شیر شیران۔
سرینگر۔۔
جے کے نیوز سروس
سرینگر کے مشھور جھیل ڈل اور نشاط شالمیار باغات کے درمیان موجود، ثقافت اور کشمیری فن تعمیر میں نمایاں نام کمانے والئے سرکاری ھوٹل۔ایس کے آئی سی سی میں نیشنل بک ٹرسٹ،
سنٹرل منسٹری آف اسکول ایجوکیشن، اور اردو ایکاڈیمیوں کے مشترکہ اہتمام سے سال ھا سال بعد اپنی نوعیت کے تاریخی کتاب میلے کا انعقاد کیا گیاتھا۔تاکہ کتب بینی سے دلچسپی رکھنے والئے طلاب، اورعلمی ادبی اور دوسرے علوم میں لگاو رکھنے والئے تمام قارئین کرام کے لئے لاکھوں کتابیں ملک بھر سے سرینگر پہنچائی گئی ہے۔ غور طلب یہ کہ سال2011، کے بعد دوسری مرتبہ عالمی نوعیت کا کتابیں میلہ منعقد کرنا یہاں کے تعلیم یافتہ طبقے کو ہاتھ میں موبائل لکے بدلے کتاب رکھنے کی کوشش میں سجایا گیا تھا لیکن یہاں اسکے برعکس نتائج دیکھے گئے۔ درحقیقت کہ
کتاب فروخت کرنے کی مطلوبہ سٹال حاصل کرنے خاطر درجنوں ایسے خواہش مندوں کو میلے سے قبل دور دور سے تگ دو کرنی پڑھی۔ یوں وادی کے تینوں خطوں کے علاوہ پورے ملک سے تعلق رکھنے والے حربوں کے پبلشر، بک سیلر، اور ایسے دوسرے کتب فروش، کشمیر کے پرفضا ماحول میں ہرقسم اور سائیز کی کتاب ساتھ لاکر یہاں کے کتاب میلے میں فروخت کرنے کی نیت سے بڑی امید لیکر مذکورہ مقام پر دوکانیں لگا بیٹھیں۔ سرینگر سے تعلق رکھنے والے ایک معروف ناشر نے نمایندے کو بتایا کہ وہ بس مایک پر قلمکاروں کی تقریریں اور روایتی افسانے اور وھی مشاعرے سنتا رہتا ھوں، دراصل یہ غلط جگہ کا انتخاب کیا گیا ھے۔ بچے تو آتے ھے مگر تماشا دیکھنے چلے جاتے ادبی دنیا اور کتابی صنف سے تعلق رکھنے والئے اگر کچھ لوگ آیئے بھی بس فوٹو شیشن کے واسطے۔ کرناٹک کے انگریزی پبلشر نے کہا کہ کشمیر کے ایکس بیوشن میں سامان لگاکر،پانچ روز گذرنے کے بعد بھی کوئی دس فیصدی کام بھی نہیں ھوا۔ ھر چند کہ ریاستی کلچرل ایکاڈیمی، اور تمام دوسرے بڑے سرکاری اداروں یا پریویٹ پبلشروں نے اپنی دوکانیں سجائی اورباھر سے ایئے ھویئے کتب فروشوں سے زیادہ مال دستیاب رکھا ھے تاھم مشاہدے میں آیا کہ اس مرتبہ بھی یہ کتاب میلہ غیر موضون جگہ پر منعقد کیا گیا جسکے سبب یہ کوشش پبلشروں کو مذید نقصان اٹھانے کی دہلیز تک چھوڈ دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔ محمد مقبول جو کہ اوڈی کے اسکول ٹیچر ھے اور طلاب لیکر آئے تھے۔ نے بتایا کہ مجھے تو لال چوک میں نمایش گاہ، ٹیگور حال یا شیر کشمیر پارک کا ایڈرس معلوم تھا لیکن یہاں سے مایوس اور مجبور ھوکر ایک پریویٹ گاڈی لیکر ایس کے آئی سی سی دریافت کرنے میں کولمبو، بن گیا۔ دریا گنج نئی دھلی کے نامور ایک پبلشر نے بتایا کشمیری ادبا، شعراء کرام کاتو بس شکریہ ادا کرتا ھوں کہ کم سے کم انکی آمد کی وجہ سے ان دنوں بہترین مقالے، تقاریئر، اور غور طلب شعر سننے کا موقعہ ملا ورنہ بور ھوتے۔ جموں سے تعلق رکھنے والے بڑے ایک بل سیلر نے کہا
پہلے تو ھمیں نمایش گاہ کے لئے بک کرنے کا بتائیے مگر میلہ منعقد کرنے کی تاریخ نزدیک پہنچ گئی تب سرینگر کے دل لال چوک سے باھر اس جگہ ڈھیر ڈالنے کو بتایا گیا۔ یہاں تو بس جہاں پانی ھی پانی نظر آتا ھے ایس کے آئی سی سی پہنچنے والے اکثر بچے اس میلے میں۔کتاب بینی کے بجایئے جھیل ڈل کا نظارہ کرنے لگتے۔اس طرح یہ ایک فلاپ شو قرار دیا جاسکتا جو صحیح جگہ یا عوام الناس کی نظروں سے بہت دور غلط مقام پر لگایا گیا جس سے کتاب فروشوں کو نفع کے بجایئے بہت نقصان ھوا ھے۔ کیونکہ خریدار ٹیگور حال یا شیر کشمیر پارک پہنچ سکتا تھا۔ لیکن ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے سبب بھی ایس کے آئی سی سی نہیں پہنچ سکتا۔ واضح رھئے کہ اس میلے میں قریب ڈیڑھ سو کتاب فروشوں نے اپنے الگ الگ سٹال لگایئے ھے جسمیں تمام قسم کی کتابیں دستیاب رکھی گئی تھی۔
یہاں عام طور پر کتاب فروشوں نے الزام عائد کیا کہ نمایش گاہ کے بدلے اس جگہ ایک ناکام کتاب میلہ منعقد کرنے کے پیچھے کون لوگ قصوروار یا براہ راست ذمہ دار، ھے اور اسکے مضر نتائیج کے بارے میں ارباب اعلی سے ھم تحقیقات کرنے کی اپیل کرینگے۔