وادی کشمیر کا ہر حصہ قدرتی خوبصورتی کا شاہکار ہے البتہ اگر ہم اس کے شمال میں واقع ضلع بانڈی پورہ کے گریز علاقے کا ذکرکریں تو گریز وادی نہ صرف بے حد خوبصورت ہے بلکہ یہ جگہ تواریخی اور تہذیب کے لحاظ سے بھی اپنی الگ شناخت بنائے ہوئے ہیں ۔ قارئین وادی گریز ضلع باندڈی پورہ سے دور ایک پہاڑی علاقہ ہے جو کہ سردیوں کے موسم میں زمینی رابطے سے ضلع ہیڈ کوارٹر سے کٹ کے رہ جاتا ہے ۔ اس کے ارد گرد بلند و بالا پہاڑی چوٹیاںہیں اور بیچ میں یہ وادی مختلف تہذیبوں کا سنگم ہے ۔ وادی گریز کی قدیم تاریخ ہے جو کہ وادی کشمیر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اس وادی نے مختلف ادوارکا مشاہدہ کیا ہے اور مختلف سلطنتوں کے زیر تسلط رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وادی گریز میں ملی جلی تہذیب پائی جاتی ہے ۔ تاہم وادی گریز میں درد قبیلے کے لوگ رہائش پذیر ہیں جو ”شینا “ زبان بولتے ہیں۔ شینا زبان ایک قسم کی پہاڑی قبائل کی زبان ہے ۔ گریز میںہندآرائی تہذیب ، ترک اور فارسی دور حکومت کے درمیان ایک رابطہ کے طور پر بھی کام کیا ہے ۔ کیوں کہ سٹریٹجک لحاظ سے یہ وادی کشمیر اور بلستتان کو ریشم روڑ کے ذریعے ملانے کی گواہ رہی ہے اور اس علاقے سے تاجروں اور مسافروں کا آنا جانا رہتا تھا اوریہ ایک اہم پڑاﺅ کے طور پر کام کرتی رہی ہے البتہ سیاسی حالات اور جغرافیائی تغیر وتبدل کی وجہ سے اس علاقے کی ہیت بھی تبدیل ہوتی گئی ۔ وادی گریز سے گزرنے والے قدیم تجارتی راستے کشمیر کو بقیہ وسطی ایشیا اور ایران سے ملانے کے لیے بہت اہم تھے۔ نتیجے کے طور پر، وادی نے متعدد اثرات کو جذب کیا ہے، بشمول بدھ، ہندو، فارسی، اور اسلامی روایات، ہر ایک خطے کے ثقافتی موزیک میں حصہ ڈال رہا ہے۔ گریز کی تاریخی اہمیت کے سب سے زیادہ دلکش پہلوو¿ں میں سے ایک مختلف مذہبی روایات کے سنگم کے طور پر اس کے کردار میں مضمر ہے۔ اگرچہ وادی آج بنیادی طور پر اسلام سے وابستہ ہے، لیکن اس کی تاریخ میں بدھ مت کی ایک اہم موجودگی شامل ہے۔ قدیم سٹوپا اور نوشتہ جات سمیت خطے سے آثار قدیمہ کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ موری سلطنت کے زمانے میں گریز بدھ مت کا ایک اہم مرکز تھا۔ تواریخی شواہد سے پتہ چلتاہے کہ عظیم حکمران اشوک جس نے برصغیر ہندوپاک میں بدھ مت کے پھیلاﺅ میں اہم کردار اداکیا تھا ممکنہ طور پر وادی میں قیام پذیر ہوئے تھے اور اپنے نقوش چھوڑ تے ہوئے یہاں پر بھی بدھ مت کا پرچار کیا تھا۔ تاہم جب وادی کشمیر میں اسلام کا پھیلاﺅ شروع ہوا تو گریز میں بھی 14ویں صدی عیسوی میں اسلام کا ظہور ہوا اور لوگوںنے اس مذہب کو اپنایا ۔ اس طرح سے وادی گریز اسلامی ثقافت اور تبلیغ کا مرکز بن گیا ۔ وادی گریز میں قدیم اسلامی نقوش موجود ہیں جن میں قدیم طرز کی مساجد ، مزارات ، صوفی بزرگوں کی آرام گاہ بنے ہوئے ہیں جو یہاں پر فارسی کے اثرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس طرح سے وادی میں صوفی تصوف کی موجودگی نے گریز کے مذہبی منظر نامے کو مزید تقویت بخشی، اور یہ آج بھی مقامی ثقافت کا ایک اہم پہلو ہے۔قارئین گریز کی اہم یہ بات رہی ہے کہ اس خطے نے کبھی بھی مذہبی منافرت کو جگہ نہیں دی بلکہ مساوات ، مذہبی بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دیا ۔
موجودہ دور میں بھی گریز وادی مذہبی رواداری اور بقائے انسانیت برقرار رکھی ہوئی ہے ۔ قارئین وادی گریز جوکہ وسطی ایشیاءاور جموں کشمیر کو آپس میں ملانے کےلئے ایک اہم راہداری کے طور پر مانا جاتا تھا لیکن تقسیم ہند کے بعد یہ خطے ہندوستان اور پاکستانی سرحد کے طور پر نمودار ہوا اور آج بھی یہ خطہ ہندوپاک سرحدی علاقہ کے طور پر سیاسی اور فوجی سٹریٹجک کے طور پر کھڑا ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس خطے نے وادی کشمیر کو 14ویں اور 15ویں صدی میں کشمیر کی سلطنت کو کئی بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے میں اہم رول اداکیا خاص کر مغل دور میں گریز ایک اہم دفاعی علاقہ ثابت ہوا تھا ۔
سیاسی اور جغرافیائی تغیر و تبدل کے باوجود بھی گریز کا خطہ کشمیری ثقافت ، تہذیب اور کلچر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ وادی کشمیر کے دیگر حصوں کی طرح گریز وادی میں روایات ، ثقافت لوک داستانوں اور مقامی زبان کی پناہ گاہ کے طور پر ہے ۔ وادی گریز زبانی کہانی سنانے کی ایک منفرد روایت کا گھر بھی ہے۔ نسل در نسل گزری ہوئی یہ کہانیاں نہ صرف وادی کی تاریخ بلکہ گریزی لوگوں کی اقدار، رسوم و رواج اور عقائد بھی رکھتی ہیں۔ بہادری، وفاداری، محبت اور قربانی کے موضوعات ان کہانیوں میں عام ہیں، جن میں اکثر زندگی سے بڑے ہیروز کو نمایاں کیا جاتا ہے۔یہاں پر روایتی دستکاری بھی پروان چڑھی ہے جن میں قالین بافی ، شال بافی ، کڑھائی کا کام اور لکڑی پر نقش و نگاری جیسی قدیم دستکاریاں گریز کی علامت بنی ہوئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ گریز میں موسیقی کاالگ رواج ہے جس اس کی تہذیب کو زند ہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں پر ادب ، شاعری اور صوفیانہ طرز عمل میں فارسی اور وسطی ایشائی ثقافتوں کا ملن بھی پایا جاتا ہے ۔ یہاں پر خاص طور پر صوفی روایات کا بول بالا زیادہ پایا جاتا ہے ۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیںکہ وادی گریز کشمیر کی ایک پہنچان ایک شناخت بنی ہوئی ہے ۔