قارئین کشمیر کی ایک اپنی تاریخ ہے ، اس خطے کا نام کشمیر کیسے پڑااس میں مورخین کے بیچ میں اگرچہ اختلاف نہیں ہے البتہ اس کے نام کے بارے میں کئی باتیں عام ہے ۔ کہتے ہیں کہ کشمیر ”کاشیا پا میرا یا کاشیاپا مار “ پر پڑا ہے جس کے سنسکرت میں معنیٰ کسمیر ہے جس کا مطلب پانی سے خشک کے ہیں یعنی وہ جگہ جہاں پہلے پانی پایا جاتا تھا اور اب خشک زمین ہے ۔ اگر ہم راج ترنگی میں موجود کشمیر کے نام کے بارے میں جانکاری کا مشاہدہ کریں تو وہاں کشمیر کو ”کشپ “ سے نکالا گیا ہے ۔ مانا جاتا ہے کہ ”ایک ریشی کا نام کشپ تھا “ جس نے کشمیر جو کہ پہلے وسیع جھیل تھی سے پانی نکال لیا ۔ اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے البتہ یہاں اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ قارئین کشمیر وادی کی جہاں تک تہذیب کلچر کی بات ہے تو وادی کشمیر ہمیشہ سے ہی علم و ثقافت ، عمدہ تمدن کی جگہ رہی ہے ۔ شہنشاہ اشوک کے دور میں کشمیر میں بدھ مت کی تعلیم عام ہوئی جبکہ اس سے قبل ہندومت کا مرکز رہا ہے ۔ اشوک کے دور میں بدھ مت نے فروغ پایا اور وسطی ایشیاءتک کشمیر کا رابطہ بڑھا ۔ قارئین 14ویں عیسوی میں کشمیر میں اسلام آیا اور حضرت بلبل شاہ ؒ اور شاہ ہمدان ؒ نے اسلام کے فروغ میں اہم کردار نبھایا جبکہ شیخ نور الدین نورانی جنہیں عرف عام میں نند ریشی کہتے ہیں نے صوفی طرز پر اسلام کو فروغ دیا ۔
اس طرح سے کشمیر میں ہندو مت ، بدھ مت اور اسلام کے ماننے والوں کے نام پر کشمیر کو کشمیریت پڑا جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ہی سرزمین میں ایک ساتھ زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ آپس میں مل جھل کرر ہے ہیں اور ذہنی طور پر سبھی لوگ انصاف پسند اور انسانیت پسند ہیں جس نے کشمیر کی ایک منفرد شناخت قائم کی جس میں بھائی چارے اور ہمدردی کا عنصر ہے ۔وادی کشمیر میں کئی حکمرانوں نے حکمرانی کی ہے اب اگر ہم مغل دور کی بات کریں تو 1586سے لیکر 1752تک ہندوستان میں مغل کے دور حکمرانی میں کشمیر فن تعمیر ، صنعت و حرفت اور دستکاری کے لحاظ سے کافی فروغ پایا جس سے خطے کی معاشی حالت بہتر ہوتی گئی ۔ وادی کشمیر جس کو جنت بے نظر کہا جاتا ہے کی قدرتی خوبصورتی سے مغل کافی متاثر ہوئے جنہوںنے کشمیر میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری کےلئے کام کیا اور اس جگہ پر اپنے دور کی کئی تاریخی نشانیاں چھوڑ دیں۔ مغلوں کے بعد اس خطے پر افغانوں، سکھوں اورانگریزوںنے بھی حکومت کی اور آخر میں 1846میں اس خطے کو مہاراجہ گلاب سنگھ کے تحت ڈوگرہ حکمران کو سونپ دیا ۔قارئین یہ بات یہاں ضرور دوہرانی چاہئے کہ ہندوستان جب انگریزوں کے تسلط سے 1947میں آزاد ہوا تو اُس وقت انگریز حکمرانوں نے اس ملک کو دو حصوں میں بانٹ دیا ایک ہندوستان اور دوسرا پاکستان چنانچہ اس تقسیم کو مذہبی بنیادوں پر عملایا گیا اور ریاستوں کو یہ انتخاب کرنا تھا کہ وہ ہندوستان میں شامل ہوں یا پاکستان میں البتہ جہاں تک جموں کشمیر کی بات ہے تو اُس وقت کے یہاں کے ڈوگرہ حکمران مہارجہ ہری سنگھ کسی بھی ملک کے ساتھ جانے میں راضی نہیں تھے کیوںکہ ریاست پہلے سے ہی آزاد تھی اور وہ آزاد ہی رہنا چاہتے تھے ۔
