عالمی سطح پر غربت کے خاتمہ کےلئے کوششیں کی جاتی ہیں اور کئی ایسے ممالک ہیں جہاں پر خط افلاس کے نیچے زندگی گزر بسر کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ غربت کے خاتمہ کےلئے عالمی سطح پر کوششوں کو اُجاگر کرنے کےلئے ہر سال 17اکتوبر کو غربت کے خاتمہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا کے ایسے ممالک کی طرف توجہ مرکوز کرنا ہے جہاں پر غربت بہت زیادہ ہے جس سے انسانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہم وادی کشمیر میں اس دن کی ہمیت پر روشنی ڈالیں تو یہاں اس دن کو منانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ جموں کشمیر میں غربت اور بے روزگاری کے لئے موجودہ انتظامیہ کی جانب سے موثر اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں جبکہ 2019سے پہلے یہاں پر غربت اور بے روزگاری کافی حد تک بڑھ گئی تھیں کیوں کہ دفعہ 370نے مرکزی سرکار کو کئی ایک سکیموں کو یہاں پر نافذ کرنے کےلئے روکے رکھا تھا ۔ تاہم دفعہ 370اور 35Aکی منسوخی کے بعد یہاں پر سرمایہ کاری کےلئے رواہیں ہموار ہوئیں اور مختلف سرمایہ کاروںنے جموں کشمیر میں سرمایہ کاری شروع کرلی جس سے یہاں پر وزگار کے مواقعے پیدا ہونے شروع ہوئے ۔ مرکزی سرکار جموں کشمیر میں غربت کے خاتمہ کےلئے سرگرم ہوچکی ہے اور جموں کشمیر کے لوگوں کی زندگی کے معیار کو بلند کرنے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ غربت کے عالمی دن کے حوالے سے جموں کشمیر میں زمینی صورتحال پر اگر ہم نظر ڈالیں تو گزشتہ چند سالوں میں غربت کا گراف نیچے آگیا ہے ۔ اسی لئے مرکزی سرکار متذکرہ دفعات کے خاتمہ کو خطے کی ترقی کےلئے ضروری قراردیتی ہے ۔ مرکزی سرکار نے جموںکشمیر میں روزگار کے مواقعے پیدا کرنے اور غربت کے خاتمہ کےلئے کئی طرح کی سکیموں کانفاذ عمل میں لایا گیا جو پہلے دفعہ 370کی وجہ سے یہاں پر نافذ العمل نہیں تھیں ۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غربت میں کمی کے لیے سیاحت، زراعت، دستکاری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ کشمیر میں غربت کے بنیادی محرکوں میں سے ایک بے روزگاری ہے۔اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے مرکزی سرکار نے آرٹیکل کی منسوخی کے بعد بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے منصوبوں کی طرف توجہ دینی شرورع کی ترقی کے پروگراموں اور صنعتی سرمایہ کاری کے ذریعے ملازمتوں کی تخلیق پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔سرکار نے بیرونی ممالک اور ملکی کمپنیوں کو جموں کشمیر میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور سرمایہ کاری کےلئے آئی ٹی اور مینو فیکچرنگ جیسے شعبے ان سرمایہ کاروں کےلئے موزون رہے ۔اس طرح کے اقدامات سے ایک تو معاشی استحکام پیدا ہوتا ہے دوسری طرف روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اگر ہم بنیادی ڈھانچے کی طرف توجہ کی بات کریں تو بہتر رابطہ سڑکوں ، بجلی کی فراہمی اور کنکٹوٹی کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے جو کسی بھی خطے کی ترقی کےلئے بنیادی محرکات ہوتے ہیں۔ اس طرح سے مرکزی سرکار کی جانب سے وادی کشمیر میں غربت کا خاتمہ کرنے یا اس کو کم کرنے کےلئے متعدد پروگرام متعارف کرائے اور کئی ایک میں توسیع کی گئی جس سے کشمیری عوام کو ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ۔ ان سکیموں میں پردھان منتری آواس یوجنا یہ ایک ایسی سکیم ہے جو غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے بے گھر کنبوں کورہائش فراہم کرنا ہے ۔ اس اقدام کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ معاشرے کے غریب اور معاشی طور پر کمزور طبقات کو بنیادی پناہ گاہ تک رسائی حاصل ہو، اس طرح ان کا معیار زندگی بہتر ہو۔
