وادی کشمیر میں خواتین نے ہر دورمیں سماجی کی بہتری کےلئے اہم رول نبھایا ہے ، یہاں کی خواتین نے ہر شعبے میں نمایاں کاکردگی کا مظاہرہ کئے جانے کے باوجود بھی انہیں اکثر اوقات نظر انداز کیا گیا ہے ۔ اگرچہ سماج میں کشمیری خواتین نے سیاسی لحاظ سے بھی اپنی خدمات انجام دی ہیںلیکن اسے نہ صرف سیاسی استحصال کا شکار بنایا گیا ہے بلکہ سماجی طور پر بھی ان کی کوششوں میں رُکاوٹ پید ا کی گئی ہیں۔ قارئین کشمیری خواتین کے استحصال کی کہانی آج کی نہیں ہے بلکہ ان کا ہر دور میں استحصال کیا گیا ہے چاہئے وہ جاگیردارانہ نظام ہو، نو آبادیاتی حکمراتی کا دور ہو یا انہیں معاشی لحاظ سے بھی پسماندہ رکھا گیا اور تعلیم ، سماج اور دیگر شعبوں میں بھی ان کو پیچھے ہی رکھا جاچکا ہے ۔ خاص طور پر اگر ہم روایتی سماجی آزادی کی بات کریں تو انہیں گھریلو خدمات تک ہی محدود رکھا گیا ہے اور سماج میں کشمیری خواتین کو اپنی آزادی کے مطابق نہ چلنے پھرنے کا اختیار تھا اور ناہی مردوں کے برابری کا کام کرنے کا حق حاصل تھا ۔ جہاں تک آج سے کچھ دو سال پہلے کی بات کریں تو 1846سے لیکر 1947تک جب وادی کشمیر میں ڈوگرہ حکمران تھے اُس دور میں سب سے زیادہ خواتین کو ایذیت برداشت کرنی پڑی ۔ اُس وقت کی ڈوگرہ حکومت نے کاشتکاروں پر جو ٹیکس لگائے یا لگان دینے کا قانون نافذ کیا تھا اُس وقت مردوں کو دوگنا کام کرنا پڑتا تاہم خواتین کو بھی ان مردوں کے ساتھ ساتھ ان کی معاونت کرنی پڑتی اور کسانوں میں مزدوروں کی طرح سے کام کرنا پڑتا تھا لیکن جہاںتک سماج میںفیصلہ سازی کی بات تھی تو خواتین کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ کسی بھی معاملے میں اپنے رائے ظاہر کریں یہاں تک کہ اگر کوئی معاملہ خواتین کا تھا تو اس میں بھی مرد ہی یہ اختیار رکھتے تھے کہ وہی بات کریں۔ اس دور میں کشمیری خواتین کو سماجی لحاظ سے بھی اور تعلیمی لحاظ سے بھی پسماندگی کا سامنا رہا اور ان کےلئے تعلیمی رسائی محدود تھی ۔اس بیچ برصغیر میں 20ویں صدی کے اوائل میں سیاسی حالات بدلنے شروع ہوئے اور صورتحال مخدوش ہوتی گئی اس دور میں کشمیری خواتین کو بھی کئی طرح کے مصائب جن میں نقل مکانی ، ذہنی دباﺅ اور جسمانی تشدد
اور ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
تاہم ان مشکلات کے باوجود بھی کشمیری خواتین نے ہمت نہیں ہاری اور ہر ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور ہر فیلڈ میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہیں۔ قارئین جیسا کہ بتایا گیا کہ مخدوش حالات میں کشمیری خواتین کوکئی طرح کے مسائل جھیلنے پڑے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ہوتی رہیں ۔ البتہ کشمیری خواتین میں ایک پروینہ آہنگر جس نے 1990میں ان حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اُٹھائی اور اپنے ایک فرزند کی جبری گمشدگی کے بعد گمشدہ افراد کے والدین کی ایک انجمن قائم کی ۔ اس طرح سے پروین آہنگر ایک عورت ہونے کے باوجود بھی ایک مضبوط آواز بن کر اُبھریں جنہوں نے ہزاروں خاندانوں کے حق میں آواز بلند کیں جن کے بچے یا افراد خانہ جبری گمشدگی کے شکار ہوئے تھے اور ابھی تک ان کاکہیں اتہ پتہ نہیں چل سکا ۔ پروینہ آہنگر نے ان کنبوں کے لئے انصاف کی لڑائی لڑنے میں جو روال اداکیا اس نے اسے عالمی شہرت دلائی ۔
اسی طرح سے سرحدی ضلع کپوارہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ڈاکٹر رویدہ اسلام جس نے سماجی اصولوں کے خلاف جاکر انڈین پولیس سروس میں شمولیت اختیار کی اور ایسا کرنے والی پہلی کشمیری خاتون بن گئیں۔ اس طرح سے رویدہ اسلام نے یو پی ایس سی سول سروسز امتحان پاس کرکے وادی کشمیر کی خواتین کےلئے ایک راہ نکالی جو اپنے بل بوتے پر اپنی مرضی سے کسی شعبے میں کام کرنے کا شوق رکھتی ہیں۔
