وادی کشمیر کی سرحدی تین ممالک کو آپس میں جوڑتی ہیں ایک طرف پاکستان کے ساتھ تو دوسری طرف چین کے ساتھ اس کی سرحدی جڑی ہوئی ہیں ۔ یہ سرحدی ہندوپاک اور چین کے درمیان فوجی تناظر میں کافی اہمیت کی حامل ہیں ۔ اب سرحدوں کی اہمیت جنگی میدانوں کے بجائے سیاحتی سرگرمیوں کی طرف تبدیل ہورہی ہے اور اگر ہم وادی کشمیر کے سرحدی علاقوں کی بات کریں تو یہ سرحدی علاقے ایک نئی تبدیلی کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔ یہ تبدیلی ان علاقہ جات کی سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ کے سبب دکھائی دے رہی ہے ۔ان سرحدی علاقوں سے وادی کشمیر کی قدیم روایت، ثقافت، زبان ، رہن سہن ، جڑی ہوئی ہے جو سیاحوں کو اپنی طرف راغب کررہی ہے ۔جہاں تک وادی کشمیر کے سرحدی علاقوں کا تعلق ہے تو ان میں سرحدی ضلع کپوارہ اور بارہمولہ میں پڑتے ہیں جن میں کیرن، اوڑی، ٹنگڈار، ٹیٹوال ، دوسری طرف بانڈی پورہ کے گریز وغیرہ علاقہ جات جو اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے اب نئے سرحدی سیاحتی مقامات میں تبدیل ہورہے ہیں جس کی وہ سے ان علاقہ جات کی معاشی حالت بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچہ بھی بہتر بنتا جارہا ہے۔ یہ علاقہ جات سیاحوں کو خوش آمید کہتے ہیں اور ان جگہوں کی سیر سے سرحدوں میں سیاحتی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں تاہم سرحدی علاقوں کی سیر و تفریح کےلئے ایک فوجی پروٹوکول پر لازمی بھی ضروری ہے ۔ان سرحدی علاقوں میں قدرتی خوبصورتی سے سیاح مظوظ ہوتے ہیں ۔ یہاں کی برف سے ڈھکی چوٹیاں، گھنے جنگلات، صاف وشفاف دریاءاور سر سبز وادیاں جو دل کو موہ لیتی ہے ۔ جہاں یہ علاقے سیاحوں کی دلچسپی کا مظہر ہے وہیں یہ علاقہ جات ان فوٹو گرافروں کےلئے بھی ایک انمول تحفہ ہے جو قدرت کے حسین نظاروں کو اپنے کیمروں میں قید کرنے کے مواقعوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ان سرحدی علاقوں میں موسمیاتی تبدیلی بھی ایک اہم مانی جاتی ہے جہاں موسم بہار میں ان جگہوں پر نئے پھول ، کھلتے ہیں ۔ درخت سرسبز بن جاتے ہیں ۔ مختلف پھل درختوں پر لگ جاتے ہیں وہیں، موسم خزاں یعنی جھاڑے کا سیزن اس کی خوبصورتی کو بڑھاتا ہے اسی طرح اگر ہم موسم سرماءکی بات کریں تو موسم سرما میں سفید برف کی چادر جب پہاڑوں اور میدانی علاقو ں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے تو اس سے ہر طرف ایک طسمانی منظر دکھائی دیتا ہے ۔ سرحدی علاقوں میں تعینات فوج کی جانب سے سیر کرنے والوں کی جانکاری کےلئے عجائب گھر بھی بنائے گئے ہیں جہاں پر تاریخی اور فوجی نمونے ، تاریخی تصاویر اور دیگر یاد گاری چیزیںسیاحوں کو ان علاقوں کی کہانی سے آشنا کرتے ہیں ۔ جو چیز سرحدی سیاحت کو الگ کرتی ہے وہ اس کے تجربات کا انوکھا امتزاج ہے۔سیلانی تبدیل شدہ بنکروں کو تلاش کر سکتے ہیں جو اب عجائب گھروں کے طور پر کام کرتے ہیں، جو خطے کی سٹریٹجک تاریخ کی دلکش جھلکیاں پیش کرتے ہیں۔یہ تجربہ محض مشاہدے سے بالاتر ہے، جس سے سیاح ان خطوں کی قدرتی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے ان کی سٹریٹجک اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔سرحدی علاقوں میں قدیم رہائشی ڈھانچے ،رہن سہن اورثقافت سیاحوں کےلئے ایک بیش بہا تحفہ پیش کرتا ہے ۔ سیاحوں کےلئے مقامی لوگوں کی جانب سے ہوم سٹے کی سہولیات دستیاب بھی رکھی گئی ہے ۔ ان ہم سٹیز میں مہمانوں کی مہمان نوازی کی جاتی ہے اور روایتی طرز زندگی سے مہمان آشنا ہوجاتے ہیں۔ یہ عمل سیاحوں اور مقامی لوگوں کے درمیان اپنی ثقافت ، تہذیب، اپنے منفرد رسوم و رواج، روایتی دستکاری اور پرانی کہانیاں بانٹتی ہیں،جو سرحدی سیاحت میں ایک نئی روح پھونک دیتا ہے اور یہ عمل سرحدی سیاحت کے تجربے میں ایک مستند ثقافتی جہت کا اضافہ کرتی ہیں۔ اسی طرح خواتین کے سیلف ہیلپ گروپس نے مقامی دستکاری اور کھانوں کی نمائش کرنے والے ادارے قائم کیے ہیں، جس سے معاش کے پائیدار مواقع پیدا ہوتے ہیں۔اس سے بے روزگار خواتین کو روز گار بھی ملتا ہے اور و ہ کاموں میںمصروف بھی رہتی ہیں۔ سرحدی علاقوں میں سیاحوں کےلئے بہتر سڑک رابطے کو ممکن بنانے میں بارڈر روڈز آرگنائزیشن نے اہم انفراسٹرکچر تیار کرکے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نئی سڑکیں پہاڑوں سے گزرتی ہیں، دیکھنے کے مقامات دلکش نظارے پیش کرتے ہیں، اور جدید سہولیات کو خطے کے قدیم کردار سے سمجھوتہ کیے بغیر سوچ سمجھ کر مربوط کیا گیا ہے۔ ان پیش رفتوں نے اپنی مستند دلکشی کو برقرار رکھتے ہوئے سرحدی علاقوں کو مزید قابل رسائی بنا دیا ہے۔ ان سرحدی علاقوں میں ایڈونچر ٹورازم کو ایک نیا گھر مل گیا ہے۔ کنٹرول شدہ ٹریکنگ روٹس، نیچر ٹریلز، اور کیمپنگ سائٹس قائم کی گئی ہیں۔ اس طرح سے سرحدی سیاحت نے ان سرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کومضبوط بنانے میںاہم رول اداکیا ہے بلکہ سرحدی آبادی کی طرز زندگی میں بھی تبدیلی آرہی ہے اور مستقبل میں وادی کشمیر کی سرحدی سیاحت میں مزید بہتری آنے کے ساتھ ساتھ اس کو فروغ ملنے کا امکان ہے ۔ اگرچہ سرحدی سیاحت کو کئی طرح کے چلینج درپیش ہیں تاہم سرکار اگر اس طرف توجہ دے تو بارڈر ٹورازم کو فروغ ملے گا۔ تاہم اس بات کی طرف بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ سیاحتی سرگرمیوں کی وجہ سے ماحولیاتی توازن برقرا ر رہے اور ماحولیات کو کسی قسم کے نقصان سے بچنے کےلئے پیشگی اقدامات ناگزیر ہے