی پائے جاتے ہیں ۔وائلڈ لائف سے گہرائی سے دلچسپی رکھنے والوں کےلئے کشمیری جنگلی حیات کافی پسندیدہ ہے ۔ جہاں جنگلات میں نایاب اقسام کے جانور پائے جاتے ہیں وہیں یہاں کی فضاءمیں بھی نایاب قسم کے پرندے پائے جاتے ہیں جن میں شتر مرگ، پیرا گن ،مار کھور، اور دیگر ایسے پرندے ہیں اس کے علاوہ سائبریا سے آنے والے درجنوں اقسام کے لاکھوں پرندوں کےلئے بھی یہاں کی آبی پناہ گاہیں خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں۔ جہاں پورا خطہ جنگلات اور پہاڑیوں سے گرا ہوا ہے وہیں سرینگر میں داچھی گام نیشنل پارک میں ایسے جنگلی جانور پائے جاتے ہیں جو نایاب ہے ان میں ایک بڑی تعداد ہانگل ، بھورے ریچھ اور دیگر جانور موجود ہیں ۔ داچھی گام کی اس نیشنل پارک نے نایاب جنگلی جانوروں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کی ہے جس کے نتیجے میں یہاں بہت سے جانوروں کو لفت ہونے سے بچالیا گیا ہے ۔ جنگلات کے علاوہ کئی ایک آبی پناہ گاہیں بھی ہیں جہاں پر پرندوں اور آبی حیات کو پناہ ملتی ہے ۔ ان آبی پناہ گاہوں میں ہوکر سر، ولر جھیل، مانسبل جھیل وغیرہ شامل ہے جہاں پر ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پرندے سائبریائی خطوں سے آکر پناہ لیتے ہیں ۔ یہ آبی پناہ گاہیں نہ صرف پرندوں اور آبی حیات کےلئے محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر کام کرتی ہیں بلکہ یہ ماحولیاتی سیاحت کےلئے بھی مواقع فراہم کرتی ہے جبکہ یہ جھیلیں پانی کو صاف و شفاف رکھنے میں بھی اہم رول اداکرتی ہے ۔ جہاں وادی کشمیر میں جنگلی اور آبی حیات اس خطے کےلئے ایک انمول سرمایہ ہے وہیں ان مخلوقات کو کئی چلینجوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کئی جانوروں کے اقسام ختم ہورہی ہے۔اس کی بڑی وجہ ہے کہ جنگلی اراضی پر تیزی کے ساتھ آبادی کا بڑھتا تناسب اور آبی ذخائر پر ناجائز قبضہ ہے ۔ جنگلی اور دور دراز علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر ، اونچی اونچی عمارات ، ہوٹل اور دیگر ڈھانچوں کی تعمیرات سے جنگلی اراضی سکڑ رہی ہے اور جنگلی حیات کا قافیہ تنگ ہورہا ہے ۔ اس سے نہ صرف جنگلی حیات کا توازن بگڑھ رہا ہے بلکہ ماحولیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ان چیلنجوں کو کم کرنے اور انسانوں اور جنگلی حیات کے پائیدار بقائے باہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے تحفظ کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کےلئے کئی این جی اوز بھی سامنے آرہی ہیں جو جنگلی حیات کے تحفظ کےلئے اقدامات اُٹھارہی ہے ۔ خاص طو رپر کشمیر کی اہم نشانی ہانگل کے تحفظ کےلئے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں سرکاری سطح پر اس ضمن میں متعدد منصوبوں پر عمل درآمد جاری ہے ۔ وادی کشمیر کے جنگلات میں نایاب جانور ہرن کے وجود کو بھی خطرہ پہنچا ہے اور ان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ۔جنگلی حیات کےلئے بحالی کے اقدامات اور ان کو تحفظ فراہم کرنے کے منصوبوں کی وجہ سے جنگلی جانوروں کا تحفظ ممکن بن گیا ہے ان اقدامات سے نہ صرف جنگلی جانوروں کے قیام کی جگہیں دستیاب ہورہیں بلکہ ایسے جنگلی جانوروں کی تعداد دوبارہ بڑھنے کے امکانات بھی پیدا ہورہے ہیں جو مختلف وجوہات کی بناءپر ختم ہونے کی کگار پر پہنچ چکے ہیں ۔ جہاں تک کشمیر کی مقامی آبادی کا تعلق ہے تو جنگلات اور جنگلی جانوروں کے ساتھ آبادی کا قریبی تعلق ہے کیوں کہ دور دراز علاقوں میں خاص کر جنگلاتی علاقوں میں کاشتکاری اور چراگاہیں موجود ہیں جس کے باعث جنگلی جانوروں اور انسانوں کا آمنا سامنا ہوتا رہتا ہے ۔ لوگوں کی اکثر شکایت رہتی ہے کہ جنگلی جانوروں ان کی فصلوں کو نقصان پہنچارہے ہیں جبکہ جنگلی جانور چراگاہوں اور کھیتوں میں کام کرنے والوں پر حملے بھی کرتے ہیں تاہم اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جنگلی اراضی کی طرف شہر کاری کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے جنگلی حیات کے پناہ گاہیں تنگ ہوتی جارہی ہے ۔ اس معاملے کو سلجھانے کےلئے انسانوں اور جنگلی حیات کے مابین ایک بہتر فاصلہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں مخلوقات اپنی اپنی جگہ محفوظ رہ سکیں اور ایک توازن برقرار رہیں۔ جنگلی حیات کو جہاں انسانی مداخلت سے خطرہ لاحق ہوا ہے وہیں موسمیاتی تبدیلی بھی ایک وجہ بن رہی ہے ۔ بے موسم برفباری ، بارشیں اور شدید گرمی کے نتیجے میں جنگلی حیات بھی متاثر ہورہی ہے ۔ طویل خشک سالی سے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ گلیشیر پگھلنے کی وجہ سے پانی کے ذرائع سکڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے آبی حیات کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر کے اس قدرتی سرمایہ کی قدر کی جائے اور اس کے تحفظ کےلئے ان قدامات پر عمل کئے جائیں جو سرکار کی جانب سے جنگلی حیات کے تحفظ کےلئے اُٹھائے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلی حیات اور قدرتی ماحول کے بارے میں عوام میں زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم آج کشمیر میں پائے جانے والے جنگلی حیات کے تحفظ کےلئے اقدامات نہیں اُٹھاتے اور حکومت کے ساتھ اس معاملے میں تعاون نہیں کریں گے تو آنے والی نسلوں کو جنگلی حیات کا مشاہدہ کرنا صرف کتابوں میں ہی دکھنے کو ملے گا۔ اس لئے جنگلی اور آبی حیات کے تحفظ کےلئے ٹھوس اقدامات اُٹھائے جائیں ۔