اسی طرح شمالی کشمیر کے ہی ایک اور ضلع بارہمولہ کی عائشہ عزیز ہندوستان کی سب سے کم عمر طالبہ پائیلٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا ۔ اس نے بعد میں یوری گاگارین اسپیس سینٹر میں روسی خلابازوں کے ساتھ تربیت حاصل کی اور ہوا بازی میں خواتین کے بارے میں دقیانوسی تصورات کو توڑتے ہوئے اپنا کمرشل پائلٹ لائسنس حاصل کیا۔جیسا کہ یہ بات عام تھی کہ طیارے اُڑانے کا کام صرف مرد ہی انجام دے سکتے ہیں لیکن اس کم عمر لڑکی نے اس بھرم کو توڑ دیا اور دیگر لڑکیوں کےلئے یہ ایک آئیڈل کے طور پر اُبھریں ۔
اسی طرح وادی کشمیر کی بہت سی خواتین نے مختلف شعبوں میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے سماج میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے ان ہی میں سے ایک اور خاتین بلقیس لطیف ہے جس نے نے وادی کشمیر میں خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے خطے میں خواتین کے زیر انتظام کاروبار، خاص طور پر ہینڈ لوم اور دستکاری کے تصور کو آگے بڑھایا، جس سے ہزاروں کشمیری خواتین کو روزگار ملا۔ اس کی کوششوں نے روایتی دستکاری کو بحال کیا ہے اور خواتین کو مالی طور پر خود مختار بننے کے لیے بااختیار بنایا ہے۔بلقیس لطیف کی بدولت ایسی بے شمار خواتین کو روزگار ملا ہے جو سماجی بندھنوں کی وجہ سے کچھ کرنے سے قاصر تھیں تاہم اب وہ معاشی لحاظ سے کافی مضبوط بن گئیں ہیں۔ اسی طرح اگر ہم دیگر خواتین کا ذکر کریں تو ان میں ایک اور خاتون نگہت شفیع کانام ہے جس نے ہیلپ فاونڈیشن کی بنیاد رکھی اور وادی میں مخدوش حالات کی وجہ سے متاثرہ خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کےلئے کام کرتی ہیں اور انہیں بااختیار بنانے کےلئے انہیں ہنر مندی کی تربیت دیتی ہیں ۔ڈاکٹر غزالہ امین کشمیر میں خاص طور پر نامیاتی کاشتکاری اور ضروری تیل کی پیداوار میں ایک اہم کاروباری شخصیت ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب کاروبار میں خواتین نایاب تھیں، اس نے زراعت میں قدم رکھا اور کامیابی سے ایک ایسا برانڈ بنایا جس میں بہت سی مقامی خواتین کو ملازمت ملی۔ پائیدار کھیتی باڑی میں اس کے تعاون نے دوسروں کو نامیاتی اور ماحول دوست صنعتوں کو تلاش کرنے کی ترغیب دی ہے۔غزالہ کی کوششوں سے کاشتکاری کے شعبے میںخواتین کےلئے راہ ہموار ہوئی اور نامیاتی کاشتکاری میں خواتین کی شمولیت سے اس شعبے کو ایک نئی جہت ملی ہے ۔ قارئین اسی طرح دیگر خواتین نے بھی سماج میں مختلف شعبوں میں رول نبھایا ہے چاہئے وہ کھیل ہو یا اور کوئی فیلڈ ہو ۔ کھیل کے میدان سے اگر ہم بات کریںتو ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی تجمل اسلام نے محض 8سال کی عمر میں سال 2026میں ورلڈ کک باکسنگ چمپین شپ جیت لی ۔ تجمل اسلام نے نہ صرف اپنے ضلع بانڈی پورہ بلکہ پورے جموں کشمیر کا نام روشن کیا ور ان لڑکیوں کےلئے تحریک بنیں جو اس کیک باکسنگ جیسے سخت کھیلوں میں آناچاہتی ہے ۔
غرض آج کل کشمیری خواتین مختلف رُکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنے ہدف کو حاصل کررہی ہیں اور تعلیم ، کھیل کود، سماجی بہبود ، ہیلتھ ، سیاست اور دیگر شعبوں میں آگے بڑھ رہی ہیں ۔ اس طرح سیاست سے لیکر میدان کھیل تک خواتین کی شمولیت وادی کشمیر میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا اشارہ کرتی ہے جس میں خواتین ہر فیلڈ میں قیادت کرنے کے سفر پر چل پڑی ہیں۔قارئین آج کل سوشل میڈیاکا دور ہے اور آج شول میڈیا کے ذریعے ایسی خواتین کی کہانیاں لوگوں کے سامنے آتی ہیں جنہوںنے اپنی انتھک جدوجہد میں کوئی ہدف حاصل کرلیا ہے ۔ خواتین سوشل میڈیا کے ذریعے دقیانوسی خالات کو مات دیکر ڈیجیٹل ورلڈ میں انٹری کررہی ہیں اور صنفی مساوات کے خلاف آواز اُٹھارہی ہے اس طرح سے ایسے شعبوں میں بھی خواتین اپنا رول اداکرتی ہیں جہاں پر پہلے ان کی شمولیت عیب سمجھی جاتی تھی۔
کشمیری خواتین کی جانب سے باختیار ہونے کے باوجود بھی انہیں آج بھی کئی طرح کے چلینج درپیش ہیں اور کئی رُکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں خاص طور پر دور دراز علاقوں میں خواتین کو بہتر تعلیم تک رسائی نہ ہونا ، بنیادی ضروریات کا فقدان وغیرہ شامل ہے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو مزید بااختیار بنانے کےلئے اقدامات اُٹھائے جائیں ۔