عالمی سطح پر حقوق خواتین کے مسائل موجود ہیں اور موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کو کئی طرح کی چلینجوں کا سامناہے جس پر اگرچہ بات کی جاتی ہے اور صنفی مساوات کے بارے میں بیداری پھیلائی جارہی ہے تاہم اس کے باوجود بھی مختلف شعبوں میںخواتین آج بھی پیچھے ہیں جیسے تعلیمی شعبے میں ، صحت خدمات تک بہتر رسائی نہ ہونا ، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے محرومیت کی شکار، گھریلو تشدد، خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں اضافہ وغیرہ معاملے دنیا بھر میں موجود ہیں ۔ یہ معاملات غیر ترقی یافتہ ممالک میں اگرچہ زیادہ ہے تاہم یہ تعصبات ترقی یافتہ معیشتوں میں بھی پائے جاتے ہیں جو صنفی برابری کے لیے مسلسل جدوجہد پر زور دیتے ہیں۔اسی طرح ہمارے ملک میں بیہ یہ معاملہ درپیش ہے اور اگر ہم جموں کشمیر کی بات کریں تو یہاں پر بھی یہ معاملہ موجود ہے ۔ جموں کشمیر میں اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ خطہ کئی دہائیوں سے تنازعات کا شکار رہا ہے ۔ پوری دنیا میں اپنی خوبصورتی کےلئے مشہور اور قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خطہ جغرافیائی ، سیاسی اور اقتصادی طور پر ہنگامہ خیز رہا ہے جہاں پر سب سے زیادہ اثرات خواتین پر پڑے ہیں۔ تاہم اس طرح کے چیلنجوں کے تناظر میں، ہندوستانی فوج نے امن اور استحکام کی بحالی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، اس طرح سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔دہائیوں تک چلی شورش کے باوجود بھی فوج نے بنیادی سطح پر جموں کشمیر میں امن و قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے میں اہم رول اداکیا اور بنیادی مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دی ۔ جہاں فوج نے مختلف مراحل میں لوگوں کو درپیش مسائل کے حل کےلئے اقدامات اُٹھائے اور بنیاد ڈھانچے کی بہتری کےلئے کام کیا ہے وہیں فوج نے خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کو سماجی اور اقتصادی لحاظ سے خود مختار بنانے کی طرف بھی توجہ مرکوز کی ۔ فوج نے خواتین کو باختیار بناتے ہوئے ان کی صلاحیت سازی میں رول اداکیا اور مقامی سطح پر ترقی میں خواتین کی شمولیت کو فروغ دیا ۔ جموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج کے اقدامات خواتین کو بااختیار بنانے پر توجہ مرکوز کرنے والے مختلف سماجی و اقتصادی منصوبوں پر مشتمل ہیں۔فوج جو جموں کشمیر کے ہر علاقے میں تعینات ہیں نے ان علاقوں میں خواتین اور بچوں کی مدد کی جہاں پر زیادہ کشیدگی پائی جاتی ہے ۔ فوج نے خواتین کے حقوق کے اور انہیں اقتصادی طور پر بااختیار بنانے کےلئے کئی منصوبوں پر کام کیا جن میں خواتین کے سیلف ہیلپ گروپوں کے پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں کا قیام، صحت کی دیکھ بھال کے اقدامات، اور کمیونٹی کی شمولیت کی سرگرمیاں شامل ہیں۔ فوج نے آپریشن سدبھاﺅنا کے تحت متعدد پروگرام چلائے جن میں خواتین کو تربیت فراہم کی گئی ۔ ان میں سیف ہیلپ گروپ کا قیام جس میں اجتماعی طور پر کام کرکے ان کی آمدنی بڑھانے کےلئے کئی پروگرام چلائے گئے جن میں کموٹر ٹریننگ، سلائی سنٹر وغیرہ بھی شامل ہے ۔ ان گروپوں میں کام کرنے والی خواتین نے نچلی سطح پر خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد کی اور ان کی روزمرہ کی زندگی کے علاوہ خود روزگار کمانے کےلئے ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی ۔ فوج کی جانب سے اس طرح کے سدبھاﺅنا کے پروگرام سرحدی اور دیہی علاقوں میں زیادہ چلائے جارہے ہیں کیوں کہ شہری علاقوں کے بنسبت دیہی علاقوں کی خواتین کو آگے بڑھنے کےلئے کم وسائل ہوتے ہیں۔ فوج نے شمالی کشمیر کے سرحدی قصبہ گریز میں فوج نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کئی منصوبوں پر عمل آوری کی ہے ۔ یہاںفوج نے خواتین کو سلائی کی تربیت دی اور دیگر ہنروں کی تربیت دیکر فوج نے مختلف پروگراموں کے ذریعے گریز کی خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کو مالی طور پر خود کفیل بنانے کےلئے بنیادی سطح پر کام کیا ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں خواتین ان سکیموں سے مستفید ہوئیں۔فوج نے نہ صرف خواتین کو مختلف ہنروں میں تربیت فراہم کیں بلکہ ان کو مارکیٹ تک رسائی کی سہولیت بھی فراہم کیں تاکہ ان اداروں میں تیار کردہ مال کو آسانی کے ساتھ ڈیلروں تک پہنچایا جاسکے جس سے خواتین کی آمدنی بڑھے اور کام میں کوئی رُکاوٹ نہ بنے ۔ اس کے ساتھ ساتھ فوج نے گریز میں خواتین کی طبی نگہداشت کی طرف بھی خاص توجہ دی کیوں کہ گریز جیسے سرد ترین علاقے میں اکثر سڑ برف کی وجہ سے بند رہتی ہے اور خواتین کو بہتر طبی سہولیت مئیسر نہیں ہوتی اسلئے فوج نے خاص طور پر حاملہ خواتین کو بہتر طبی سہولیت بہم رکھنے کےلئے موثر اقدامات اُٹھائے ہیں ۔ فوج نے مقامی خواتین کو صحت کی دیکھ بھال کے لئے تربیت فراہم کی اور انہیں ابتدائی طبی مدد کی تربیت دیکر ہنگامی صورتحال میں خواتین کو طبی مدد پہنچانے کے قابل بنایا ۔ خاص طور پر اگر ہم موسم سرماءمیں خواتین کو درپیش مسائل کی بات کریں تو فوج نے زچگی کے مسائل سے نمٹنے کےلئے مقامی خواتین کو تربیت دی تاکہ بوقت ضرورت ہو ماں اور بچے کی جان بچاسکے جب تک نہیں انہیں بہتر طبی نگہداشت کی سہولیت مئیسر ہو۔صرف گریز میں ہی نہیں بلکہ فوج خواتین کو بااختیار بنانے اور سدھباﺅنا سکیموں کے تحت انہیں مختلف ہنروں کی تربیت کے پروگرام مختلف دیہی علاقوں میں بھی چلائے ہیں جن میں سرحدی ضلع کپوارہ اور بارہمولہ کے متعدد سرحدی علاقے بھی شامل ہیںجہاں پر فوج خواتین کو سماجی اور اقتصادی طور پر بااختیار بنانے کےلئے کام کررہی ہے ۔ تاہم فوج کی جانب سے قابل سراہنا کوششوں کے باوجود بھی وادی کشمیرمیں خواتین کو کافی دشواریوں کا سامنا ہے ۔ خواتین کو آگے بڑھنے میں سماجی بندھن، دقیانوسی سوچ، سیاسی طور پر انہیں ناخواندہ رکھنا ، فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھنا وغیرہ رُکاوٹیں موجود ہیں۔ خواتین کو اگر بااختیار بنانا ہے تو ان کو اپنی بات کہنے کا حق انہیں دیاجائے ۔ ان کی بات سنی جائے اور ان کو فیصلہ سازی کااختیار دیا جائے ۔ ان کےلئے تعلیمی وسائل بروئے کار رکھے جائیں اور سماج میں خواتین سے متعلق جو مفروضات پائے جاتے ہیں ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک بہتر سماج کےلئے ضروری ہے کہ خواتین کو ہر شعبے میں بااختیار بنایا جائے ۔ لازمی ہے کہ خواتین کی تعلیمی ، سماجی اور اقتصادی آزدی کےلئے انہیں مواقعے فراہم کئے جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں اپنا ہدف مقرر کرسکیں اور زندگی کی رفتار اپنی مرضی سے پکڑ سکیں۔