از قلم: اویس احمد شیخ
اقبال کالونی، شالہ پورہ، آلوچہ باغ، سرینگر، کشمیر
[email protected]
دل کے گوشوں کو کھولتی ہے کتاب.
قلب و نظر کو چمکاتی ہے کتاب.
ملفوظِ اسلاف کو بسا کے رکھتی ہے کتاب.
ہمکنار ہم کو ان سے کراتی ہے کتاب.
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان جس چیز کا طلبگار ہوتا ہے اس کے حصول کے لئے وہ رات دن ,ہر لمحہ, ہر پہر ان تھک کوشش کرتا ہے.کوئی سیم و زر کا حریص ہوتا ہے تو کوئی عزت پانے کے لئے بڑی شیخی بگھارتا ہے.کچھ لوگ علم کے حصول کے لئے بڑی محنت کرتے ہیں .ان میں کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو صرف دنیاوی علم پانے کے لئے کوشش کرتے ہیں .اور کچھ سعادت مند اور خوش بخت انسان علم دین کی تشنگی مٹانے کے لئے دور دراز بلاد کا سفر کرتے ہیں .علماء و صلحاء کی صحبت اختیار کرتے ہیں. حصول علم دین کے لئے ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں. اپنے آپ کو علم دین سے آراستہ کرتے ہیں.
علماء کرام رحمہم اللہ السلام, اللہ عزوجل ان با عظمت اور پر وقار شخصیات کے وسیلے سے ہمیں بھی علم دین عطا کرے اور عمل کرنے کی بھی توفیق دے اور ہم گنہگاروں کی بے حساب مغفرت کرے,یہ عظیم ہستیاں محنت شاقہ, عرق ریزی,ورق گردانی اور راتوں کو اپنی آنکھوں کا نور جلا کر ہمارے لئے علم دین کو آسان کرکے کتابوں کی شکل میں ہمارے لئے میسر کر دیتے ہیں. اسی طرح اولیاء عظام رحمہم اللہ السلام نے بھی خلق خدا کی رہنمائی فرمائی. ان کو اپنی تربیت میں رکھ کر راہ سلوک کی منازل اور مدارج طے کرائیں. ان کے قلوب کو نفرت و کدورت,بغض و کینہ اور خواہشات کے دلدل سے پاک و صاف کیا.ان کا تزکیہ نفس کیا تاکہ وہ ان سب آلائش اور افعال قبیحہ,شنیعہ اور رزیلہ سے اجتناب کرے.اولیاء عظام رحمہم اللہ السلام نے بھی اصول تصوف,تزکیہ نفس,راہ سلوک کے قواعد و ضوابط کو اپنی تصانیف میں قلم بند کیا ہے. ان میں سے چند مشہور کتابوں کے نام ذکر کئے جاتے ہے تاکہ قارئین کے علم میں اضافہ ہو اور وہ اس سے تسکین پائیں .احیاء علوم الدین, قوت القلوب,غنیتہ الطالبین,عوارف المعارف وغیرہ.یہ راہ سلوک کی چوٹی کی کتابوں میں گردانے جاتے ہیں.
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں وادی کشمیر کو حسن و جمال عطا کیا, وہاں علماء اور اولیاء کرام جیسے نفوس قدسیہ سے بھی نوازا ہے.ان نفوس قدسیہ نے لوگوں کو دین کی تعلیم سے آگاہ کیا. علم و عرفان کی تعلیم و تربیت سے روشناس کرایا.شرک و کفر کی ضلالت سے نکال کر توحید کے گوشہ میں بسا لیا. ان کے قلوب میں معرفت کی شمع روشن کی. ان کو پستی سے نکال کر عروج اور بلندی سے ہمکنار کیا.اولیاء کشمیر نے بھی علم تصوف کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں. علم تصوف کے علاوہ انہوں نے علم حدیث,تفسیر اور فقہ پر بھی کتابی لکھی ہیں. ان گہر پاروں کو انہوں نے لوگوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے قلمبند کیا تاکہ ان کے ظاہری وصال کے بعد بھی سادہ لوح انسان اور علماء کرام بھی ان کتب سے استفادہ کرسکے.
