اننت ناگ کے پرانے شہر کے دامن میں واقع گجی ناگ کاڈی پورہ کی تنگ اور کچی گلیاں اب تباہی کی گواہی دے رہی ہیں۔ گھنا دھواں اب بھی فضا میں معلق ہے، اور جلی ہوئی لکڑی کی تیز بو ہر سانس کے ساتھ ان بدنصیبوں کے پھیپھڑوں میں گھل رہی ہے، جو کبھی یہاں بستے تھے۔ 20 مارچ کی دوپہر، اس قدیم بستی کو اچانک بھڑکنے والی آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس نے پورے محلے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔
چالیس سے زائد خاندان، جو پہلے ہی محدود وسائل میں زندگی بسر کر رہے تھے، اب مکمل طور پر بے یار و مددگار ہو چکے ہیں۔ لکڑی اور مٹی سے بنے ان کے گھر بے رحم شعلوں کے سامنے بے بس ثابت ہوئے۔ عید الفطر کو چند دن باقی ہیں، جو خوشی اور تیاریوں کا موقع ہونا چاہیے تھا، وہ گہرے غم اور غیر یقینی مستقبل میں بدل چکا ہے۔ ہنسی کی جگہ خاموشی اور مایوسی نے لے لی ہے۔
فی الحال، متاثرہ خاندانوں نے قریبی رانی باغ میں لگے خیموں میں پناہ لے رکھی ہے، جبکہ کچھ مہربان پڑوسیوں کے گھروں میں عارضی طور پر رہ رہے ہیں۔ مگر یہ عارضی سہارا کب تک رہے گا؟
“جو کچھ بھی ہمارے پاس تھا، سب ختم ہوگیا،” 65 سالہ عبدالسلام نانوائی کہتے ہیں، جن کی آنکھوں میں مایوسی اور بے بسی جھلک رہی ہے۔ ان کے دو بیٹے، جو یومیہ مزدوری اور آٹو ڈرائیونگ کرتے تھے، پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ “امداد آ تو رہی ہے، لیکن بغیر پناہ کے ہم کہاں جائیں؟”
اسی طرح، 40 سالہ شبیر احمد نانوائی، جو آٹو رکشا چلاتے ہیں، اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے کو دیکھ کر بے بس نظر آتے ہیں۔ “میرے بچوں کی کتابیں، کپڑے، اسکول سکول وردی غرض سب کچھ راکھ ہو گیا،” وہ افسوس سے کہتے ہیں۔
ان کا بھائی عمران، جو ایک الیکٹریشن ہے، اپنی روزی روٹی کے تمام اوزار کھو چکا ہے۔ “میری ایک بیوی، ایک بیٹی، اور ایک بوڑھی ماں ہے، میں کس طرح ان کی ضروریات پوری کروں گا؟” وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں۔
تباہی کے باوجود، مقامی تنظیموں نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ دارالخیریہ بیت المال کھنہ بل اور سید سعادت ٹرسٹ ملک ناگ جیسے فلاحی ادارے متاثرین کے لیے امدادی سامان، سحری اور افطاری کا انتظام کر رہے ہیں۔ محلہ کمیٹیاں متحرک ہو چکی ہیں تاکہ کوئی بھی بھوکا نہ رہے۔ “ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ان کے گھر دوبارہ نہ بنا لیں،” فاروق احمد ریشی، ایک مقامی مسجد کے سربراہ، پُرعزم لہجے میں کہتے ہیں۔
متاثرین اب بھی اپنے گھروں کے ملبے میں کچھ بچا کھچا تلاش کر رہے ہیں۔ ایک ماں آنکھوں میں آنسو لیے کہتی ہے، “ہمارے بچے عید کے لیے بہت پرجوش تھے، لیکن اب نئے کپڑوں اور مٹھائیوں کے بجائے صرف آنسو ملے ہیں۔”
قریبی رہائشی عارف ریشی مایوسی سے سر ہلاتے ہیں، “یہاں زیادہ تر لوگ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ہیں، جو پہلے ہی بڑی مشکل سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ اب، میں سوچ رہا ہوں کہ وہ اپنی زندگیاں کیسے دوبارہ شروع کریں گے؟”
یہ خاندان ایک ایسے وقت میں بے گھر ہوئے ہیں جب عید کی خوشیوں میں رنگ بھرنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اب ان کے لیے سب سے بڑا سوال یہی ہے: وہ اپنے تباہ شدہ گھروں اور اجڑی ہوئی زندگیوں کو دوبارہ کیسے جوڑیں گے؟