وادی کشمیر اپنی بے بناہ خوبصورتی ، طلسماتی وادیوں، آبشاروں ، کوہساروں اور سبز زاروں کی وجہ سے دنیا میں جنت کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس جگہ نے دنیا بھر کے مصوروں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور قلمکاروں کو مسخر کیا ہے ۔ یہاںکا ذرہ ذرہ اپنی ایک الگ کہانی بیان کرتا ہے ۔ کشمیر کی خوبصورتی کو اپنی آنکھ میںقید کرنے کےلئے فوٹو گرافی ایک اہم ذریعہ ہے اور چند برسوں میں دنیا بھر میں فوٹو گرافی دنیا کو پیغام پہنچانے کےلئے ایک اہم ذریعہ رہا ہے جس نے یہاں کی خوبصورتی کی داستان اپنے کیمرے کی آنکھ میں بند کرکے دنیا کو اس کا مشاہدہ کرایا ہے ۔ فوٹو گرافیروں کے کیمروں کی آنکھ نے جو داستانیں رقم کی ہیں انہوںنے بالی ووڈ کو مختلف طریقوں سے اُجاگر کرتے ہوئے کشمیر میں خوبصورتی کو برقرار رکھا ۔ کشمیرو ادی کی خوبصورتی جو قدر کی شاہکار ہے فوٹو گرافیوں کےلئے دلچسپی کا مظہر ہے کیوں کہ وادی کشمیر کی بلند و بالا برفیلی چوٹیاں،سر سبز و شاداب ڈھلوان، سکون سے بھرے دریاء، چھم چھم کرتے جھرنے ، آسمان سے باتے کرتے دیودار کے پیڑ، اپنے سائے میں مشہور چنار درخت ، مختلف اقسام کے چرندوپرند، نایاب اقسام کے جنگلی حیات ، سرینگر میں زبرون پہاڑیوں کے دامن میں واقع ٹولپ گارڈ، جھیل ڈل کا پانی ، مغل باغات کی خوبصورتی، موسم سرماءمیں سفید چار میں لپٹی وادی اور موسم خزاں میں چنار کے درختوں سے گرتے ، لال، ہرے ، پیلے اور سنہرے پتے غرض یہاں کے ذرہ ذرہ میں خوبصورتی نکھر رہی ہے جو فوٹو گرافیوں کےلئے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کےلئے ان کو ترغیب دیتے ہیں۔ وادی کشمیر کی ان خوبصورت مواقعوں کو ایک کہانی کی شکل دینے میں پورٹ ٹریٹ فوٹو گرافی اہم کردار اداکرتی ہے۔ عمر رسیدہ افراد کے ماتھے کی خشک لیکروں کی ان کی زندگی کی دردبھری داستان ان کے سنہرے پل اور دلکش یادوں کو دوہراتے ہیں ۔ جبکہ بچوں کی مسکراہٹ ، ان کے کھیلتے ہوئے عکس ان کے مستقبل کے امید کو ظاہر کرتے ہیں۔ کشمیر میں کئی نامی گرامی فوٹو گرافروں نے عالمی سطح پر اپنی پہنچان بنالی ہے ۔ انہی فوٹو گرافروں میں ”جاوید ڈار“ جو کہ ایک تجربہ کار فوٹو گرافر ہے نے کشمیر ی ثقافت ،لوگوں کی طرز زندگی،خانہ بدوش گوجر قبائل سے لے کر روایتی دستکاریوں کو زندہ رکھنے والے کاریگروں تک کی دستاویزی تصویر کشی کی ہے۔ فوٹو جرنلزم نے کشمیر کے حقائق کو عالمی سامعین تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خطے کی پیچیدہ سماجی و سیاسی صورتحال بہت سے فوٹو جرنلسٹوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے جنہوں نے صورتحال، اس کے لوگوں کی لچک اور امن کی خواہش کو دستاویزی شکل دینے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالی ہیں۔اسی طرح ”امی وٹالی “ فوٹو جرنلسٹ نے اپنے کام سے دنیا کو متاثر کیا ان کی عکاسی نے بے زبان لوگوں کو آواز دی اور بے جان اشیاءمیں جان ڈالی ہے ۔ فوٹو گرافر جب کسی چیز ، لمحہ اور واقعات کو اپنے کیمروں میں قید کرلیتا ہے تو یہ اس جگہ ، اس لمحہ اور اس چیز کی کہانی خود بہ خود بیان کرتا ہے جو دیکھنے والوں کو گہری سوچ میں ڈال دیتا ہے اور ان کے سامنے اصل منظر پیش کرتا ہے ۔