یہاں پر وادی کشمیر کے صرف دو اولیاء کرام رحمہم اللہ السلام کی تصانیف کا ذکر کیا جاتا ہے جو صف اولیاء میں بہت بلند مقام رکھتےہیں.طوالت مضمون کے خوف کی وجہ سے صرف دو پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے. .علم تصوف کے ساتھ ساتھ وہ علم حدیث,تفسیر اور فقہ پر بھی کامل دسترس رکھتے تھے.وہ متبحر عالم دین اور نابغئہ روزگار تھے.سب سے پہلے جس درخشندہ ستارے کا ذکر خیر کیا جاتا ہے ان کا تولد اگرچہ ہماری وادی میں نہیں ہوا لیکن ان کا رشتہ ہماری وادی سے گو جسم اور روح کی طرح ہے.ان ہی کی بدولت اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے وطن کے لوگوں کو شرک و کفر, الحاد و بدعت کی تاریکی اور دلدل سے نکال کر توحید کے دامن میں بسا لیا اور ہمیں ایمان جیسی بیش بہا نعمت عطا کی .اللہ عزوجل ان کے مرقد پر رحمتوں اور انوارات کا نزول کرے اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے.ان شخصیت سی میری مراد حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی قدس سرہ النورانی ہے.ہم.وادی کشمیر کے لوگ ان کے مرہون منت ہے.ان ہی کی وجہ سے آج ہم مسلمان ہے.ورنہ خدا جانیں آج ہمارا کیا حال ہوتا.حضرت امیر کبیر رحمتہ اللہ علیہ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں. جن میں کچھ سلوک و معرفت کے موضوع پر ہے تو کچھ کا موضوع احادیث ہے. اور کچھ اوراد و وظائف پر لکھی ہے.ان کی کتب میں جو وادی کشمیر میں مشہور ہے ان میں سب سے پہلا نام” اوراد فتحیہ” کا ہے.دوسری کتاب جو وادی کشمیر کے علماء اور گنے چنے لوگ جانتے ہیں وہ “ذخیرۃالملوک” ہے.ان کتب کے علاوہ اور بھی بہت ساری کتابیں انہوں نے تصنیف کی ہے.جن میں چند کا ذکر کیا جاتا ہے.ان میں:
* منہاج العابدین (یہ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب منہاج العابدین کے علاوہ ہے) .
* شرح اسماء الحسنیٰ ,یہ کتب خانہ تاجکستان زیر نمبر 3871 میں ہے.
* روضتہ الفردوس. یہ انگلینڈ میں موجود ہے.اس کتاب میں موصوف نے مکارم اخلاق کے موضوع پر 1500 سے زائد احادیث جمع کئے ہیں.
* الناسخ والمنسوخ فی القرآن مجید.یہ مرکزی کتب خانہ تہران زیر نمبر 2830 میں موجود ہے.
* الاربعین فی فضائل امیر المومنین, اسکا دوسرا نام مناقب السادات ہے.یہ نیشنل یونیورسٹی پیرس, لندن اور تاشکنت میں موجود ہے.
* مثنوی.
ان کے علاوہ اور بہت ساری کتابیں انہوں نے تصنیف کی ہیں.