لیکن جب پاکستانی قابائیلیوںنے کشمیر پر حملہ کیا تو مہاراجہ ہر سنگھ نے مجبوری میں ہندوستان سے مدد طلب کی تاکہ پاکستان کو اس خطے سے دور رکھا جاسکے۔ انہوںنے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کئے اور اس طرح سے یہاں پر ہندوستان کا کنٹرول شروع ہوا جبکہ اس قبائلی حملے میںکچھ حصے پاکستان کے زیر کنٹرول آئے جن میں گلگت بلتستان ، مظفرآباد اور دیگر علاقے شامل ہیں جبکہ بھارت نے لداخ کشمیر اور جموں کا کنٹرول سنبھال لیا ۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ اس تقسیم کاری کے بعد کشمیر میں قریب قریب امن کا ماحول رہا اور یہاں پر سبھی مذاہب کے لوگ آپسی بھائی چارے کی مثال بنے اور ایک ساتھ رہنے لگے ۔ تاہم کشمیر کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی اور 1989میں یہاں کشیدگی بڑھنے لگی ۔ پاکستان کی جانب سے کئی عسکری جماعتوں کو حمایت ملی اور ہتھیار فراہم کئے گئے اس طرح سے کشمیر میں آگ و آہن کا دور شروع ہوا ۔ پاکستانی حمایت یافتہ گروپوں میں لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموںنے یہاں پر حالات بگاڑنے شروع کئے اور کئی لوگوں کی جان لی جبکہ کشمیری پنڈت بھی ان کی دھمکیوں اور تشدد کی وجہ سے یہاں سے مائیگریشن کےلئے مجبور ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں کشمیری پنڈت وادی سے چلے گئے اور جموں میں مقیم ہوے ۔ اس بیچ ہندوستان کی جانب سے اس شورش کو دبانے اور حالات کو معمول پر لانے کےلئے کارروائیاں شروع ہوئیں اور سال 2000تک حالات میںکافی سدھار آیا البتہ سال 2016میں برہان وانی احتجاجی لہر اور 2019میں پلوامہ حملے جیسے واقعات نے پھر سے یہاں پر حالات کو بگاڑ دیا اور ہندوستان اور پاکستانی فوج کے مابین سرحدوں پر کشیدگی بڑھ گئی ۔ لیکن سال 2019میں ہی اگست 5کو ہندوستان نے جموں کشمیرکو حاصل خصوصی اختیارات کو ختم کرکے اس کو دو حصوں میں بانٹ دیا ایک لداخ یونین ٹریٹری اور دوسرا جموں کشمیر یوٹی میں تبدیل کیاگیا ۔ اس کے ساتھ ہی انسداد دہشت گردی اور اعلیحدگی پسندی کوختم کرنے کےلئے بھی سخت گیر اقدامات اُٹھائے گئے ۔
اس طرح سے وادی کشمیر میں حالات میں کافی بہتری آئی اور نہ صرف امن و قانون کی صورتحال بہتر بنی بلکہ سیاحت کو فروغ ملا ، تعمیر و ترقی کی نئی شروعات ہوئی اور تعلیم ، صحت اور دیگر سیکٹروں کو فروغ ملا جس کی وجہ سے یہاں پر لوگوں کو کافی راحت ملی ۔ تاہم دفعہ 370کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے مابین سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا جبکہ عالمی سطح پر بھی بھارت کے اس اقدام پر تنقید کی گئی ۔ دوسری طرف کشمیر ی عوام بھی اپنے سیاسی مستقبل کےلئے فکر مند ہے اور ایک ایسا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں جس سے خطے میں نہ صرف امن رہے بلکہ لوگوں کی خواہش بھی پوری ہو۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر کے ماضی اور حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے مستقبل کےلئے ایک بہترین اور حل تلاش کیا جائے اور کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے ان کے زخموں پر ملحم لگانے کا کام کیا جائے ۔