وادی کشمیر میں کہانی سنانے اور سننے کا رواج قدیم زمانے سے ہے چلتا آرہا ہے اس کو عرف عام میں ”ویر“ کہا جاتا ہے یہ ایک کہانی سنانے کا قدیم فن ے جو نسل در نسل منتقل ہورہا ہے ۔ یہ کہانیاں اکثر موسیقی اور رقص کے ساتھاس خطے کی لوک داستانوں، افسانوں اور تاریخ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ جیسے کہ ہر چیز میں جدت آرہی ہے ۔ کہانی کاروں نے بھی اپنے طرز میں جدیدیت لائی ہے ۔ موجودہ کہانی کارورںنے اس فن کو زندہ رکھنے کےلئے موجودہ دور کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس فن کو زندہ رکھنے میں اہم رول اداکیا ہے ۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی آمد نے کشمیر میں کہانی سنانے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم ایسی جگہ بن گئے ہیں جہاں کشمیری کہانی کار اور فوٹوگرافر اپنا کام عالمی سامعین کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔فوٹو گرافر اور کہانی کار کشمیر کی خوبصورت کو عالمی سطح پر عروج بخشا ہے ۔
جہاں تک بالی ووڈ فلم انڈسٹری کی بات ہے تو یہ فلم انڈسٹری کشمیر سے قدیم زمانے سے واقف ہے اور انڈسٹری نے کئی ایک نامور فلموں کی عکس بندی کشمیر کی خوبصورت وادیوں میں انجام دی ہے۔ اس خطے کے دلکش مناظر اور رومانوی ماحول نے متعدد مشہور فلموں کے پس منظر کے طور پر کام کیا ہے، جس نے سیاحتی مقام کے طور پر اس کی رغبت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بالی ووڈ کی متعدد فلموں جن میں 1964میں بنائی گئی ” کشمیر کی کلی “1973میں عکس بند کی گئی ”بوبی“ فلموںنے اپنے وقت میں خوب تعریفیں حاصل کیں ۔گلمرگ ، پہلگام اور دیگر جگہوں پر فلم سازوںنے مختلف فلموں کی شوٹنگ انجام دی ہے ۔ جیسے کہ 2012میں ”جب تک ہے جان“ سال 2014میں بنائی گی ”حیدر“جو ہدایت کار وشال بھردواج رہے ہیں اس فلم نے کشمیر کے بارے میں اصل حقائق کو منظر عام پر لانے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اہم اور نازک معاملات کی تصویر کشی کی ہے ۔ اس طرح سے فوٹو گرافری نے کشمیر کی اپنی وابستگی کو ظاہر کرتے ہوئے اپنا کردا ر اداکیا ہے۔
فوٹوگرافی اور کہانی سنانے کا کشمیر میں سیاحت پر خاصا اثر ہے۔ یہاں کی خوبصورتی فوٹو گرافروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں کیوں کہ فوٹو گرافروں کےلئے یہاں پر فلمانے کےلئے بہت کچھ ہے جو وہ اپنے کیمروں کی آنکھ میں بند کرلیتے ہیں۔ یہاں آنے والے سیاح ، ٹرول بلاگرز اپنے سفر کی یادوں کو اپنی کہانیوں کے ذریعے دنیا کے سامنے رکھتے ہیں جو دوسروں کو یہاں آنے کی ترغیب دیتے ہیںاور یہ عمل سیاحت کے فروغ کےلئے اہم ثابت ہورہا ہے ۔ سیاحت نہ صرف کشمیری خوبصورتی سے لوگوں کو آشنا کرتی ہے بلکہ یہ معیشت کےلئے ایک اہم وسیلہ ہے یہ لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے اور مقامی آبادی کےلئے ذریعہ معاش بنتی ہے ۔ غرض فوٹو گرافی کشمیر میں ایک نئی نئی کہانیاں لکھتی ہے اور دنیا کو کشمیر سے متعلق ان باتوں کو ظاہر کرتی ہیں جن سے دنیا ناآشنا تھی۔ فوٹو گرافری اور کشمیر کی خوبصورتی کے مابین ایک گہرا بندھن ہے ۔ جو موجودہ دور میں اور زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