جس دوسری ہستی کا میں اب ذکر خیر کرنے جا رہا ہوں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں. مکہ مکرمہ زادہ اللہ شرفا و تعظیما میں اپنے وقت کے عالم نبیل محدث جلیل امام ابن حجر مکی علیہ رحمتہ اللہ القوی کے پاس اکتساب فیض کیا اور حدیث کا سماع کیا.اور خود جنہوں نے شیخ سرہند امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ النورانی کو حدیث پڑھائی. جن کا لقب امام اعظم ثانی ہے.میری مراد جامع الکمالات الصوری والمعنوی امام اعظم ثانی حضرت شیخ یعقوب صرفی رحمتہ اللہ علیہ ہے.یہ ہمارا فخر اور اعزاز ہے کہ ان کا تولد ہماری وادی میں ہوا.انہوں نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں تو بد قسمتی کی وجہ سے کچھ اب موجود نہیں ہے. کچھ مسودات کی شکل میں اب بھی باقی ہے.چند ایک کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے.
* تفسیر قرآن مجید جو مکمل نہ ہو سکا.
* تقریظ سواطع الالہام مصنفہ فیضی.
* شرح صحیح بخاری
* حاشیہ کتاب توضیح و تلویح
* دیوان صرفی. یہ ایس پی کالج کی لائبریری میں موجود ہے.
ان کتب کے علاوہ اور بھی بہت سی کتابیں انہوں نے لکھی ہیں.
ان کے علاوہ اور نہ جانے کتنے اولیاء کشمیر نے کتابیں تصنیف کی ہونگی.
لیکن افسوس! صد افسوس ! ہم ان اولیاء کرام رحمہم اللہ السلام کی کتابوں کو طبع نہ کرسکے.ہم.اس اثاثے کو کھو چکے ہیں.ہم ان اولیاء کرام رحمہم اللہ کی کتابوں سے استفادہ نہ کرسکے.ہم ان جواہرات کو اپنی زینت نہ بنا سکے. ان میں چند کتابیں ایسی بھی ہے جن کے اب خالی نام بچے ہیں ان کا وجود اب باقی نہیں رہا.باقی جتنی بھی کتابوں کا ابھی وجود باقی ہے ان کی طرف متعلقہ حکومتی ادارہ بے اعتنائی برت رہا ہے.اورکلچرل اکیڈمی بھی اسی کشتی میں سوار ہے.اس بارے میں یہ ادارے خاموش بیٹھی ہیں .ان کتابوں کی طباعت کے بارے میں کام کرنا تو دور کی بات ہے مجھے لگتا ہے کہ وہ ان کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہونگے.راقم نے جب وادی کے کچھ علماء کے ساتھ اس بارے میں بات کی تو انہوں نے صاف اور صریح الفاظوں میں کہا کہ ہم کرے تو کیا کرے. ہماری رسائی ان کتب تک نہیں ہے . کیونکہ ان کتابوں کےمخطوطے یہ تو حکومتی اداروں کے پاس ہے یا ان اولیاء کرام کے موجودہ سجادگان کے پاس ہے.کچھ مخطوطے تو کشمیر یونیورسٹی میں بھی موجود ہے.اور کچھ باقی ممالک کے کتب خانوں میں موجود ہے.ان مسودات کی صرف نمائش کرنے سے کیا حاصل ہوگا.جو علمی خزانے ان میں موجود ہے ان کا حاصل کرنا تو محال ہوجاتا ہے.اس نمائش سے تو ہم استفادہ نہیں کرسکتے یں بلکہ ان کے اندر جو جواہر اور موتی ان عظیم ہستیوں نے بکھیرے ہیں ان کو حاصل کرنے سے ہمیں فیض ملے گا اور ہمارا علم عروج پائے گا.
