پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں اقتصادی نابرابری اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ مہنگائی ، بنیادی ضروریات کے فقدان کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر آنے اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور کیا ۔ یہ مظاہرے اگرچہ پہلے پر امن طریقے سے جاری تھے تاہم مظاہرین کے خلاف پولیس کے بے تحاشہ طاقت نے اس کو پُر تشدد مظاہروں میں تبدیل کردیا جس کے نتیجے میں وہاں پر حالات خراب ہوئے اور ہلاکتیں ہویں۔یہ معاملہ صرف پاکستانی مقبوضہ کشمیر کا ہی نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے پورے ملک میں مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے ۔ مخدوش حالات اور سیاسی خلفشاری کے نتیجے میں پاکستان معاشی طور پر غیر مستحکم ہورہا ہے ۔ سال 2022کے ماہ مئی سے صارفین کو 20فیصدی مہنگائی کا سامنا رہا ہے جو کہ 2023مئی تک اپنی بلند ترین شرح پر پہنچ کر 33فیصدی ہوگئی۔دوسری طرف ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے نتیجے میں مہنگائی میں اور زیادہ اضافہ ہواہے خاص طور پر اگر ہم اشیائے خوردنی کی بات کریں تو سبزیاں، پھل، اور دیگر ضروریات زندگی سے جڑی اشیاءکی قیمتوں میں کافی اضافہ دیکھا گیا جس کے نتیجے میں عام لوگ پریشان ہوگئے اور وہ اپنی ضروریات زندگی کو پوراکرنے میں کئی طرح کے چلینجوں کا سامنا کررہے ہیں۔ پاکستان میں بدنظمی ، مہنگائی اور سیاسی مسائل کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان براہ راست جموں کشمیر میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں ملوث رہا ہے ۔ سال 2019میں پلوامہ حملے میں جسمیں 40کے قریب فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے مابین تعلقات مزید بگڑھ گئے اور اپنا سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لے لیا۔ اس کی وجہ سے پاکستان میں مصنوعات پر 200فیصدی درآمدگی ٹیکس لگائی گئی اور کئی اہم اشیاءجن میں خشک کھجور، سیمنٹ، جپسم اور دیگر اشیاءکی درآمدات 45ملین امریکہ ڈالر سے گھٹ کر 2019میں صرف 2.5ملین امریکی ڈالر ماہانہ تک سمٹ گئی جس نے پاکستانی تاجروں کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے ۔
اسی طرح سے اگر ہم پاکستانی کے قبضہ والے خطے گلگت بلتستان کی بات کریں تو وہاں پر بھی حالات کچھ بہتر نہیں ہے ۔ یہاں پر بھی لوگوں کو بنیادی طور پر مسائل کا سامنا ہے خاص طور پر طبی ، تعلیمی اور روزگار کے مسائل درپیش ہیں۔ یہ خطہ اس وقت گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے تحت چل رہا ہے جس نے پچھلے 2009 کے آرڈر کی جگہ لے لی ہے۔ تاہم2018 کے آرڈر کو مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے خاص طور پر مقامی آبادی کو انتظامی معاملات میں بے دخل کیا جاچکا ہے اور مقامی قانون ساز اسمبلی اور عدالتوں کی جانب سے تبدیلی سے لوگ ناآشنا ہے ۔ جب ہم 2018کے ترمیمی آرڈ پر نظر ڈالیں گے تو اس میں ہمیں کئی پہلو زیر بحث دکھیں گے ۔ اس ترمیمی آرڈر میں گلگت بلتستان کے لوگوں کی تعریف کسی ایسے شخص کے طور پر کی گئی ہے جو پاکستان کے شہریت ایکٹ 1951 کے تحت شہری ہو۔ یہ وسیع تعریف بنیادی طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کو گلگت بلتستان میں شہریت کا دعویٰ کرنے کی اجازت دیتی ہے جس سے مقامی آبادی کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس ضابطے کو مقامی لوگوں پر اس کے منفی اثرات کے لیے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ یہ غیر رہائشیوں کو شہریت حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے اور اس طرح مقامی وسائل اور مواقع تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اس ترمیمی بل کے ذریعے گلگت بلتستان کی شناخت ختم ہوجائے گی کیوں کہ اب کوئی بھی کسی بھی جگہ کا اس خطے میں بودوباش کرسکتا ہے اور ان کے وسائل کا استعمال کرسکتا ہے ۔ ان کو اپنی زمینوں سے مختلف ناموں سے بے دخل کیاجارہا ہے ۔ ترقیاتی منصوبوں اور دیگر ناموں پر ان کی زمینی ان سے چھین لی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ 2018کا یہ ترمیمی آرڈر کسی بھی شہری کو امن و قانون کی صورتحال بگاڑنے کے الزام میں بغیر کسی مقدمے کے تین ماہ تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے ۔ جو قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو کھلی چھوٹ فراہم کررہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ سے کسی بھی شہری کو اپنی حراست میں لے سکتے ہیں اور اس کےلئے انہیں کسی بھی طرح کی جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اس ترمیمی آرڈر کے آرٹیکل 25کے تحت جائیداد کے حوالے سے مفاد عامہ کا تعین کرنے کےلئے وسیع اختیارات دیتا ہے اور مجاز اتھارٹی غیر منصفانہ اور بلا معاوضہ جائیداد کا تعین کرسکتی ہیں۔ آرٹیکل 64 ریاست کو گلگت بلتستان حکومت کی قیمت پر جائیداد حاصل کرنے کا اختیار دیتا ہے، جس سے مقامی حکومت کی خود مختاری میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔2018کا ترمیمی آرڈ وزیر اعظم پاکستان کو وسیع اختیارات دیتا ہے جس کے تحت آرٹیکل 60(2) وزیر اعظم کو قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنانے کا مکمل اختیار دیتا ہے۔ اس طرح سے وزیر اعظم پاکستان گلگت بلتستان کی مقامی اور جمہوری حکومت سے منظوری لئے بغیر قانون سازیہ میں ترمیم کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ مرکزی حکومت بغیر مقامی انتظامیہ اور حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر سٹریٹجک اور قومی مفادات کے منصوبوں پر عمل پیرا کرسکتا ہے ۔ اس طرح سے یہ عمل مقامی طور پر لوگوں کو اپنے حقوق سے محروم کرتا ہے اور فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر کی عکاس ہے ۔ اگر ہم گلگت بلتستان میں گورننس کی بات کریں تو گلگت بلتستان کی مقامی قانون ساز اسمبلی اب خود کسی بھی تعزیرات میں ترمیم نہیں کرسکتی ہے اور ناہی آرڈر 2018کے تحت اس کو یہ حق حاصل ہے اور ناہی اسے گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدالتوں میں قانونی طور پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے پاکستان کی مرکزیت کی جو تلوار گلگت بلتستان کے عوام پر لٹکائی گئی اس سے عوامی حلقوں، سیاسی گلیاروں میں عدم اطمینان پایا جارہا ہے ۔
اب اگر ہم گلگت بلستان کی معاشی حالت کی بات کریں تو یہ خطہ دہائیوں سے دہشت گردی کا گڑھ رہا ہے اور پاکستانی حکومت اسے بھارت کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر رہی ہے جس کے نتیجے میں خطہ میں بنیادہ ڈھانچے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ مقامی آبادی کو بنیادی سہولیت دستیاب نہیں ہے بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اقتصادی حالت ابتر ہوتی جارہی ہے ۔ بے شمار قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود بھی مقامی لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ ان کے وسائل ان کےلئے نہیں بلکہ پاکستان اپنے لئے بروئے کار لارہاہے ۔ گلگت بلتستان کے وسائل سے محرومی نے مقامی لوگوں کو حکومت سے بدل کردیا ہے ۔ پاکستانی فوج اس خطے کو دہشت گردوں کی تربیت کےلئے استعمال تو کرتی ہے لیکن مقامی آبادی کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کےلئے کوئی موقع فراہم نہیں کیا جارہا ہے ۔ پاکستانی حکومت اس خطے کو سرے سے نظر انداز کئے ہوئے ہیں ۔ شروع سے ہی پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے لوگ اور خطہ گلگت بلتستان کے عوام نے حکومت کے خلاف محاذ کھولا اور اس بے انصافی کے خلاف آواز اُٹھائی لیکن اس کو بزور طاقت دبایا گیا ۔ حالیہ دنوں بھی اسی طرح سے عوامی مظاہرے شروع ہوئے اور خطے میں بجلی ،پانی ، سڑکوں، طبی خدمات اور دیگر بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کو لیکر عوام نے پاکستان کے خلاف غم و غصے کااظہار کیا ۔ پاکستانی حکومت خطے کے بنیادی مسائل کو حل کرنے ، روزگار کے مواقعے فراہم کرنے ، لوگوںکو بنیادی ڈھانچے کی طرف توجہ دیکر عوامی اعتماد حاصل کرسکتی ہے۔ بنیادی ضروریات ہر کسی شہری کا حق ہوتا ہے اور اس کا مطالبہ لوگوں کا جمہوری حق ہے ۔