سرینگر، 04 فروری: سالانہ تعلیمی صورتحال کی رپورٹ (ASER-2024) نے سرکاری اسکولوں کی سنگین صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ طلبہ کو پینے کے پانی، کمپیوٹرز اور مناسب بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان مسائل کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں طلبہ کے داخلے میں کمی کی وجہ سے معیاری تعلیم کی فراہمی مزید مشکل ہو رہی ہے۔
جے کے این ایس کو موصولہ رپورٹ کے مطابق، اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کی کمی، جیسے کہ پینے کے پانی، فعال کمپیوٹرز، اور مناسب صفائی ستھرائی، کے ساتھ ساتھ پرائمری اور اپر پرائمری اسکولوں میں طلبہ کے داخلے میں کمی پائی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، سال 2024 میں 84.8 فیصد اسکولوں میں طلبہ کے لیے فعال کمپیوٹرز موجود نہیں تھے، جبکہ 70.3 فیصد اسکولوں میں کمپیوٹرز کی سہولت سرے سے نہیں تھی۔ 2022 میں یہ تعداد 71.6 فیصد تھی۔ مزید یہ کہ 14.5 فیصد اسکولوں میں کمپیوٹرز تو موجود تھے مگر طلبہ کو ان تک رسائی حاصل نہیں تھی۔
اسی طرح، 25.2 فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی کی سہولت موجود نہیں تھی۔ رپورٹ کے مطابق، 19.1 فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی کی کوئی سہولت نہیں تھی، جبکہ 6.1 فیصد اسکولوں میں پانی کی سہولت تو تھی لیکن پانی دستیاب نہیں تھا، جو طلبہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔
رپورٹ میں اسکولوں میں صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ 44.3 فیصد اسکولوں میں مناسب بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں تھی، جبکہ 26.2 فیصد اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ اور قابلِ استعمال بیت الخلاء دستیاب نہیں تھے۔
اس کے علاوہ، 16.1 فیصد اسکولوں میں بیت الخلاء تو موجود تھے لیکن استعمال کے قابل نہیں تھے، جبکہ 1.9 فیصد اسکولوں میں سرے سے کوئی بیت الخلاء موجود نہیں تھا، جو حفظانِ صحت کے حوالے سے شدید تشویش کا باعث ہے۔
مزید برآں، 6 فیصد اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ بیت الخلاء تو موجود تھے لیکن وہ مقفل تھے، جبکہ 10.2 فیصد اسکولوں میں بیت الخلاء غیر مقفل مگر ناقابل استعمال تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 48.8 فیصد پرائمری اور اپر پرائمری اسکولوں میں طلبہ کے داخلے میں کمی واقع ہوئی ہے۔
2024 میں 92.8 فیصد پرائمری اسکولوں میں طلبہ کی کل تعداد 60 یا اس سے کم تھی، جو 2022 میں 86.9 فیصد اور 2018 میں 88.7 فیصد تھی۔
اسی طرح، 2024 میں 44 فیصد اپر پرائمری اسکولوں میں کل طلبہ کی تعداد 60 یا اس سے کم تھی، جبکہ 2022 میں یہ تعداد 47.5 فیصد اور 2018 میں 46.1 فیصد تھی۔
(جے کے این ایس)