قدرت نے اپنی لامحدود دانائی سے ہر انسان کو ایک منفرد شناخت عطا کی ہے – ہماری انگلیوں کے نشانات سے لے کر آنکھوں کی پتلیوں تک، ہمارے خیالات و تصورات سے لے کر ہماری صلاحیتوں اور کامیابیوں تک۔ انسانی انفرادیت کا یہ گہرا سچ ہماری معاشرتی پہچان کا ایک نمایاں پہلو رہا ہے، اور ہمارے تعلیمی نظام کو بھی اس انفرادیت کا عکس ہونا چاہیے۔ ہر بچہ کسی نہ کسی فطری صلاحیت کا حامل ہوتا ہے؛ کچھ علمی برتری سے چمکتے ہیں، کچھ تخلیقی صلاحیتوں میں مہارت رکھتے ہیں، جبکہ کچھ کھیلوں اور پیشہ ورانہ مہارت میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس انفرادیت کی عکاسی کرتے ہوئے، سوامی وویکانند نے کہا تھا ’’تعلیم وہ عمل ہے جس کے ذریعے پہلے سے موجود کمال کو انسان میں ظہور بخشا جاتا ہے۔‘‘
کسی بھی بچے کی فطری صلاحیت کو ابھارنا اور اسے تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں تخلیقی طور پر مشغول کرنا ہمارے تعلیمی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ بطور معلمین اور پالیسی ساز، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہر بچے کی انفرادی صلاحیتوں کی آبیاری کریں تاکہ وہ اپنے منتخب کردہ شعبے میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔ قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 نے اس حوالے سے ایک انقلابی تبدیلی متعارف کرائی ہے، جو نہ صرف صلاحیت کے تصور کو نئی جہت عطا کرتی ہے بلکہ ہر بچے میں موجود انفرادیت کے نازک اور منفرد خدوخال کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے، جو ہمارے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم کی بصیرت افروز قیادت میں، ہم تعلیمی نظام میں جامع اصلاحات متعارف کروا رہے ہیں تاکہ بچے کا تعلیمی سفر ہمیشہ دلچسپ اور یادگار رہے، اور اس پر کسی بھی قسم کا دباؤ یا تناؤ مسلط نہ ہو – نہ دورانِ تعلیم، اور نہ ہی امتحانات کے وقت۔ اسی نظریے کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم اور تحقیق تک کے تمام مراحل میں بنیادی اصلاحات کر رہے ہیں، تاکہ تعلیم کو مزید بامقصد اور خوشگوار بنایا جا سکے۔
چند سال قبل، بال واٹیکا یا کھلونوں پر مبنی سیکھنے کے تصور کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ آج، قومی تعلیمی پالیسی(این ای پی)کی بدولت، یہ جدید طریقے ابتدائی تعلیم میں انقلاب برپا کر رہے ہیں، جس سے سیکھنے کا عمل کوئی بوجھل ذمہ داری نہ ہوکر ایک خوشگوار تجربہ بن گیا ہے۔ ہمارا نیا تعلیمی نظام اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ ہر بچہ اپنی فطری صلاحیت کے مطابق پروان چڑھتا ہے۔
قرضوں کے تبادلے سے متعلق ہماری پالیسی، جو اکیڈمک بینک آف کریڈٹ کے قیام کی بنیاد رکھتی ہے، ایک اور جدید اقدام کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ پالیسی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ زندگی کا سفر ہمیشہ سیدھا نہیں ہوتا، بلکہ پیچیدہ اور متنوع تجربات سے بھرپور ہو سکتا ہے، اور سیکھنے کا عمل مختلف حالات اور رفتار میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات سیکھنے والے رسمی تعلیم کو موقوف کر سکتے ہیں تاکہ وہ کسی مخصوص دلچسپی کو آگے بڑھا سکیں، عملی تجربہ حاصل کر سکیں یا اپنے خاندان کی مدد کر سکیں۔ جب وہ دوبارہ رسمی تعلیم کی طرف لوٹتے ہیں، تو ان کے حاصل کردہ تجربات اور کامیابیاں ان کے تعلیمی کریڈٹ ریکارڈ میں شامل کی جاتی ہیں اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ لچکدار نظام اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ سیکھنے کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، اور افراد کسی بھی مرحلے پر دوبارہ تعلیمی نظام کا حصہ بن سکتے ہیں۔
