شیخ مدثر منیر
شوپیان کشمیر
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
اے شور قیامت ! ہم سوتے ہی نہ رہ جائیں
اس راہ سے نکلے تو ،ہم کو بھی جگا جانا
آج ملک بر میں یوم اطفال بنایا جا رہا ہے ۔ہر فرد اپنے بچوں کی تصویروں کو فیس بک،انسٹاگرام اور ٹیوٹر پر اپلوڈ کر رہے ہیں ۔بچے کیونکہ قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور یہی بچے وقت گزرنے کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں اور ملک کی بھاگ ڈور سنبھالتے ہیں ۔بچے وہ شخصیات ہیں جو ملک کی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں ،یہی سیاستدان ،یہی بیوروکریٹ اور یہی حکمران اور قومی سرمایہ ہوا کرتے ہیں ۔اپنے ملک کو بچانے میں ان ہی بچوں کا اہم رول ہے۔بچے نہ ہوں تو بڑے کہاں سے آئیں گے لحاظ ملک بر کے ذیشعور انسانوں سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ بچوں کی صحت ،پرورش تعلیم وتربیت اور ان کی فلاح وبہبود میں جھٹ جائیں اور دن رات محنت کر کے انہیں کسی منزل تک پہنچانے کے ضامن بنے ۔بچوں کی تربیت کا یہی مطلب نہیں کہ کوئی اپنے بچوں کا خیال رکھیں اور انہیں تعلیم کے زویر سے آراستہ کر ے یا ان کی ضروریات پوری کرے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
۔سب بچے امیر گھرانوں سے تعلق نہیں رکھتے ۔ہمارے ملک کے اکثر بچے غربت کی مارے ہیں اور غریبی کی چکی میں پسے جا رہے ہیں نہ ان کا آگے کوئی ہے اور نہ ہی پیچھے ،بےسہارا،بے یار ومدگار،ننگے ،بھوکے دن گزرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں ۔کچھ ایسے بھی بچے ہیں جن کی تعداد لاکھوں میں ہے جو بوری اٹھا کے گلی کوچوں میں پھرتے بوتلیں ،جلید جمع کر کے اپنے نفس کی آگ کو بجھاتے ہیں ۔ذرا سوچیئے ان حالات میں چھوٹے بچے بھوکے رہ کر گلی کوچے میں مارے مارے پھرتے ہیں اور کچھ مزدوری مشقت کے لیے دربدر پھرتے ہیں اور کیئ چار آنے کا کام مل گیا تو ان کا دن کٹ جاتا ہے
مگر اک بات زہین نشین رکھیں کہ جس سماج میں بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے بجائے ان سے کام لیاجاتا ہے تو مستقبل میں ایسے سماج کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جس قدر سماج میں رہے رہ بچے ذہین ،تعلیم یافتہ اور بااخلاق ہونگے اُسی قدر سماج مختلف سماجی بُرائیوں سے پاک ہوگا ۔ جن بچو ں سے بچپن سے ہی کام لیا جاتا ہے وہ اکثر غلط ہاتھوں کے میں پڑجانے سے مختلف بُرائیوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں نتیجتاً سماج میں بُرائیاں جڑ پکڑتی ہیں۔
ہمیں سڑک یا راستے میں جو بھی اس طرح کا بچہ دیکھیں جو کچھ نہ کچھ بیچ رہا ھو اس سے سکول میں داخل کرنے کی ضرور کوشش کریں اور اگر ہم اتنا فرض بھی نہ نبا سکھیں تو کم از کم ان بچوں سے سودا ضرور خریدیں اور اگر ھوسکے تو ایسے بچوں کے ساتھ حساب کرنے سے گریز کریں، کیونکہ یہ بچے اگر چاھے تو بیک بھی مانگ سکتے ہیں مگر بیک مانگنے کے بجائے انہوں نے محنت سے کمانے کی ٹھان لی تا کہ وہ دنیا کے بازار کا آسانی سے مقابلہ کر سکیں. ہمیں بھی چاہیے ان بچوں کی بھرپور مدد کریں تاکہ اپنی فیملی کو آرام سے چلا سکیں اور کوئی غلط کام کرنے پہ مجبور نہ ہو جائیں. ہر زحس نگریک کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے مجبور بچوں کی مدد کے لئے پیش پیش رہے.ان حالات میں با شعور طبقہ سے گزارش کی جاتی ہے اور ان کے حس کو بیدار کیا جاتا ہے کہ کیا ہم اس قابل ہیں کہ بچوں کا دن منا سکے ۔ہم قطع طور اسکے قابل نہیں کہ ہم اپنے بچوں کی تصویریں اخباروں اور سوشل میڈیا میں چھپاوا کر اپنا سر غلط طور اونچا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں شرم آنی چائیے کہ لاکھوں غریب بچے جن کا تن بالکل ننگا ہوتا ہے ،خاک اور مٹی میں پڑے ہیں اور اپنے بالوں میں تیل کے بجائے مٹی ڑالیں ہوئے ہیں ۔ان بھوکے ،ننگے ،غریب بچوں اور بالخصوص یتیموں کو نظرانداز کر کے ہم کیسے بچوں کا دن منائیں ،ہمارا سر شرم سے جھکنا چاہیے۔ان حالات سے سبق حاصل کر کے ہر کھاتے پیتے آدمی سے یہی بنتی کی جاتی ہے کہ وہ اس دن عہد کریں کہ وہ ان یتیم ،بےسہہارا ،بے کس ،ننگے ،بھوکے بچوں کی پرورش کو اپنا شعار بنائے ورنہ ایسی شیخی نگرنے سے پرہیز کریں ۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا شجاعت کا عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اگر ہم اپنی زمہ داریوں کو نبھانے سے قاصر رہیں تو
ایسا نہ ہو روز محشر میں
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر