وادی کشمیر حمالیائی پہاڑی سلسلے کے شمالی حصے میںواقع ایک خوبصورت خطہ ہے جہاں پر ہر علاقہ کی الگ الگ شناخت اورروایات موجود ہیں جو اس خطے کی تہذیب اور تاریخی پس منظر کو اُجاگر کرتے ہیں ۔ ان ہی علاقوںمیں شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں گریز ایک ایسا علاقہ ہے جو نہ صرف قدرتی خوبصورتی ، قدرتی وسائل اور آب و ہوا کےلئے مشہور ہے بلکہ اس خطے کا رہن سہن ، پہناوا بھی مختلف ہے جو گریز کے باشندوں کی ایک الگ پہنچان بنائے رکھے ہوئے ہیں ۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ وادی گریز کے مکینوں کی زبان کشمیری نہیں ہے بلکہ ان کی الگ زبان ہے جس کو شینا کہا جاتا ہے ۔ شینا برادری پہاڑی قبیلوں پر مشتمل ہے اور شینا کے لوگوں کے ملبوسات، زیورات الگ ہیں جس سے قبیلی لوگوںکی پہنچان بنتی ہے ۔قارئین اگر ہم گریز کے لوگوں میں سے مردوں کے پہناوے کی بات کریں تو گریز میں مرد ایک لمبا اونی زیب تن کرتے ہیں جو گھٹنوں تک ہوتا ہے جس طر ح سے کشمیر میں فرن ہے اسی طرح یہ بھی ایک کرتہ کی مانند ہے ۔ جو اکثر اونی قمیض اور ڈھیلے پتلون پر پہنا جاتا ہے۔ اسی طرح لوگ مختلف سیزنوں میں مختلف کپڑے پہنتے ہیں جیسا کہ سردیوں میں عام طور پر خان ڈریس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ جبکہ سردی کے موسم میں مقامی طور پر حاصل کردہ اون سے بنے کپڑے پہنے جاتے ہیں کیوںکہ یہ کافی گرمی دیتے ہیں اس طرح سے سرد موسم میںیہ کپڑے انہیں سخت ترین سردی سے بچاتے ہیں۔ اپنے لباس کو مکمل کرنے کے لیے، مرد اکثر گوریزی ٹوپی پہنتے ہیں، یہ ایک الگ سر کا پوشاک ہے جو پاکستان میں گلگت بلتستان میں پہنی جانے والی ٹوپی سے ملتا ہے۔ ٹوپی عام طور پر نرم اون سے بنائی جاتی ہے اور اسے مختلف انداز میں پہنا جا سکتا ہے۔ اس روایتی ٹوپی کو اکثر پنکھوں یا چھوٹے کڑھائی والے نقشوں سے سجایا جاتا ہے، جو علاقائی فخر اور شناخت کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ سردیوں کے دوران مرد دیگر جدید کپڑے جیسے جیکٹ ، جھرسیاں اور مختلف دیگر کپڑے بھی پہنتے ہیںتاکہ سردی سے بچاجاسکے ۔ قارئین کشمیر میں پہنچا جانا والا فرن گریز میں بھی پہنچا جاتا ہے خاص کر اگر ہم خواتین کے لباس کی بات کریں تو خواتین کے پہناوے کا حصہ فرن اہم ہے ۔ جیسا کہ یہ بات آپ کو پتہ ہوگی کہ ”فرن “ اون سے بنا ہوا ایک لمبا چغہ کی طرح ہوتا ہے اور خواتین گریز میں اسی کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ ”فرن “ سردیوں سے بچاﺅ کےلئے ایک موثر کپڑا ہے ۔ خواتین ان ”فرنوں“ کو زیب دیدہ بنانے کےلئے ان پر کڑھائی کرتی ہیں اور مختلف ڈیزائن بناکر اس کو سجاتے ہیں ۔ تاہم گریز میں اس فرن کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کو زیادہ لمبا رکھا جاتا ہے اور کمر پر بلٹ کی طرح ایک پٹی باندھی جاتی ہے ۔ خواتین کے فرن بنانے کے لیے استعمال ہونے والا مواد مختلف ہو سکتا ہے، جس میں روزمرہ کے استعمال کے لیے اون سے لے کر خاص مواقع اور تہواروں کے لیے ریشم یا مخمل جیسے باریک کپڑے تک شامل ہیں۔ فیرن کے علاوہ، خواتین بھی نیچے ڈھیلی پتلون پہنتی ہیں اور سردیوں کے دوران، سردی سے بچاو ¿ کے لیے اپنے آپ کو موٹی اونی شالوں اور اسکارف سے ڈھانپ لیتی ہیں۔ ان شالوں کو اکثر کڑھائی والے ڈیزائن اور نمونوں سے مزین کیا جاتا ہے جو گوریز کی قدرتی خوبصورتی کی عکاسی کرتے ہیں، جس میں مقامی نباتات اور حیوانات سے متاثر پھولوں اور ہندسی شکلیں ہیں۔ خواتین اسکارف یا سر ڈھانپتی ہیں جسے چادر یا دوپٹہ کہا جاتا ہے، جو نہ صرف شائستگی کی علامت ہے بلکہ لباس میں جمالیاتی کشش بھی شامل کرتی ہے۔ سر کے
ڈھانپے کو بعض اوقات ٹاسلز یا موتیوں سے سجایا جاتا ہے، جو مجموعی جوڑ کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافہ کرتا ہے۔قارئین وادی کشمیر کے ہر خطے میں یہ روایات ہے کہ خواتین اپنے سروںکو ڈھانپے رکھتی ہیں چاہئے گرمی کا سیزن ہو یا سردموسم ہے مختلف کپڑوں یا دوپڑوں سے سر ڈھانپا نہ صرف روایت ہے بلکہ یہ تہذیب اور شائستگی کے ساتھ ساتھ پردہ بھی ہے اسی طرح وادی گریز کی خواتین بھی اس پردہ کا پابندی سے استعمال کرتی ہیں اگرچہ مودہ دورمیں دوپٹہ کے مختلف قسمیں ہیں یہاں کی خواتین بھی موجودہ دور کے لحاظ سے ان کا استعمال کرتے ہوئے اپنی شناخت تہذیب کو تحفظ فراہم کررہی ہیں۔ قارئین جموں کشمیر کے ہر خطے میں پہنانے کے علاوہ خواتین اپنے آپ کو سنوارنے کےلئے مختلف زیوات کا استعمال کرتی ہیں اسی طرح گریز وادی سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی زیوارات کا استعمال کرتی ہیں اور جیولری وادی گریز میں روایتی لباس کا ایک لازمی حصہ ہے، جو خوبصورتی، ثقافتی شناخت اور سماجی حیثیت کی علامت ہے۔ گریز جیولری کے ڈیزائن اور منفرد انداز وادی کی تاریخ کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا، لداخ اور کشمیر جیسے پڑوسی خطوں کے ساتھ تعاملات سے متاثر ہیں۔ روایتی زیورات اکثر ہاتھ سے تیار کیے جاتے ہیں، چاندی، تانبے اور نیم قیمتی پتھروں کا استعمال کرتے ہوئے، اور خاص مواقع، تقریبات اور تہواروں کے دوران پہنا جاتا ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان زیوات میں لمبے جھمکے جو کہ زیادہ سے سفید چانی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ سر پر پہنی جانی والی ڈوپی کو بھی ان چاندی کے زیوارت سے مزئین کیا جاتا ہے ۔ گوریزی زیورات کی ایک نمایاں خصوصیت پیٹی ہے، جو چاندی کا ایک سر پیس ہے جو پیشانی پر پہنا جاتا ہے۔ گریز میں خواتین شادیوں، تہواروں اور دیگر ثقافتی تقریبات کے دوران پٹی پہنتی ہیں، کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اچھی قسمت اور تحفظ لاتی ہے۔خواتین کی جانب سے پہنے جانے والے زیورات میں مختلف چیزیں ہوتی ہیں جن میں خاص طور پر ”ٹکا “ ہے یہ پیشانی پر پہنچا جاتا ہے ٹکا زیادہ تر چاندی سے بنایاجاتا ہے اس کو بہت ہی عمدہ کاریگری سے سجایا جاتا ے ۔ اسی طرح کان کی بالیاں، جنہیں مقامی طور پر کنڈالاس کے نام سے جانا جاتا ہے، گریز میں روایتی زیورات کا ایک اور لازمی جزو ہے۔ یہ عام طور پر بڑے اور چاندی یا دیگر دھاتوں سے تیار کیے جاتے ہیں ۔ ان کو موتی اور چھوٹے لاکٹ سے بھی سجایا جاتا ہے اور یہ ایک منفر شناخت قائم رکھنے کےلئے یہاں کی خواتین استعمال کرتی ہیں۔ جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ کانوں کے جھمکے یا بالیاںچاندی سے زیادہ بنایا جاتا ہے اور یہ دیگر جھمکوں سے الگ ہوتے ہیں کیوں کہ یہ جھمکے زیادہ لمبے ہوتے ہیں جن کو شاد ی بیاہ اور دیگر اہم موقعوں پر پہنایا جاتا ہے ۔