حکومت اس بات کا پختہ عزم رکھتی ہے کہ امتحانی کامیابی کبھی بھی ہمہ جہتی ترقی پر حاوی نہ ہو اور نہ ہی ہمارے نوجوانوں کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچائے۔ اس اہم چیلنج کو تسلیم کرتے ہوئے، حکومت نے امتحانات سے متعلق دباؤ کو کم کرنے کو قومی ترجیح بنا دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انقلابی اقدام ’’پریکشا پہ چرچا‘‘ نے طلبہ، والدین اور اساتذہ کے لیے امتحانات سے متعلق سوچ کو تبدیل کرنے کے عزم کی توثیق کی ہے۔ وزیر اعظم کی طلباء، والدین اور سرپرستوں کے ساتھ گفتگو نے امتحانی پریشانی کو ایک قومی مکالمے میں بدل دیا ہے۔ انہوں نے سالوں کی محنت سے امتحان سے جڑی غیر ضروری پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے جو کم عمر ذہنوں پر بوجھ بن جاتی ہے۔ ان کے عملی مشورے، جو ان کے ذاتی تجربات سے اخذ کیے گئے ہیں، امتحان دینے والے طلباء میں بے حد مقبول ہوئے ہیں، جس کی بدولت وہ بغیر کسی پریشانی کے، بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ایک حقیقی قیادت کی مثال کے طور پر، ہم ایک بصیرت افروز رہنما کی جانب سے نوجوان نسل کی تعمیر کے عزم کو دیکھ رہے ہیں، جو قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور ملک کی مسلسل پیش رفت کو یقینی بنا رہی ہے۔
والدین اور شہری معاشرہ اس تبدیلی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ پریکشا پہ چرچا نے ذہنی صحت اور معاون تعلیمی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ایک انقلابی کردار ادا کیا ہے۔ اس سوچ کو مزید فروغ دینے اور تمام تعلیمی مراحل میں عام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ صرف دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات تک محدود نہ رہے۔ امتحانات سے متعلق دباؤ اور ذہنی تناؤ کو، سیکھنے کے تمام مراحل سے ختم کرنا ناگزیر ہے تاکہ تعلیم ایک خوشگوار، ترقی پسند اور بامقصد تجربہ بن سکے۔
ربندر ناتھ ٹیگور نے ایک دانشمندانہ بات کہی ہے کہ، ’’کسی بچے کو آپ اپنے زمانے کی تعلیم تک محدود نہ رکھو، کیونکہ وہ دوسرے زمانے میں پیدا ہوا ہے۔‘‘ ہماری تعلیمی اصلاحات کا نظریہ اسی بصیرت سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ یہ سوچ کہ تعلیم میں دباؤ ناگزیر ہے، اب اس فہم سے بدلنی چاہیے کہ حقیقی سیکھنے کا عمل ایک معاون اور پرورش پانے والے ماحول میں ہی فروغ پاتا ہے۔ جب معاشرہ، اساتذہ اور خاندان مل کر ایک ایسا ماحول تشکیل دیتے ہیں جہاں طلبہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں، تو کامیابی خودبخود آتی ہے۔ کلاس روم سے کھیل کے میدان تک، فنی تربیت کے مراکز سے تحقیقاتی تجربہ گاہوں تک، ہمیں ایسے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے جہاں مختلف صلاحیتوں کو ابھرنے اور پروان چڑھنے کا موقع مل سکے۔ روایتی ’’یکساں نظام برائے تمام‘‘ کے بجائے، ہمیں ایک ایسا حساس اور مربوط تعلیمی ڈھانچہ اپنانا ہوگا جو ہر فرد کی انفرادی قابلیت کو پہچان کر اسے پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہو۔
جیسے جیسے ہم وِکَسِت بھارت کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں، ہمارا تعلیمی نظام قومی ترقی کے ایک اہم ستون کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر مہارت کی اپنی قدر ہے، ہر تعلیمی سفر کی اپنی اہمیت ہے، اور ہر بچے کو اپنی مخصوص راہِ کمال دریافت کرنے کا حق حاصل ہے۔ جب ہم مختلف صلاحیتوں کی آبیاری کرتے ہیں، تو ہم نہ صرف اپنے معاشرتی ڈھانچے کو مضبوط بناتے ہیں بلکہ ہر میدان میں اپنے ملک کی استعداد کو بھی بڑھاتے ہیں۔
آج، میں اپنے ملک کے سبھی والدین، اساتذہ، اور شہریوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ تعلیم کی یہ تبدیلی محض حکومت کا ایک منصوبہ نہیں، بلکہ یہ ایک قومی مشن ہے جو ہم سب کے اجتماعی عزم اور متفقہ سوچ کا متقاضی ہے۔ ہم تبھی اپنے اہداف حاصل کر سکیں گے جب حکومت اور شہری معاشرے کے درمیان شراکت اور تعاون ہماری پالیسیوں اور اقدامات کی بنیاد بنیں گے۔
ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ وہ اپنی منفرد صلاحیتوں کے ساتھ ملک کا نام روشن کریں گے۔ ایک تابناک مستقبل ہماری راہ دیکھ رہا ہے۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ ہر بچے کی انفرادیت ہی بھارت کے مستقبل کی انفرادیت ہے۔ تناؤ سے پاک سیکھنے کا نظام ہمارے بے پناہ باصلاحیت طلبہ کی مخصوص صلاحیتوں کو نکھارنے کی کنجی ثابت ہوگا۔
(Shri Dharmendra Pradhan Minister of Education Government of India)