اسی طرح ایک اور سکیم (این آر ایل ایم ) یعنی قومی دیہی روزی روٹی مشن سکیمم کے تحت خواتین کو روزگار فراہم کرایا گیا ۔ خواتین گروپ بناکر اپنے روزگار کے وسائل پیدا کرتیں اس سکیم سے دیہی علاقوں میں خواتین کو نہ صرف روزگار ملا بلکہ ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا اور ان کی زندگی بدلنے لگی ۔ اس طرح سے اس سکیم سے غربت کے خاتمہ میں اہم فائدہ ہوا۔ غربت کی صنفی جہتوں سے نمٹنے کے لیے یہ ایک اہم قدم رہا ہے کیونکہ کشمیر میں خواتین کو، دیگر جگہوں کی طرح، معاشی آزادی میں اضافی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔غربت کے خاتمہ کےلئے ایک اور سکیم مرکز کی جانب سے لانچ کی گئی تھی جس کا نام ”اُجالا “سکیم ہے اس سکیم کے تحت غریب گھرانوں کو ایل ای ڈی بلب فراہم کرنا تھا جس سے ایک تو بجلی کی بچت ہوئی دوسرا اس سے غریب گھرانوں کی بجلی فیس بھی کم ہوگیا اور اس طرح سے ان پر مالی بوجھ کم ہوا۔ اسی طرح آیوشمان بھارت۔پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا جیسی اسکیموں کے ذریعے صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی کو بہتر بنایا گیا ہے اقتصادی طور پر کمزور خاندانوں کو صحت کی کوریج فراہم کی گئی ہے، اس طرح طبی اخراجات کے مالی بوجھ کو کم کیا گیا ہے۔ہیلتھ سکیم سے غریب کنبوں کو مفت علاج و معالجہ کی سہولیت فراہم ہوئی ۔
اگرہم وادی کشمیرمیں نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی بات کریں تو مرکزی سرکار نے کئی سکیمیں متعارف کرائی ہیں ۔ کشمیری نوجوان طویل مدتی خلفشار اور مخدوش حالات کے سبب انتشار کی شکار رہی اور وہ روزگار کے حصول میں پیچھے رہے تاہم دفعہ 370کی منسوخی کے بعد نوجوانوں کو بااختیار بنانے کےلئے کئی اہم اقدامات اُٹھائے گئے ۔ نوجوانوں کےلئے پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا کے تحت ہنر مندی کے فروغ کےلئے پروگرام چلائے گئے ۔ اس سکیم کے ذریعے نوجوانوں کو مختلف ہنروں کی تربیت فراہم کی گئی تاکہ نوجوان کشمیریوں کو آئی ٹی سے لے کر تعمیرات تک کے مختلف شعبوں میں پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جا سکے۔ ان سکیموں کے نفاذ کا مقصد نوجوانوں کو مختلف ہنروں کی تربیت فراہم کرنا اور انہیں خود روزگاری یا خود انحصاری کےلئے تیار کرنا تھا ۔ اس پروگرام کی وجہ سے نہ صرف نوجوانوں کو روزگار ملا بلکہ اسے دیگر ایسے نوجوانوں کو روزگار ملا جو بے ہنر تھے ۔ اسی طرح سٹارٹ اپس انڈیا پروگرام کے تحت نوجوانوں کو روزگار تخلیق کرنے والے بننے کی طرف توجہ دی گئی ۔ اس سے نوجوانوں کو دوسروں کےلئے روزگار کی صلاحیت کے قابل بنایا گیا ۔ اسی طرح سے سیاحت کے شعبے کی بہتری کےلئے بھی کئی طرح کے اقدامات اُٹھائے گئے جن سے سیاحت کو فروغ ملا ۔ نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کو زیادہ سے زیادہ کشمیر کی طرف راغب کرنے کےلئے حفاظتی صورتحال کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی گئی ۔ اس شعبے کی بحالی غربت میں کمی کے لیے ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ براہ راست مہمان نوازی، ٹرانسپورٹ، دستکاری اور دیگر متعلقہ خدمات میں ملازمتیں پیدا کرتا ہے۔دستکاری سے یہاں کی ایک بہت بڑی آبادی جڑی ہوئی ہے اور سیاحت بڑھنے سے دستکاری کو بھی فروغ ملا اور دستکاروں کو زیادہ سے زیادہ مواقعے دستیاب ہوئے ۔ اسی طرح غربت کے خاتمہ میں زرعی سرگرمیاں بھی کافی اہمیت کی حامل ہے ۔کیوں کہ کشمیر میں زراعت ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے جس سے قریب 70فیصدی دیہی آبادی منسلک ہے اور زیادہ تر آبادی اپنی روزی روٹی کے لیے اس پر انحصار کرتی ہے۔
تاہم زرعی سیکٹر کو بہتر ڈھانچہ فراہم کرنے کےلئے حکومت نے نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی اور آبپاشی کی مختلف سکیموں کے نفاذ کی وجہ سے کاشتکاروں کو بہتر پانی کی فراہمی یقینی بن گئی ۔ اس کے علاوہ کاشتکاروں کےلئے پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا ، کسان کریڈٹ کارڈ سکیم اور دیگر مالی سکیموں کا نفاذ بھی عمل میںلایا گیا جس سے کاشتکاروں کی زندگی بہتر بن گئی ۔ اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر میں غربت کے خاتمہ کےلئے موثر اقدامات اُٹھائے گئے اور ان اقدامات کو زمینی سطح پر بھی محسوس کیا جارہا ہے۔