قارئین خواتین کے بن سنورنے کی بات ہو وہاں خواتین ”ہار “ نہ پہنے یہ ہونہیں سکتا ، ہر تہذیب اور ہر قوم میں خواتین ”ہار “پہنتی ہیں البتہ یہ مختلف طریقوں سے تیار شدہ ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح گریز کی بات کریں تو گریز کی خواتین بھی ہار پہنتی ہیں جو اکثر موتیوں، چاندی کے سکوں، یا نیم قیمتی پتھروں کی متعدد تہوں سے بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کے ہار سونے اور چاندی کے بھی بنے ہوئے ہوتے ہیں ۔ہار کی ایک اور قسم جو گریز کی خواتین پہنتی ہیں وہ ڈور ہے، ایک چوکر طرز کا ہار جو گردن کے گرد قریب سے بیٹھا ہوتا ہے، جسے اکثر سکے یا چھوٹے لاکٹ سے سجایا جاتا ہے۔ یہ ہار صرف سجاوٹی سے زیادہ ہیں وہ علامتی معنی بھی رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہاروں پر چاندی کے سکے یا تعویذ پہننے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تحفظ فراہم کرتے ہیں اور بری روحوں سے بچتے ہیں، یہ عقیدہ نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔خیر اس میں کتنی حقیقت ہے یہ دوسرا موضوع ہے تاہم اس طرح کے ہار روایتی طریقے کار کو زندہ رکھنے کےلئے بھی پہنے جاتے ہیں کہتے ہیں نا کہ جس قوم کی روایت ختم ہوجاتی ہے اس کی شناخت بھی ختم ہوتی ہے اور گریز کی دردی اور شینا برادری اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
خواتین کے زیوات کی بات جہاں تک ہے تو زیورات میں کنگن یا چوڑی نہ ہو تو زیورات ادھورا رہ جاتا ہے اور ہر قوم میں چوڑی بھی خواتین کےلئے ایک اہم زیور مانا جاتا ہے ۔ گریز کی خواتین بھی ان چوڑیوں کا استعمال کرتی ہیں ۔ گریز میں کڑہا چاندی یا تانبے کی بنی ہوئی ہوتی ہے جسے خواتین اپنے روایتی زیورات کے جوڑ کے طور پر پہنتی ہیں۔ یہ چوڑیاں عام طور پر موٹی ہوتی ہیں جن میں مختلف نقش نگاری کنندہ ہوتی ہے ۔ جبکہ کسی کسی کڑہے میں مختلف اقسام کے پتھر بھی لگے ہوتے ہیں جو ان کی خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں۔ خواتین اکثر ایک سے زیادہ چوڑیاں پہنتی ہیں جس سے کھنکھناہٹ کی آواز آتی ہے اور یہ کھنکھناہٹ خواتین کی نسوانی خوبصورتی کی علامت ہے ۔
قارئین زیورات میں انگوٹھیوں کا بھی اہم رول ہوتا ہے اورجب کسی خاتون کے کانوں میں جھمکے ہوں، سینے پر ہار ، ماتھے پر ٹکہ اوربازوﺅں میں کنگن ہوں تو انگوٹھی کے بغیر خواتین کے زیورات ادھورے رہتے ہیں ۔ اب اگر ہم انگوٹھیوں کی بات کریں تو انگوٹھیاں پہننے کا رواج نہ صرف خواتین میں ہیں بلکہ مرد بھی انگھوٹھیاں پہنچتے ہیں ۔ اسی طرح گریز میں بھی مرد اور عورت دونوں پہنتے ہیں، حالانکہ وہ انداز اور ڈیزائن میں مختلف ہیں۔ خواتین کی انگوٹھیاں اکثر بڑی اور زیادہ آرائشی ہوتی ہیں، جن میں قیمتی پتھر یا مختلف نمونے ہوتے ہیں، جبکہ مردوں کی انگوٹھیاں عام طور پر آسان ہوتی ہیں۔ یہ انگوٹھیاں جذباتی قدر رکھتی ہیں اور اکثر وابستگی کی علامت کے طور پر شادی کی تقریبات کے دوران ان کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔دوسری بات یہ کہ مرد وں کی انگھوٹیوں میں مختلف اقسام کے پتھر بھی لگے ہوتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پتھر انسان کے ستاروں کے ساتھ میل کھاتے ہیں اور انسان کی قسمت پر یہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔
وادی کشمیر میں پہناوا، ملبوسات اور زیورات کا استعمال اس خطے کو ایک الگ پہنچان دلاتے ہیں اور دور جدید میں جہاں مغربی تہذیب نے ملک کے مختلف حصوں میں ہماری شناخت اور ثقافت کو ختم کیا ہوا ہے وہیں گریز وادی میں لوگ آج بھی پہناوے اور زیورات کی وجہ سے اپنی روایت اور تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں ۔