کلچرل اکیڈمی اور کچھ مطابع نے اگرچہ صوفی شعراء کے کلام طبع کرائے ہیں لیکن کچھ مطابع نے ان کی طباعت میں سنجیدگی سے کام نہیں لیا ہے.ان کلاموں کی ثقاہت پر کچھ اعتماد نہیں. بعض صوفی شاعر کے کلاموں کے کچھ اشعار تو کسی دوسرے صوفی شاعر کے مجموعے میں بھی موجود ہے.ان مطابع نے سب خلط ملط کیا ہے.ان صوفی شعراء کے کلام کی کیا خصوصیات ہے اس کا بیان یا تو صرف ریڈیو پر کیا جاتا ہے یا ٹی وی پر اور تھوڑا سا ان کی کتابوں پر.یہاں کے جو بھی ادیب, شاعر اور نقاد حضرات ہے ان کو چاہئے کہ وہ اس پر بھر پور کام کرے.ان کلاموں کی کیا خصوصیات ہے, فن شاعری کے کس معیار پر یہ شاعری کی گئی ہے اس پر قلم اٹھائے. اور سب سے اہم کام ان کلاموں کا ترجمہ اردو اور کشمیری اور انگریزی زبانوں میں بھی کیا جائے تاکہ ان کلاموں کو سمجھنا آسان ہوجائے اور جہاں جہاں ان صوفی شعراء نے محیر العقول اشعار کہے ہیں ان کی پردہ کشائی کرے اور ان کے معانی سہل اور آسان انداز میں بیان کرے تاکہ کسی قسم کا کوئی خدشہ نہ رہے.ان صوفی شعراء کے کلاموں کو باہر کے ممالک اور ریاستوں میں بھی بھیجا جائے تاکہ وہ بھی ہماری وادی کے ان عظیم ہستیوں سے واقف ہوجائے. اور ان کے کلاموں کو پڑھ سکے.
بہر حال ,آخر میں حکومت سے التماس ہے کہ ان عظیم مسودات کو زیور طبع سے آراستہ کرنے کے لئے “دارالترجمہ”کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں صرف علماء حقہ کا پینل ہو اور ان مخطوطوت کا ترجمہ کرنے کے لئے صرف علماء ہی کی خدمت لی جائے.باقی کسی بھی ادیب, شاعر وغیرہ کو دوسری کتابوں کے تراجم کرائے جائے. وہ اسلئے کیونکہ ان میں سے اکثر علم دین سے ناقف ہوتے ہیں. نہ تو وہ اصول حدیث سے باخبر ہوتے ہیں نہ ہی اصول فقہ سے واقف ہوتے ہیں .نہ تو علم تفسیر کی واقفیت ہوتی ہے اور نہ ہی علم البیان کا علم. میرا مقصد کسی کو طعن و تشنیع یا دل دکھانا نہیں ہے. بلکہ یہ اس لئے کہہ رہا ہوں. کیونکہ ان کتابوں میں اکثر بہت ہی دقیق اور ادق موضوع ہوتا ہے.جن کو سمجھنا غیر عالم کے لئے بہت ہی مشکل ہے بلکہ اگر محال بھی کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا.ان مترجمین علماء کو ہر سہولت حکومت مہیا کرائے. جتنے بھی مسودات ہماری اپنی وادی میں موجود ہے چاہے جدھر بھی ہو ان کو علماء کے سامنے لایا جائے اور جتنے مخطوطات باہر کی ریاستوں اور ممالک میں موجود ہیں ان کو بھی حکومتی سطح پر لایا جائے.تاکہ ان کا ترجمہ کیا جا سکے. ترجمہ کے بعد ان کتابوں کو باہر کے ممالک کے علماء کے پاس بھی بھیجا جائے تاکہ وہ بھی ان سے استفادہ کرسکے اور ان اولیاء کشمیر کی دینی خدمت سے واقف ہوجائے.یہ ان عظیم ہستیوں کو ہماری طرف سے اصل خراج تحسین کہلائے گا.اور سب سے بڑی بات ہم ان کتب سے علمی پیاس بجھا سکتے ہیں. حکومت اس بارے میں جتنی جلدی سے پیش رفت کرے وہ بہتر ہے.آخر میں ان لوگوں سے درخواست ہے جن کے پاس ایسے مسودات ہیں یا جن کو ان تک رسائی ہے وہ بھی اس عظیم کام میں اپنا کردار ادا کرے.
خدا کرے دل میں اتر جائے میری بات